حضرت شاہ سلیمان قادری
حضرت شاہ سلیمان قادری (تذکرہ / سوانح)
آپ حضرت شاہ معروف چشتی قادری(خوشابی) کے کاملین خلیفوں اور اکابر سجادہ نشینوں سے تھے۔ جذب، عشق و محبت، سکر، حالت اور خوارق و کرامت میں بلند مقام اور اعلیٰ مرتبہ رکھتے تھے۔ چار سال کی عمر میں حضرت شاہ معروف چشتی کی نظر مبارک میں منظور ہوئے اور آپ پر سکر اور جذب کی حالت غالب ہوگئی۔ آپ کے والد صاحب میاں[1] منگو موضع بھلوال[2] میں سکونت رکھتے تھے۔ ایک بار حضرت شاہ معروف اس گاؤں میں تشریف لائے اور میاں منگو کے گھر میں رات رہے۔ تمام رات وُہ اُن کی خدمت میں حاضر رہے۔ اُس وقت شاہ سلیمان ابھی خوردسال تھے۔ اپنے گھر کے صحن میں کھیل رہے تھے۔ جب شاہ معروف کی نظر شاہ سلیمان کے جمالِ باکمال پر پڑی تو نہایت شفقت سے آپ کے چہرہ پر ہاتھ پھیرا اور آپ کی پیشانی پر بوسہ دیا اور میاں منگو کو فرمایا کہ یہ لڑکا ہماری امانت ہے اور یہ ایسا کامل مرد ہوگا کہ جہان اس کے فیض سے بہرہ ور ہوگا۔ جب شاہ معروف رخصت ہو کر چلے گئے، میاں منگو اس گوہر لڑکے کی تربیت میں مشغول ہوگئے۔ شاہ سلیمان کو بچپن میں ہی اکثر اوقات حالتِ وجد طاری ہو جایا کرتی تھی۔ جب جوان ہُوئے تو شاہ معروف کی خدمت میں پہنچ کر تکمیل پائی اور کاملانِ وقت سے ہوگئے اور خرقۂ خلافتِ قادریہ حاصل کیا۔ شاہ سلیمان سماع سنتے اور وجد و تواجد کرتے تھے۔ آپ کے دو(۲) خلیفے کامل و اکمل تھے ایک ایک مولانا کریم الدین، دوسرے حضرت حاجی محمد نوشہ گنج بخش قدس سرہ العزیز۔
کتاب تذکرہ نوشاہی میں جو حافظ محمد حیات بن شیخ جمال اللہ بن حافظ برخوردار بن حاجی نوشہ گنج بخش کی تصنیف سے ہے۔ لکھا ہے کہ جن ایّام میں شاہ سلیمان موضع[3] منچر میں تشریف رکھتے تھے اور ایک موچی کے گھر ڈیرہ کیا تھا، ہر وقت اور ہر حال میں مراقبہ میں سر نیچے کئے رکھتے تھے۔ ایک کم بخت جولاہا اُس موچی کا ہمسایہ تھا، وُہ اپنی بد باطنی کی وجہ سے شاہ سلیما ن کی نقل کیا کرتا تھا نقل کرنے کے وقت اسی طرح اپنی گردن ٹیڑھی کر کے مراقبہ میں بیٹھ جاتا اور تمسخر کیا کرتا تھا۔ ایک روز آپ راستے میں جا رہے تھے اتفاقاً وُہ جولاہا آگے سے آتا ملا۔ آپ نے اس کو مخاطب کر کے فرمایا کہ فقیروں کی حالت کی نقل بنانا اور تمسخر کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ ایسی حرکت سے باز آجا ورنہ سزا پائے گا۔ جولاہے نے گستاخانہ جواب دیا کہ میں نے تمہارے جیسے کئی مکّار فقیر دیکھے ہوئے ہیں، جا اپنا کام کر۔ شاہ سلیمان نے فرمایا کہ جس طرح میری غیبت میں تو میری [قصبہ بھلوال اس وقت ضلع سرگودھا کی ایک تحصیل ہے۔ خزینۃ الاصفیا کے کاتب نے اسی کو بھیلو وال لکھا ہے[حالت کی نقل کرتا ہے۔ ایسا ہی میرے سامنے کرتا کہ میں بھی دیکھوں۔ وہ جولاہا بیوقوفی کی وجہ سے زیادہ گستاخ ہوگیا، اسی طرح دو زانو بیٹھ کر گردن ٹیڑھی کر کے مراقبہ میں سر ڈال دیا۔ اسی وقت اس کی گردن ٹیڑھی ہو گئی اور پھر تا مرگ سیدھی نہ ہوسکی۔ ہر چند اُس نے عذرت و معذرت کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔
