حضرت شاہ قمیص
حضرت شاہ قمیص (تذکرہ / سوانح)
آپ سید ابی الحیوۃ کے صاحبزادے تھے، آپ کا سلسلہ بھی سید عبدالرزاق تک منتہی ہوتا ہے، جنگال سے فقرو تجرد کے لباس میں ہندوستان کے قصبہ سالورہ خضرآباد آکر مقیم ہوئے، یہاں شاہ نصراللہ کی بیٹی سے شادی کی، شادی ہی کی وجہ سے آپ نے سالورہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی، سالورہ اور اس کے گردونواح کے اکثر لوگ آپ کے عقیدت مندی کے ساتھ مرید ہوئے، اکثر درویش جو آپ کی صحبت میں رہے اور اپنے کو آپ ہی کے سلسلہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ان درویشوں میں سے شاہ عبدالرزاق جو شیخ بہلول نام سے مشہور تھے وہ بھی آپ ہی کے مرید اور خلیفہ تھے، یہ شیخ بہلول علم شریعت اور طریقت میں کامل ولی تھے، جوانی ہی میں عبادت اور نیک کاموں کی طرف مائل تھے اپنی سعادت مندی کی وجہ سے جب علوم ظاہری سے فارغ ہوئے اور اخلاق حمیدہ کے لباس سے مزین ہوگئے تو اس کے بعد حق گوئی میں ان جیسا اور کوئی درویش نہ تھا، یہ لوگوں میں سلوک کی تلقین اس طرح کرتے تھے کہ لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع میں ثابت قدم رہو، واقعہ یہ ہے کہ ایسا بلند کردار شخص کا میاب ہوتا ہے۔
شاہ قمیص نے بنگال میں وفات پائی کیونکہ بادشاہ وقت نے آپ کو اپنے ایک ضروری کام سے بنگال بھیجا تھا، وہاں سے 3؍ذی قعدہ 992ھ کو سالورہ میں لاکر آپ کی میت سپرد خاک کی گئی۔
اس عظیم الشان خاندان کا سلسلہ ہندوستان میں ویسے ہی مشہور ہے جس طرح ہم نے بیان کیا اور سید شاہ محمد فیروز آبادی نے بھی اسی سلسلہ کی طرف نسبت کا دعویٰ کیا ہے، شاہ محمد فیروز آبادی کے متعلق ہندوستان میں ایک عجیب و غریب واقعہ مشہور ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ دکن کے علاقہ سے دہلی آئے اور خود کو حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کے سلسلہ کی آخری کڑی کہنے کی دھوم مچائی، چونکہ طور طریقے، ورد وظائف شکل و صورت، مشغولیت عبادت وغیرہ اوصاف حمیدہ اور افعال ممدوحہ آپ کے اندر موجود تھے اس لیے دہلی والے آپ کے بڑے جلدی معتقد ہوگئے، یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ سلطان ابراہیم کو ظہیرالدین بابر کی جانب سے حملہ کا خطرہ لاحق تھا، سلطان ابراہیم کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے فقیروں اور درویشوں سے دعائیں کرایا کرتا تھا لیکن قضا و قدر کے آگے کسی کی پیش نہیں جاتی، اس لیے ابراہیم کا مقصد حاصل نہ ہوا اور سلطان ظہرالدین بابر کو فتح ہوئی، اس کے دور حکومت میں بھی سید شاہ محمد ایک عرصہ تک فیروز آباد کے قلعہ میں مقیم رہے، نیز سلطان نصیرالدین کے زمانے میں بھی آپ کی بڑی قدرومنزلت تھی، البتہ اسلام شاہ ابن شیر شاہ لودھی کے زمانے میں آپ کی بزرگی کو چار چاند لگ گئے تھے اور وہ آپ کا اتنا معتقد ہوا کہ جس کی کوئی انتہا نہ تھی، بادشاہ کو آپ کا معتقد دیکھ کر دیگر ارکان دولت اور عوام بھی جوق در جوق آپ کے مرید ہوگئے علاوہ ازیں بعض درویش بھی آپ سے بیعت کرکے خلافت کے مستحق ہوئے، خلاصہ یہ کہ اس دور میں آپ کی مشیخت کا ڈنکا بجتا تھا۔
