حضرت شاہ صفی اللہ سیف الرحمٰن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
سیّد شاہ مقیم محکم الدین صاحب حجرہ کے فرزندِ ارجمند تھے۔ جامع علومِ ظاہر و باطنی اور واقفِ رموزِ صوری و معنوی تھے۔ اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد سجادہ نشین ہُوئے۔ آپ کی زبان سے جو کچھ نکلتا تھا ویسا ہی ظہور میں آتا تھا اس لیے سیف الرحمٰن مشہور ہُوئے۔
نقل ہے ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کے باغ کا فلاں درخت خشک ہوگیا ہے۔ فرمایا: نہیں سرسبز ہے۔ وہ شخص فوراً بنظرِ امتحان وہاں پہنچا، دیکھا کہ وہ درخت واقعی سرسبز و شاداب ہے۔ نقل ہے آپ نے جب اپنے پدر بزگوار کا مقبرہ تعمیر کرنے کا ارادہ فرمایا تو معمار کو بلا کر کہا کہ تعمیرِ مقبرہ کا تمام تخمینہ کاغذ پر لکھ دو تاکہ تمام خرچ یک بار تمھیں پیشگی دے دیا جائے۔ معمار نے اسی وقت تخمینہ لگا کر اور کاغذ پر لکھ کر حاضرِ خدمت کیا جو چند ہزار روپے پر مشتمل تھا۔ آپ نے کاغذ کو دیکھ کر مصلّے کا کنارہ اٹھایا اور کہا: اپنے تخمینے کے مطابق مطلوبہ رقم لے لو۔ معمار نے جب وُہ رقم شمار کی تو عین اپنے حساب کے مطابق پائی۔ مقبرہ کی تعمیر شروع ہو گئی مگر چند روز بعد معمار پھر حاضرِ خدمت ہُوا اور عرض کیا: حضرت وُہ رقم اندازے کے مطابق پوری نہیں ہوگی، کچھ مزید ضرورت پڑے گی۔ فرمایا: تیرے لکھے ہوئے کے مطابق مجھے غیب سے جو عطا ہُوا تھا۔ تجھے دے دیا۔ اب دوبارہ مانگتے ہوئے شرم آتی ہے اِن شاءاللہ اسی میں سب کچھ پُورا ہوگا۔
۱۰۸۰ھ میں بعہدِ عالمگیر وفات پائی۔ مزار بمقام حجرہ واقع ہے۔
چوں صفی شد از جہاں باصد صفا
واں ’’صفی اللہ ولیِ محتشم‘‘!
۱۰۸۰ھ
رحلت آں شاہِ مخدومِ سعید
ہم ’’صفی اللہ مخدومِ سعید‘‘
۱۰۸۰ھ