آپ ایک ہی واسطہ کے ذریعہ میر سید محمد گیسودراز کے مرید تھے بڑے کامل بزرگ تھے۔ مندو میں اس وقت آپ سے بڑھ کر اور کوئی بزرگ نہ تھا آپ مندو کے علاقہ کے بزرگ تھے۔ آپ کی عمر ایک سو بیس برس کی اور آپ کے شیخ کی ایک سو پچاس برس کی تھی۔ کہتے ہیں کہ آپ رجب کے اوائل میں دسویں محرم الحرام تک اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے اور اپنے کمرے کے دروازے کو پتھروں سے بند کروادیا کرتے تھے اور اس چھ ماہ کے درمیان کچھ نہ کھایا کرتے تھے۔ صرف تھوڑا سا پانی پی کر اسی پر اکتِفا کرلیا کرتے تھے۔ اس چھ ماہ کے اعتکاف کو ختم کر کے جب کمرے سے باہر نکلنے کا اِرادہ فرماتے تو اندر سے بلند آواز سے چیختے تاکہ کوئی آپ کے سامنے نہ رہے ورنہ آپ کی جلالی نظر کی تاب نہ لاسکے گا۔ اتفاق سے اگر کوئی آدمی وہاں رہ جاتا اور آپ کی اس پر نظر پڑجاتی تو دو تین دن تک وہ بے ہوش پڑا رہتا تھا شہر کا قاضی آپ کی ولایت و کرامت کا منکر تھا اور اکثر آپ سے احتساب کرتا رہتا تھا ایک دفعہ جب آپ اپنا اعتکاف پورا کر کے کمرے سے باہر نکلے تو اس وقت اتفاق سے شہر کا قاضی وہاں موجود تھا۔ آپ کی نظر جونہی قاضی پر پڑی تو وہ بے ہوش ہوگیا کہتے ہیں کہ ایک بار یہی قاضی ایک ڈولی پر سوار ہو کر آپ کے مکان پر بقصد احتساب آیا آپ کو اطلاع کی گئی، آپ نے اپنے مکان کی کھڑکی سے قاضی کی جانب نظر کی تو قاضی کے کہاروں کے پاؤں زمین میں دھنس گئے اور قاضی کے ہاتھ سے درّہ گر گیا اور قاضی چونکہ شریعت کا بڑا پابند تھا (اس کے عقیدہ میں ذرا برابر بھی فرق نہ آیا) اس لیے درّہ کو زمین سے اٹھایا اور چھت پر چڑھنے کا قصد کیا مگر شیخ خود ہی چھت سے نیچے اترے اور قاضی کا ہاتھ پکڑ کر چھت پر لے گئے وہاں قاضی کی ایک بوتل پر نظر پڑی جس میں شراب تھی۔ پوچھا یہ کیا ہے؟ آپ نے اس میں سے ایک پیالہ بھر کر قاضی صاحب کو دیا جو خالص مصری کا شربت تھا۔ اس کے باوجود بھی قاضی نے اس شربت کو نہ پیا۔
اخبار الاخیار