اسی زمانے میں دو بزرگ سید زادے باہر سے دہلی آئے، ایک کا نام میرشمس الدین محمد تھا جو بڑے ذی علم، فلسفی، ہرفن مولا اور علم طب میں بے مثل تھے انہوں نے اپنی تمام زندگی تجرد میں بسر کی اور پوری دنیا کا سفر کیا تھا، وہ چند کتابیں اور دو تین خدمت گار بھی اپنے ہمراہ رکھتے تھے، بڑے باہمت تھے ایک عرصہ تک کابل میں بھی رہے نصیرالدین ہمایوں کو ان سے بڑی عقیدت تھی۔
دوسرے بزرگ کا نام سید ابو طالب تھا، خوبصورت اور نوجوان تھے زمانے کے حوادث کی وجہ سے اپنے وطن بغداد سے نکلے تھے، بعض سفر میں میر شمس الدین محمد اور ان کا اکٹھا سفر کرنے کا اتفاق بھی ہوا تھا، چونکہ ان دونوں میں اسلامی اخوت اور محبت پیدا ہوگئی اس لیے دونوں نے ہندوستان آنے کا ارادہ کرلیا اور اس سفر میں دونوں شریک ہوگئے۔
سید محمد شاہ فیروز آبادی نے جب ان دو بزرگوں کی آمد کی خبر پائی تو ان کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتے رہے، آپ کی کئی لڑکیاں تھیں ان کی شادی کی یہاں کوئی صورت نظر نہ آتی تھی، ان دونوں بزرگوں کے آنے سے قبل بھی آپ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ ہم عربی النسل ہیں اور عرب ہی میں ہمارے عزیز و اقارب موجود ہیں جو شریف اور نجیب لوگ ہیں اگر وہ یہاں آجائیں تو میری لڑکیوں کی شادیاں ان سے ہوجائیں اور یہ دونوں بزرگ چونکہ نو وارد تھے اور اس علاقہ میں بے یارو مددگار بھی تھے ان کو آپ نے اپنا مہمان بنا لیا، ان کی خاطر تواضع میں آپ نے کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی، کئی روز گزرنے کے بعد آپ نے سید ابو طالب کو اپنی لڑکی سے شادی کا پیغام بھجوایا، ابوطالب نے جواب دیا کہ میں مسافر ہوں اب تک تجرد کی زندگی بسر کرتا رہا اور اب بھی یہی خواہش ہے، شادی کے معاملے میں مجھے معذور سمجھا جائے، اتفاق ایسا ہوا کہ اچانک ان دونوں بزرگوں کو کسی نے آپ کے گھر ہی میں قتل کردیا، لوگوں میں ان کے اچانک قتل ہوجانے پر ایک شور مچ گیا اور لوگ نہایت ہی افسردہ تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کربلا کا منظر سامنے ان دونوں بزرگوں کے جنازے سیاہ جھنڈیوں کے ساتھ اُٹھائے گئے اور لوگوں میں ایک کہرام برپا تھا۔ بچے، بوڑھے، مرد، عورتیں سب ہی رو رہے تھے اور دیوانوں کی مانند نوحہ اور غم کررہے تھے ان کے قضیہ کو ان اشعار میں بیان کیا گیا ہے۔
بازاے فلک زبہر خدا ایں چہ ماجرا است
بازایں چہ ظلم ایں چہ حسیں ایں چہ کربلا است
بازایں چہ کوفہ ایں چہ فراق است انیچہ وقت
عاشور نیست ورنہ قضیہ بعنیہا است
ایں زہر باز حسن و مجتبیٰ کہ داد!
ایں تیغ باز برسرِ شیرِ خدا کر است
باز ایں چہ ہجرایں چہ فِراق ایں چہ محنت است
باز ایں چہ درد ایں چہ الم ایں چہ ابتلا است
باز ایں چہ غصہ درجگر انس وجاں نشست
باز ایں چہ فتنہ درسر کون و مکاں نجاست
باز ایں باہل بیت نبوت کہ ظلم کرد
باز ایں بخاندان پیمبر ستم کہ خواست
آن ریش کہنہ را دگرا ازسر کہ تازہ کرد
وایں داغ خشک راد گر ازبر کہ پوست کاست
اے وائے بر مَحَبت دنیا وکار او!
زنہار دل مبند بریں کاروبار او۔۔۔آہ!
