شاہ مراد قریشی سہروردی
شاہ مراد قریشی سہروردی (تذکرہ / سوانح)
شاہ مراد قریشی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ
آپ کے والد گرامی کا اسم مبارک شیخ کرم شاہ تھا جن کو عرف عام میں مسیتا بھی کہا جاتا تھا، لاہور میں ہی آپ کی ولادت ہوئی، آپ کی پیدائش ۱۷۷۰ء بمطابق ۱۱۹۴ھ سکھوں کی افر ا تفر ی کے زمانہ میں ہوئی، آپ کے والد شیخ ابو الفتح المعروف بہ حضرت شاہ جی کا مزار درگاہ قطب العالم میکلوڈ روڈ لاہور میں ہے۔
وفات ان کی ۱۷۷۹ ء میں لاہور میں ہوئی۔
سلسلسہ سہروردیہ میں اپنے والد گرامی سے خرقہ خلافت حاصل کیا، پیر مراد شاہ کے علاوہ ان کے دیگر بھائی پیر قلندر شاہ، پیر فرح بخش فرحت اور پیر سکندر شاہ لاہور میں پیدا ہوئے، ۱۷۸۱ءمیں آپ اپنے والد کے ساتھ لکھنؤ ہجرت کرکے گئے تھے ،جہاں آپ تقریباً سات سال رہے تھے اور پھر واپس آئے جہاں آپ کے والد بزر گوار کے خسر شیخ نور الحسن قریشی رہائش پذیر تھے، اس عرصہ میں آپ نے بریلی لکھنؤ اور شاہجہان پور وغیرہ مقامات کی سیرو سیاحت کی،آپ کو نواب آصف الہ ولہ کی سرکار میں نوکری بھی مل گئی تھی۔
لاہور میں قحط:
اس زمانہ میں لاہور میں ڈھائی سیر اقحط پڑا جس کی مثال ملنی مشکل ہے، اس وقت لاہور میں سہ حاکمان لاہور گوجر سنگھ،لہنا سنگھ،سو ئبا سنگھ کی حکومت تھی جن کی وحشت اور درندگی سے سارا لاہور سخت پریشان تھا، ۱۷۹۷ءمیں زمان شاہ تیمور شاہ بن احمد شاہ ابدالی نے لاہور پر حملہ کیا تو آپ لاہور میں قیام فرما تھے، آپ نے اس حملے کا حال فارسی میں نظم کیا ہے، ۱۷۸۸ء میں جب کہ آپ کی عمر ۱۸ برس کی تھی لکھنؤ سے ایک منظوم خط اپنے لا ہوری بھائیوں کےلیئے لکھا۔
تصانیف:
آپ فارسی تصانیف میں مر اۃ العا شقین،دیوان مراد،ترجیح بند ما مر یداں بروزن ما مقیماں فارسی دیوان اور اردو دیوان ۔
مراد المحبین مشہور و معروف ہیں۔آپ نے کئی چھوٹی چھوٹی مثنو یاں بھی لکھیں ہیں، ۱۷۱۸ء میں آپ نے اپنے ایک شاگرد حکیم علیم اللہ کی فرمائش پر قصہ چار درویش کو نظم کرنا شروع کیا تھا جو ہنو ز مکمل نہ ہونے پایا تھا کہ آپ کی وفات ہوگئی، آپ کا رجحان مثنوی کی طرف زیادہ تھا، لکھنؤ میں قیام کی وجہ سے آپ کی زبان میں سلامت اور روانی پیدا ہو گئی تھی، کلام میں پختگی ہے ان کی اردو میں ایک نظم،مگس نامہ، بھی ہے، خان محمو د خان شیرانی پروفیسر اور ینٹل کالج لاہور نے اپنی کتاب، پنجاب میں اردو، میں ان کے حالات دیئے ہیں، فارسی مثنوی،مراۃ العا ثقین، آپ نے ۱۷۹۰ء میں لاہور میں تصنیف کی اور ترجیح بند ۱۷۹۷ءمیں مکمل کیا،نامہ مراد،میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔
وہی لاہور ہے شہر لہانور
جو دارلسلطنت سے ہے وہ مشہور
یہ رونق حق نے دی ہے اس مکاں پر
کہ رکھتا ہے شرف سارے جہاں پر
قریب اس شہر کے جائیو ادب سے
ادب لازم ہے دل کا اس سبب سے
کہ قطعہ جنت آسا اک وہاں
جہاں مدفون وہ قطب زماں ہے
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں
پھر آئیو شہر کے اندر شتا بی
جہاں قطب زماں کی ہے حویلی
وہاں مشہور ہے ایک چاہ کھاری
لقب اس کا رہا ہے آہ کھاری
مگس نامہ میں لکھتے ہیں
شہر لاہور قبہ اسلام
روشن آفاق میں ہے جس کا نام
خوبی اس کی تھی شہر آفاق
حسن کا اس کے تھا جہاں مشتاق
اصفہاں ہے جو ایک نصف جہاں
خو بیوں میں نہ تھا کچھ اس سے کلاں
دور و نزدیک تھا یہی مشہور
اپنے نزدیک تھا بہت سا دور
تھا بہشت بر یں بروئے زمین
عجب انسان تھے اس مکاں کے مکیں
ایک سے ایک تھے دو صد چنداں
سب ملائک صفت دے انسان
اولیا و مشائخ و سادات
علماء اک سے اک ستو دہ صفات
شہر تھا یہ کہ کان علم و ادب
کان کیا بلکہ جان علم و ادب
وفات:
۱۸۰۲ء مطابق ۱۲۱۵ھ میں آپ نے مردانہ تحصیل شاہد رہ میں بہ عمر تیس برس وفات پائی، وہیں مدفون ہوئے، یہ قصبہ لاہور سے نا روال جاتے ہوئے مہتہ سوجا ریلوے سٹیشن سے تقر یباً ایک میل پر واقع ہے،آپ نے عین جوانی کے عالم میں بہ عمر تیس سال وفات پائی، آپ کے مزار کے ساتھ ہی ملک مردانہ کھو کھر کا مزار بھی اس قصبہ میں ہے جو حضرت چوہڑ بند گی شاہ رحمتہ اللہ علیہ مرید تھے۔
حاشیہ: قصبہ مردانہ تحصیل فیروز والا ضلع شیخو پورہ میں کھو کھر راجپو توں کی پانچ بستیوں میں ایک بستی ہے اس جگہ سلسلہ عالیہ قادریہ نو شا ہیہ کے با وقار عالم حضرت قبلہ مولانا مولوی محمد اعظم صاحب نوشاہی میر و والی کے ایک مقتد ر خلیفہ بابو محمد یوسف نو شاہی کی آرام گاہ ہے۔ کھو کھر راجپو تاں کے پانچوں گاؤں میں اکثر یت بابو صاحب کے مقتد ین کی ہے، موضع مردانہ سے صرف تین میل بجا نب جنوب حضرت مولانا محمد اعظم کے ایک اور مقتد ر خلیفہ حضرت قبلہ حاجی مولانا مولوی حسین بخش صاحب مدظلہ العالی موضع بریار نو میں قادری نو شاہی سلسلہ کی نو رانیت سے علاقہ کو انوارو تجلیات کا گہو ارہ بنائے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور صحت میں برکت عطا فرمائے آمین۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)