اپنے عالی مرتبت والد حضرت محمد عظیم کے شاگرد اور مرید و خلیفہ تھے۔ پدر بزرگوار کے فیضِ نظر سے صاحبِ علم و فضل و خوارق و کرامت تھے۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ سے استفادہ کیا۔
نقل ہے ایک دفعہ موسمِ برسات میں دریائے راوی بڑی طغیانی پر تھا۔ امواجِ دریاشہر لاہور کی فصیل سے ٹکرا رہی تھیں۔ حتّٰی کہ کشتی میں سفر ۔۔۔۔
اپنے عالی مرتبت والد حضرت محمد عظیم کے شاگرد اور مرید و خلیفہ تھے۔ پدر بزرگوار کے فیضِ نظر سے صاحبِ علم و فضل و خوارق و کرامت تھے۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ سے استفادہ کیا۔
نقل ہے ایک دفعہ موسمِ برسات میں دریائے راوی بڑی طغیانی پر تھا۔ امواجِ دریاشہر لاہور کی فصیل سے ٹکرا رہی تھیں۔ حتّٰی کہ کشتی میں سفر کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔ انہی ایّام میں حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش کا سالانہ عرس آگیا۔ آپ نے اپنے مرید عمر الدین سے کہا: آج ہمیں عرس پر جانا ہے۔ اس نے عرض کیا: حضرت پانی اس قدر چڑھا ہُوا ہے کہ کشتی میں بھی عبور کرنا مشکل ہے۔ فرمایا: غم نہ کرو۔ اِن اللہَ مَعَنَا (بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے) پس آپ نے موضع بیگم کوٹ سے دریا میں قدم ڈال دیا اور عمر الدین سے کہا: میرے قدم بقدم چلے آؤ اور دل میں کچھ اندیشہ نہ لاؤ۔ آج پانی ہمارے ٹخنوں تک ہے۔ چنانچہ وُہ بھی حکمِ مرشد کے مطابق آپ کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ اس طرح دریا عبور کر کے مزار حضرات داتا گنج بخش پر پہنچ گئے۔ ۱۲۴۷ھ میں وفات پائی۔ مزار لاہور میں مضافاتِ بیگم کوٹ میں بیان کیا جاتا ہے۔
رفت زیں دیر چوں بخلدِ بریں! گفت بتاریخ وصالش خرد
|
|
حاکمِ دیں شاہ غلام نبی ’’طالب اللہ و غلام نبی‘‘ ۴۷ ھ ۱۲
|