حضرت شیخ عبدالغفور اعظم پوری
حضرت شیخ عبدالغفور اعظم پوری (تذکرہ / سوانح)
آپکے دوسرے خلیفہ حضرت شیخ عبدالغفور اعظم پوری تھے۔ اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ کو خواب میں دیکھا اور آنحضرتﷺ نے انکو یہ درود شریف تلقین فرمایا اللھم صل علیٰ محمد وآلہ بعد واسمائک الحسنیٰ۔ آپکے کوچہ پر طریقت میں آنے کا واقعہ یہ ہے کہ آپ کا پیشہ ملازمت تھا اور ہمیشہ سپاہ گری کرتے تھے۔ ایک دن بازار میں کھڑے تھے جب حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کے کے دنیا اور اسکی مذمت کا ذکر تھا۔ پڑھتے ہی آپکے دل سے دنیا کی محبت جاتی رہی اور سارا مال واسباب راہ حق میں دیکر خلوت نیشن ہوگئے اور یاد خدا میں مشغول ہوئے ایک رات آخر شب آپ خلوت میں بیٹھے تھے کہ سامنے کی دیوار پھٹ گئی اور وہاں سے ایک سوار نمودار ہوا جس نے آپ سے کہا ’’السلام علیکم یا سراج العارفین‘‘ یہ کہہ کر دوسری طرف یعنی مشرق کی دیوار سے نکل گیا۔ اسی طرح چالیس ابدال مقابل کی دیوار سے آئے اور سلام کر کے مشرق کی دیوار سے نکل گے۔ آخری آدمی نے کہا کہ کیوں بیٹھے ہیں اٹھیں اور مردِ خدا کا دامن پکڑیں۔ کیونکہ یہ کام خود بخود نہیں ہوتا۔ اُسی روز سے آپکو دل میں آگاہی پیدا ہوئی اور دوسرے دن باہر نکل تلاش شیخ میں جابجا پھرنے لگے۔ حضرت قطب العالم کو کشف باطن سے اس بات کا علم ہوگیا اور ایک خط لکھ کر ایک درویش کو دیا کہ فلاں مقام پر اس حلیہ کا ایک شخص تلاش شیخ میں پھر رہا ہے یہ خط اسکو پہنچادو۔ اور اُسے ہمارے پاس لے آؤ۔ درویش خط لیکر اس علاقے میں گیا اور انکو تلاش کر کے خط دیدیا۔ انہوں نے جب خط کو دکھا تو پہلا شعر یہ تھا؎
چنگ در حضرت خدا زدۂ |
|
آنچہ اونیست پشت پازدۂ |
(تم نے خدا کے دامن میں ہاتھ ڈالا ہے اور غیر اللہ پر لات ماری ہے)
یہ شعر پڑھتے ہی انکی حالت دگر گوں ہوگئی ور فی الفور گنگوہ پہنچ کر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شرف بیعت حاصل کیا۔ کچھ عرصہ تعلیم و تربیت دینے کے بعد حضرت اقدس نے انکو خلافت عطا فرمائی اور اپنے وطن اعظم پور بھیج دیا۔ رخصت کرتے وقت حضرت اقدس نے انکو یہ بھی وصیت فرمائی کہ نعمت باطن کا ایک حصہ تجھے ایک مجذوب سے ملنا ہے جو فرقۂ ملا متیہ سے تعلق رکھتا ہے وہ قصبہ ھتناور گئے اور اس مجذوب کو دیکھا کہ شراب کی صراحی ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں۔ انکے دل میں خیال آیا کہ یہ شخص خلاف شرع کام کر رہا ہے مجھے کیا نعمت دیگا۔ چنانچہ وہاں سے و اپس ہوکر ایک مسجد میں گئے اور جاکر سوگئے۔ دل میں ارادہ یہ تھا کہ نماز کے بعد واپس اعظم پور چلا جاؤں گا۔ اتفاقاً نیند کی حالت میں پُر ہے۔ اسکے بعد وہ دوسری مساجد میں گئے اور ہر جگہ پانی کے متکوں کو شراب سے بھرا ہوا پایا۔ اسکے بعد وہ دریائے گنگا پر گئے وہاں بھی شراب کے سوا کچھ نہ پایا اسکے بعد اب انکو یقین ہوگیا کہ یہ اس مجذوب کا تصرف ہے۔ ناچار اپنے وساوس سے تائب ہوکر انکی خدمت میں واپس پہنچ گئے۔ انہوں نے دیکھتے ہی شیخ عبدالغفور سے فرمایا کہ اگر چہ ہم لوگ ملامتی ہیں لیکن تم عالم ہو تمہیں حدیث نبوی ظن المومنین خیراً (مومن کا گمان نیک ہونا چاہیے) پر عمل کرنا چاہیے۔ اور ہر شخص پر نیک گمان کرنا چاہے۔ تمہیں یاد نہیں کہ تمہارے پیر دستگیر کا فرمان کیا تھا۔ شیخ عبدالغفور نے عجز وانکسار سے عرض کیا کہ مجھ سے خطا ہوگئی ہے معاف فرمادیں۔ مجذوب نے ان پر رحم کی اور وہ نعمت جو انکے پاس امانت تھی انکے سپرد کردی۔ اسکے بعد شیخ عبدالغفور اعظم اعظم پور جاکر تربیّت مریدین میں مشغول ہوگے۔ اور انکے حسن تربت سے بہت لوگ مرتبہ تکمیل وارشاد کو پہنچے۔ چنانچہ آپکے خلفائیں سے ایک میر سید علاؤ الدین ساکن کتانہ تھے۔ انکو جب دفن کیا گیا تو قبر سے تین مرتبہ اسم پاک اللہ اللہ اللہ کی آواز آئی اور آسمان سے ایک شعلۂ نور اتر کر قبر میں غائب ہوگیا۔ حضرت شیخ عبدالغفور کے فرزند شیخ ابو اسحاق اور حضرت شیخ احمد سراج العارفین بھی کاملین روزگار میں سے تھے۔
دیگر خلفاء
حضرت قطب عالم قدس سرہٗ کے چوتے خلیفہ حضرت شیخ عبدالعزیز کرانوی ہیں۔ پانچویں خلیفہ حضرت شیخ عبد الستار سہارنپوری، چھٹے خلیفہ حضرت شیخ عبدالاحد ہیں جو حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے والد ماجد تھے۔ ساتویں خلیفہ میر سید رفیع الدین اکبر آبادی، آتھویں خلیفہ شیخ عبدالرحمٰن تھے جنکے نام حضرت قطب العالم کے کشی خطوط مکتوبات قدوسیہ میں موجود ہین۔ انکے علاوہ آپکے اور خلفائے صاحب کمال بھی بہت تھے جنکے اسمائے گرامی مکتوبات میں پائے جاتے ہیں۔ اس فقیر نے ایک کتاب کے حاشیہ پر لکھا دیکھا ہے کہ حضڑت قطب العالم کے پانچ ہزار خلفائے کامل ومکمل تھے۔ رحمۃ اللہ علیہم۔
اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
(قتباس الانوار)