جنات کو بلانے کے علم و عمل میں کامل تھے اور اپنے نفس پر پورا قابو رکھتے تھے۔ ہندوستان و خراسان کی خوب سیرو سیاحت کی، آپ اپنے نانا شیخ شمس الدین کے مرید تھے۔ ایک مرتبہ جنات اٹھا کر اپنے ملک میں لے گئے جہاں عرصہ تک آپ رہے ادھر آپ کے گھر والوں کو یہ خیال ہو ا کہ آپ کہیں سیر و سیاحت کرنے گئے ہیں۔ آپ جنات کی وضع قطع، رہن سہن اور ان کی زمین وغیرہ کو تفصیل سے بیان کرتے تھے اور ان کی زَبان بھی بخوبی جانتے تھے۔ جنات کے شہر میں رہنے سہنے کی وجہ سے آپ کی شکل و صورت میں بھی کافی تبدیلی ہو گئی تھی۔ کوئی نیا شخص دیکھ کر کبھی یہ نہیں کہتا کہ آپ ہماری زمین کے باشندے ہیں۔ آپ بہت زیادہ بوڑھے ہوگئے تھے اور 989ھ میں انتقال کیا۔
آپ کو عبدالغفور مانو کہنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مانو آپ کی محبوبہ کا نام ہے اور وہ کوئی جناننی تھی یا آدم زاد، آپ کو اس سے اتنی محبت تھی کہ اگر کوئی شخص مانو کا لفظ ٹھیکری پر لکھ کر آگ میں ڈال دیتا تو آپ بے تحاشا آگ میں کود جاتے اور اگر کنویں میں وہ ٹھیکری پھینک دیتا تو آپ اس کنویں میں کود کر پانی کی تہ میں سے اس ٹھیکری کو نکال لاتے تھے۔
شیخ عبدالغفور مانو ہمارے خاندانی عزیز تھے۔ ایک شخص میرے والد بزرگوار کو آپ کے پاس دعا کرانے کی سفارش کے لیے بھی لے گیا، چونکہ شیخ عبدالغفور ہمارے رشتہ دار تھے اس لیے ہمارے ہاں کی اکثر بیبیاں کہا کرتی تھیں کئی رتبہ ایسا ہوا کہ کوئی شخص باہر سے ہمارے گھر میں آیا اس نے غلہ وغیرہ اٹھایا اور نوکروں کی طرح کام کاج کیا اور پھر وہ آنے والا گھر ہی میں غائب ہوجاتا تھا۔ کبھی یہ شیخ عبدالغفور مانو اپنے پیرومرشد شیخ شمس الدین کے پاس اپنی پوری جماعت لیے اس طرح آتے کہ کسی کو پتہ نہ چلتا کہ یہ کون لوگ ہیں، اللہ آپ سب پر اپنی رحمتیں کرے۔
اخبار الاخیار