شاہ غلام رشید جونپوری
شاہ غلام رشید جونپوری (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا عبدالرشید جون پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا عبدالرشید جون پوری ، ابن شیخ مصطفیٰ ابن عبدالحمید، ان کا لقب شمس الحق تھا شمسی ، تخلص کرتے تھے۔ شیخ فضل اللہ جون پوری کے شاگرد اور اپنے والد شیخ مصطفےٰ (مرید شیخ محمد مرید(۱)نظام الدین امیٹھوی قدس اللہ اسرار ہم) کے مرید تھے جو اولیا ء کبار اور علمائے کرام سےتھے، شروع میں درس وتدریس میں مشغول رہے پھر اس کو چھوڑ کر کتب حقائق کے مطالعہ میں مصروف ہوگئے، امراءواغنیاء کی صحبت سے پرہیز کرتے تھے۔ شاہ جہاں بادشاہ ان کے اوصاف سن کر ان کی ملاقات کا مشتاق ہوا، وکیل کی معرفت ایک فرمان بلانے کے لیے بھیجا گیا مولانا نے قبول نہ کیا اور گوشہ عزلت سے اپنا پاؤں باہر نہ نکالا۔ مفید تصانیف رکھتے تھے ان میں سے رشیدیہ (مناظرہ)، زادالسالکین، شرح اسرارالخلوۃ رسالہ محکوم مربوط وحاشیہ شرح مختصر عضدی و حاشیہ فارسی بر کافیہ ابن حاجب ومقصود الطالبین دراوراد اور دیوان شعر فارسی مشہور ہیں ان کے انتقال کا واقعہ اس طرح شہرت پذیر ہے کہ جب فجر کی سنّتیں ادا کرکے فرض شروع کیے تو تحریمہ کہنے کے وقت ان کا طائر روح جنت اعلیٰ کو پرواز کر گیا، یہ واقعہ ۱۰۸۳ھ/ ۷۳-۱۶۷۲ کا ہے۔
------------------------
شیخ[1]عبد الرشید: ۱۰۸۳ھ میں پیدا ہوئے،شمس الحق لقب تھا،عالمِ متجر، فاضل ماہر،حاوی فروع واصول تھے،علوم شیخ فضل اللہ سے حاصل کر کے تدریس میں مشغول ہوئے۔آپ کا اختلاط امراء واغنیاء سے بڑی نفرت تھی یہاں تک کہ شاہجہان نے قاصد بھیج کر آپ کو طلب کیا مگر آپ نے جانے سے انکار کردیا اور اپنے گوشہ عزلت سے بالکل باہر نہ نکلے یہاں تک کہ تحریمہ نماز فجر میں وفات پائی۔ آپ نے تصانیف عمدہ کیں جن میں سے رشید یہ مناظرہ میں اور زادا السالکین اور شرھ اسرار الخلوۃ مصنفیہ ابن عربی اور حواشی مختصر عضدی اور کافیہ اور کتاب مقصود الطالبین اور ادمیں اور دیوان اشعار فارسی مشہور و معروف ہیں۔
1۔ شیخ عبدالرشید بن شیخ مصطفیٰ بن عبد الحمید: لقب شمس الحق،شمسی تخلص متوفی ۱۰۸۳ھ، گیارہویں صدی کے فاضل ہیں،شاہجہان کے دورِ حکومت (۱۰۳۶۔۱۰۶۷)میں آپ کا بڑا شہرہ تھا (تذکرہ علمائے ہند)،نزہۃ الخوطر(ج۶،ص،۱۵) میں بارہویں صدی کے ایک بزرگ مولانا عبد الرشید جونپوری کا ذکر آیا ہے جو ملا نظام الدین سہالوی کے شاگرد تھے،انہوں نے ’’العروۃ الوثقٰی‘‘ کا حاشیہ لکھا۔(مرتب)
(حدائق الحنفیہ)
----------------------------
آپ کا پہلا نام نام محمد رشید تھا اپنے مراسلات اور مکتوبات میں یہی نام لکھا کرتے تھے لقب شمس الدین فیاض اور دیوان تھا اپنے والد شیخ مصطفیٰ عبدالحمید خان کے مرید تھے آپ کے والد شیخ محمد بن شیخ نظام الدین انبھیٹوی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے جو شیخ حضروت جونپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے وہ شیخ اللہ داد شارح کافیہ کے مرید تھے اور وہ راجی حامد شاہ اور شیخ حسام الدین قدس سرہم کے مرید تھے آپ کو شیخ طبیب سے خلافت ملی تھی اسی طرح آپ کو دوسرے لوگوں سے بھی فیض ملا تھا آپ وقت کے کاملیں اور بلند مرتبت مشائخ میں سے تھے ابتدائی زندگی میں درس و تدریس میں مصروف رہے مگر آخری عمر میں تمام کو ترک کرکے بڑی بڑی بلند پایہ کتابوں کے مطالعہ میں مشغول رہا کرتے تھے عربی کتابیں خاص طور پر پڑھتے تھے حضرت شیخ محی الدین کی کتاب اسرار المخلوفات پر زبردست شرح لکھی ذکر با الجہر کرکے سماع کی مجالس میں غلو کی حد تک شرکت کرتے تھے علم مناظرہ کی مشہور کتاب رشیدیہ، زادالسالکین، مقصود الطالبین اور ایک دیوان آپ کی یادگاریں ہیں اشعار میں شمسی تخلص تھا شیخ عبد الرشید قدس سرہ ۱۰۵۵ ہجری میں فوت ہوئے۔
چوں رشید آں مرشد اہلِ رشاد
باہزاراں رشد درحقیقت رسید
افضل الاقطاب گو تاریخ او
نیز قطب الاولیا عارف رشید