آپ حاجی عبدالوہاب کے فرزند تھے، مستی اور جذبہ و حال میں رہتے تھے، زمانہ طالب علمی میں دوسرے طالب علموں سے درس میں سبقت لے جانے کی خواہش کرتے اور کہتے آپ ہمیشہ پڑھتے رہیں گے اور مجھے اپنی فرصت وقت پر بھروسہ نہیں، اللہ ہی جانے کیا حالت ہو، غرض کہ جلد از جلد آپ نے تمام مروجہ کتابوں پر عبور حاصل کرلیا۔ اس کے بعد آپ پر ایسا جذبہ طاری ہوا کہ سب کاموں سے ہاتھ اٹھا لیا۔
دن بھر آپ کے گھر میں روٹیاں پکتی تھیں اور انگیٹھی گرم رہتی تھی۔ آپ نے ایک مرتبہ اپنے دونوں پاؤں اس میں رکھ دئیے اور بہت دیر تک اس میں کھڑے رہے لیکن آپ کے پاؤں پر گرمی کا کوئی اثر تک نہیں ہوا۔
ایک دن اپنے پیر کے پاس گئے اور کہا قسمت میں ہے تو کل پھر آؤں گا، وہاں سے گھر لوٹ کر والدہ سے دریافت کیا کہ اماں جان آپ جانتی ہیں کہ میں سید ہوں، دالدہ نے کہا تم سید تمہارے باپ دادا سید، اس پر آپ نے کہا کہ میں نے باپ دادا کو کب پوچھا یہ بتاؤ کہ میں سید ہوں یا نہیں، اس کے بعد خادم کو بلا کر کہا کہ تم اپنے آقا پر کس طرح روؤ گے، رو کر دکھاؤ چنانچہ اسی روز یا دوسرے، روز دنیا سے رخصت ہوئے، باقی اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔
اخبار الاخیار