ابتدائی عمر میں آپ آپ بادشاہوں کی خدمت میں رہا کرتے تھے اور بڑے دولت مند تھےاس کے بعد جذبہ الٰہی میں تمام متاع دنیا کو پائے حقارت سے ٹھکراکر شیخ حسام الدین مانک پوری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے پاس رہ کر ذکر اللہ وغیرہ اشغال میں مشغول رہے اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔
کہتے ہیں کہ آپ اپنی جوانی میں ایک عورت پر بُری طرح فریفتہ تھے، درویش بننے کے بعد خرقۂ خلافت پہن کر ایک روز اس عورت کے پاس گئے تو اس عورت نے کہا کہ سیدو! اب تو تم الہیہ بن گئے ہو، یعنی گدا اور فقیر، فقیر کو ان کے ہاں الہیہ کہتے تھے، اس کے بعد آپ کا لقب ہی سیدو الہیہ ہوگیا اور وہ عورت بھی مَحَبت کی وجہ سے آپ کی خدمت میں آگئی اور فقیر بن گئی، شاہ سیدو فن شاعری میں بھی دسترس رکھتے تھے چنانچہ آپ کے اشعار میں سے ایک شعریہ ہے
دل گویدم سیدد بگو احوال خودیک یک بر او
آندم کو خودمی آید او سید و کجا گفتار کو!
ایک مرتبہ شیخ حسام الدین راجی حامد شاہ اور شیخ سیدو تینوں بزرگوں کے پاس کوئی کپڑا نہ تھا، صرف ایک روئی کی قباء تھی، چنانچہ شیخ سلام الدین نے اس رقباء کے تین حصہ اس طرح کیے کہ ایک کوابرہ اور دوسرے کو استرا اور روئی خود پہن لی اور اوپر سے کچھ دھاگے لپیٹ لیے، اب ان بزرگوں کے پاس پر اوڑھنے کے لیے کوئی کپڑا نہ تھا، چنانچہ اسی حالت میں تینوں بزرگ جامع مسجد کی جانب متوجہ ہوئے راستہ میں ایک آدمی نے حلوا پتوں میں لپیٹ کردیا تو حلوے کو آپس میں تقسیم کرنے کے بعد ان پتوں کو ٹوپیاں بنالیں۔ شاہ سیدو کا مزار فتح پور ہنسوہ میں ہے جو کڑامانک پور کے قریب ہے۔
اخبار الاخیار