نقل ہے کہ موضع چک ساہن پال کے سردار چودھری[4] مہمان کے چار بیٹے تھے۔ چوتھا بیٹا ساہن پال نامی تھا، جب اُس نے شاہ سلیمان کی خوراق و کرامت کا شہرہ سُنا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا۔ روانگی کے وقت اپنے باپ سے چالیس(۴۰) روپے شاہ سلیمان کے نذرانہ کے لیے طلب کیے۔ چونکہ چودھری مہماں شیخ سلیمان چدھڑکے مریدوں سے تھا، اس نے اپنے بیٹے کو کہا کہ تُو ایسے شخص کے پاس جانا چاہتا ہے جو موچی[5] قوم سے ہے، اس کو چالیس روپے نذرانہ دینا کیا معنیٰ، اس کے لیے چار روپے بھی کافی ہیں۔ ہاں اگر شیخ سلیمان چدھڑ کے پاس جائے تو اس قدر نذرانہ دینے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ آخر ساہن پال نے اپنے باپ کی بات نہ سُنی اور اپنے گھر سے چالیس روپے لے کر موضع بھلوال میں حضرت شاہ سلیمان کی خدمت میں مشرف ہُوا اور چالیس روپے نذرانہ پیش کیا۔ آپ نے چار روپیہ اس میں سے قبول کر لیے اور فرمایا کہ تیرے والد کی اجازت اسی قدر تھی اس لیے میں نے چار روپے لے لیے ہیں اور میں نے خدا تعالےٰ سے التجا کی ہے کہ مہماں کا سر موچیوں کی چمڑا کوٹنے والی مُنگلی سے کُوٹا جائے گا۔ پس اسی طرح واقع ہُوا۔ اس کے بعد چند روز گزرے تھے کہ چودھری مہمان نے اپنی بیوی کو جو ساہن پال کی والدہ تھی کسی وجہ سے غصے ہو کر کہا کہ کل میں تجھے جان سے مار ڈالوں گا اور مہمان کی یہ عادت تھی کہ جو بات منہ سے کہتا، وہ پوری کرتا۔ اس سے باز نہیں آتا تھا۔ اُس کی عورت کو اپنی جان جانے کا فکر پڑ گیا۔ اپنے ہمسایہ ایک موچی کو یہ سب داستان سُنائی اور اپنے قتل ہوجانے کا فکر اُس کے سامنے بیان کیا اور اس سے کچھ مدد طلب کی۔ موچی نے اس کو تسلّی دی اور کہا: کچھ فکر نہ کرو میں آج رات کو ہی اُس مُوذی کا کام تمام کردُوں گا۔ چنانچہ جب رات کا ایک حصّہ گزر گیا اُس موچی نے چودھری کا جب کہ وُہ سو رہا تھا اپنی مُنگلی(چرم کوب) کی ایک ضرب سے ہی سر کُوٹ کر کام تمام کردیا۔
حضرت شاہ سلیمان کی وفات اقوالِ صحیح کے مطابق ۱۰۶۵ھ میں ہے۔ ؎
سلیمان مقتدائے ہر دو عالم |
|
شہِ دیں پیشوائے اہلِ دوراں |
[1]۔ میاں منگو کا اصلی نام شیخ عبداللہ تھا جو ایک قلمی شجرہ نسب مکتوبہ ۱۲۲۱ھ میں لکھا ہوا ہے۔ (شریف التواریخ جلد اول موسوم بہ تاریخ الاقطاب قلمی۔ تصنیف شرافت نوشاہی۔
[2]۔ قصبہ بھلوال اس وقت ضلع سرگودھا کی ایک تحصیل ہے۔ خزینۃ الاصفیا کے کاتب نے اسی کو بھیلووال لکھا ہے۔
[3]۔ موضع منچر ضلع گوجرانوالہ میں ایک گاؤں ہے، اور وزیرآباد سے لائل پور جانے والی سڑک پر ریلوے سٹیشن ہے۔
[4]۔ چودھری مہماں، قوم جٹ تارڑ سے ابو الخیر ولد امین ولد پھرنا کا بیٹا تھا اور موضع چک ساہن پال کے بانی چودھری ساہن پال کا بیٹا تھا۔ (حدیقۃ الانساب قلمی تصنیف شرافت نوشاہی)۔
[5]۔ شاہ سلیمان قریشی النسب تھے۔ آپ کی نسب نامہ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کے ہم جدی خاندان سے ملتا ہے اور اسد بن عبدالعزّٰی بن قُصّی القرشی پر نسب نامہ نبوی سے متصل ہوجاتا ہے۔ یہ پورا نسب نامہ شریف التواریخ کی پہلی جلد موسوم بہ تاریخ الاقطاب قلمی۔ تصنیف سیّد شرافت نوشاہی میں مذکور ہے۔ نیز شاہ سلیمان کا مہمان کے قول سے جلالت میں آنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ موچی نہ تھے کیونکہ اولیاء اللہ جو ربانی جماعت ہے، سچی بات کہنے سے ناراض نہیں ہوتے۔
بالفرض اگر آپ نے یہ کسب کیا ہو تو بھی نسب میں کچھ فرق نہیں آسکتا۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ کے القاب میں سے ایک لقب خَاصِفُ النَّعل (جُوتی گانٹھنے والا) بھی تھا اس سے آپ کے نسب و شرف میں کچھ فرق نہیں پڑا بلکہ کمال تواضع کا اظہار ہوتا ہے۔
[6]۔ شاہ سلیمان قادری کا صحیح سالِ وفات ۱۰۱۲ھ ہے جو لفظ ’’غیب‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ (شریف التواریخ جلد اول موسوم بہ تاریخ الاقطاب قلمی تصنیف سیّد شرافت نوشاہی۔