میاں قاضی خاں کے خلیفہ اور متاثرین مشائخ چشتیہ کے مشہور بزرگ تھے۔ علوم شریعت و طریقت کے عالم تھے، بچپن سے عبادت و ریاضت اتنی کی کہ مشائخ کے مرتبہ پر پہنچ گئے، بچپن میں جو وظیفہ اور اوقات مقرر کیے تھے وہ آخر عمر تک باقی رکھے۔ مشائخ کی پیروی اور ان کے قواعد اور آداب کی حفاظت میں یکتائے زمانہ تھے، تواضع برد باری، صبر استقامت رضا و تسلیم الٰہی، مخلوق پر شفقت اور فقیروں کی رعایت کرنے میں اپنی مثال آپ تھے، اپنے زمانے میں مشائخ چشت کی یادگار تھے دہلی میں آپ کی وجہ سے سلسلہ ارشاد و مشیخت قائم تھا۔ قوالی سنتے تھے کہتے ہیں کہ رحلت کے وقت بھی ذوق و حالت کی کیفیت تھی۔ آپ نے یہ آیت پڑھ کر انتقال فرمایا فسبحان الذی بیدہ ملکوت کل شئی والیہ ترجعون ترجمہ: (پروردگار عالم کے دست قدرت ہی میں تمام چیزوں کی ملکیت ہے اور اسی کے پاس سب کو جانا ہے)۔
من مصنف کے والد بزرگوار شیخ سیف الدین فرماتے تھے کہ ہم نے شیخ عبدالعزیز کو جوانی کے عالم میں دیکھا تو ہم رونے لگےکیونکہ ان کے چہرے بشرے سے شوق الٰہی اور غربت ٹپکتی تھی۔ شیخ عبدالعزیز 898ھ میں بمقام جو نپور میں پیدا ہوئے۔ ڈیڑھ سال کے تھے کہ اپنے والد کے ساتھ دہلی آئے اور 6 جمادی الاخریٰ 975ھ کو انتقال کیا، آپ کا مزار آپ کی خانقاہ کے صحن میں ہے، میں نے ان کی تاریخ وفات یہ کہی ہے۔
قطعہ تاریخ وفات
شیخ کامل عارف دوراں خود عبدالعزیز
آنکہ می داد اہل دل را مجلسش یادار ز ہشت
ہرچہ ازاوصاف اہل اللہ درعالم بود
حق تعالیٰ ازازل فطرت بذات اوسرشت
یاد گار اہل چشت اوبود ور دوران خود
گشت ازاں تاریخ فوتش یادگار اہلِ بہشت
شیخ عبدالعزیز کے ایک محترم بیتے شیخ قطب عالم ہیں۔ جو عالم فاضل خوش اخلاق خوش سیرت ہیں، صدق و استقامت میں اپنے والد کے سجادہ نشین تھے اکثر و بیشتر اطاعت و عبادت میں مشغول رہتے تھے۔
شیخ عبدالعزیز کے سب سے بڑے خلیفہ شیخ جائیلدہ ہیں جو تمام خلفاء اور مریدوں میں خصوصیت عزت اور رازداری کے مالک ہیں۔ بعض لوگ انہیں شیخ کا جانشین کہتے ہیں۔ شیخ کے دوسرے خلیفہ شیخ عبدالغنی بدایونی ہیں جو عالم عامل صاحب حال ریاضت و گوشہ نشینی کے باوجود تمام آداب سلوک سے متصف ہیں اور دہلی کے وسط فیروز شاہی عمارت کی مسجد میں بیٹھے اللہ کی عبادت کررہے ہیں ان کے طور طریقہ اور حالات سے استقامت اور قوت کے آثار نمایاں ہیں۔
اخبار الاخیار