خیر ان دونوں بزرگوں کو مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے حرم میں دفن کردیا گیا، ابھی تک ان دونوں بزرگوں کے مزار موجود اور زیارت گاہ مخلوق ہیں، اور یہ واقعہ 995ھ میں معرض وجود میں آیا۔ اس جانکاہ واقعہ کو لوگوں نے شاہ محمد کی طرف منسوب کیا اسی وجہ سے شہر کے تمام لوگوں نے آپ سے بدظن ہوکر بیعت توڑ دی اور جو ا رادت مند تھے وہ نکیر کرنے لگے، جو دوست تھے دشمن ہوگئے، جو قریب تھے انہوں نے دوری اختیار کرلی، چنانچہ اس واقعہ کی تحقیق کے لیے تاج خاں اور شیخ فرید جو صوبہ دہلی کے دس ہزاری رئیس تھے شیخ شاہ محمد کے گھر آئے اور آپ سے پوچھا تو آپ نے قتل سے انکار کیا اور فرمایا کہ ایسا ذلیل کام میں ہرگز نہیں کرسکتا بلکہ مجھے اس قتل کی اطلاع تک نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی اب تک پتہ چل سکا ہے البتہ اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ چور ہمارے گھر میں آئے اور انہوں نے ان دونوں بزرگوں کو قتل کر دیا۔
شیر شاہ لودھی جو اس وقت کا بادشاہ تھا اس نے یہ قضیہ علماء کے سپرد کیا اور کہا کہ اس کا فیصلہ شریعت کے حکم کے مطابق کیا جائے، چنانچہ لاہور، دہلی، جونپور وغیرہ کے بڑے بڑے تمام علماء جمع ہوئے اور شاہ محمد کو بلا کر دریافت کیا، آپ نےقتل سے انکار کر دیا۔ اور بھرے مجمع میں کہا کہ آپ لوگوں کو جو کچھ کرنا ہے کیجیے لیکن میں مظلوم بے گناہ اس واقعہ سے بالکل بے خبر ہوں۔ مظلومیت، اہل بیت کا ایک قدیمی شِعار ہے جو ہم کو وراثت میں مِلا ہے۔ آپ لوگ مجھ پر جو ظلم و ستم کریں گے میں اس پر صبر کروں گا تمام علماء نے آپ کے اس مقدمہ میں بے انتہا تحقیق و تفتیش کی مگر کوئی ایسا شرعی ثبوت نہ مل سکا کہ جس کی بنا پر آپ کے قتل کا فتویٰ دیتے اور مقدمہ کی کارروائی کے دوران آپ جیل خانہ میں ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کرتے رہے۔
شیخ امان پانی پتی کو علماء کے اس بورڈ میں متعدد بار دعوت دی گئی مگر انہوں نے ہر بار شرکت سے انکار کردیا اور فرمایا کہ کسی معاملہ میں اگر اہل بیت کی تو ہین کی جا رہی ہو اور اس میں امان بھی شریک ہو تو اس کا ٹھکانہ جہنم کے سوا اور کچھ نہ ہوگا حالانکہ میری تمنا تو یہ ہے کہ میں آخرت میں اللہ کے حضور باعزت طریقے سے پیش ہوں، اس لیے شرکت سے معذور ہوں، ان دونوں بزرگوں کے قتل ہوجانے پر مجھے صدمہ ہے مگر اس کے عوض میں ایک دوسرے سید کی توہین اور قتل اس سے بھی زیادہ مذموم ہے، ان دونوں سیدوں کے قتل کی خبر سن کر میرا دل پارہ پارہ ہوگیا ہے اگر تیسرا خون بھی ہوگیا تو میرا وجود ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا، سید شاہ محمد سے تو یہ فعل ہر گز سرزد نہیں ہوسکتا، ایسی افعال کا ارتکاب تو ایک چھپی ہوئی مخلوق کرتی ہے، چنانچہ سید شاہ محمد جیل خانہ کے اندر ہی وفات پاگئے، ان کی نعش کو پاؤں میں رسیاں باندھ کر لوگوں نے بازار میں گھسیٹا اور پھر دہلی کے قلعہ کے باہر دفن کردیا۔
آپ کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے تھے جو کھانا کھارہے تھے ان میں سے کسی نے جمی ہوئی دہی کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے فوراً ہی دہی کا کونڈا مہمانوں کے سامنے لا کر رکھ دیا، ابھی یہ لوگ کھانا کھارہے تھے کہ ایک عورت روتی ہوئی آئی اور کہنے لگی کہ ابھی ایک سیاہ فام ننگا لڑکا میرا دہی کا جما ہوا کونڈا اُٹھا کر آپ کے گھر لایا ہے چنانچہ آپ نے اس عورت کو کچھ دے کر واپس کردیا۔
کہتے ہیں کہ شاہ محمد کے قبضہ میں جن تھے اور یہ واقعہ اسی کی ایک کڑی ہے اس کے بعد اکثر لوگ آپ کی عقیدت اور محبت سے برگشتہ ہوگئے، شیخ محمد عاشِق جو سنبھل کے رہنے والے تھے وہ آپ کے مرید اور خلیفہ تھے، یہ بڑے صاحب حال اور صاحب ذوق بلند ہمت بزرگ تھے اور سخت مجاہدہ اور ریاضت کیا کرتے تھے، شیخ حسن سرمست جوہر کانو میں رہتے تھے یہ بھی آپ ہی کے مرید تھے۔
اخبار الاخیار