حضرت شیخ حاجی عبدالکریم چشتی صابری
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم وصال | 1045 | رجب المرجب | 07 |
حضرت شیخ حاجی عبدالکریم چشتی صابری (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ عبد الکریم چشتی صابری لاہوری
نا م و نسب: اسم گرامی: شیخ عبد الکریم چشتی صابری۔ لقب: شیخ الاولیاء والعلماء۔ سلسلہ نسب: شیخ عبد الکریم چشتی صابری بن شیخ الاسلام مخدوم المُلک عبد اللہ انصاری۔ خاندانی تعلق قبیلہ انصار سے تھا۔آپاپنے وقت کے جید عالم و عارف باللہ تھے۔ہمایوں بادشاہ نے شیخ عبد اللہ انصاری کو ان کی عظیم خدمات کے پیش نظر ’’ شیخ الاسلام، اورمخدوم المُلک‘‘ کا خطاب دیا تھا۔آپ تمام عمر کفر و الحاد کے خلاف معرکہ آراء رہے۔(تذکرہ اولیائے لاہور،ص355)۔اللہ تعالیٰ نےشیخ کو دولتِ علم و عرفان کے ساتھ ساتھ ظاہری مال و متاع سےبھی خوب نوازا تھا۔لیکن اس کے باوجود آپ نےساری زندگی فقیرانہ گزاری،ا ور دین کی خدمت میں مصروف عمل رہے، بلکہ آپ کی اولاد بھی آپ کے طریقے پرقائم رہی۔آپ کی حق گوئی و بےباکی اور کفر و الحاد اور بالخصوص ’’دین اکبری‘‘ کے خلاف جہادپر ’’اکبر بادشاہ‘‘ نے آپ کو ملک بدرکردیاتھا۔آپ حرمین شریفین چلے گئے تھے۔پھر ہندوستان واپس آئے تو آپ کو زہر دے کرشہید کردیا گیا۔ (تذکرہ اولیائے لاہور، ص356/ خزینۃ الاصفیاء، ص423)
تحصیل علم: حضرت شیخ عبد الکریم چشتی لاہورینے اپنے والد گرامی شیخ عبد اللہ انصاری سے تمام علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل و تکمیل کی۔آپ کو علوم میں مہارت تامہ حاصل تھی۔خصوصی شغف قرآن و حدیث اور تفسیر و فقہ سےتھا۔
بیعت و خلافت: سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں قطبِ وقت حضرت شیخ نظام الدین بلخی چشتی صابری سے بیعت ہوئے، اور مجاہدات و ریاضات کے بعد اجازت و خلافت سے مشرف ہوئے۔(اقتباس الانوار،ص727)
سیرت و خصائص: امام الاولیاء والعلماء، سند الاتقیاء، صاحبِ علم و عرفاں، محدث وجد و پیماں،حضرت شیخ حاجی عبد الکریم چشتی صابری لاہوری۔آپجامع علوم عقلیہ ونقلیہ تھے۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ کے فروغ میں آپ کا بہت بڑا کردارہے۔ساری زندگی علم و عرفاں کی آب یاری فرمائی۔ آپایک بہترین مدرس تھے۔آپ کا اکثر وقت درس و تدریس اورتصنیف و تالیف میں بسر ہوتا تھا۔آپ نے ورودِ لاہور کےبعد سب سے پہلے ایک دارالعلوم قائم فرمایا۔ خانقاہ اور دارالعلوم ایک ساتھ تھا۔دارالعلوم اور خانقاہ ’’نواں کوٹ‘‘ لاہور میں افضل خان علامی کے باغ میں تھا۔نواں کوٹ میں ہی آپ کا مزار ہے۔
حج کی سعادت: جس زمانے میں اکبر بادشاہ نے آپ کے والد گرامی کو ہندوستان سے ملک بدر کردیا تھا۔ تو آپ کے والد گرامی آپ کو اپنے ہمراہ لےکر مکہ مکرمہ چلے گئے اور کافی عرصہ تک وہاں سکونت پذیر رہے اس دوران آپ نے مکہ مکرمہ میں حج کی سعادت بھی حاصل کی۔ اس کے بعد آپ واپس ہندوستان اپنے والد گرامی کے ہمراہ تشریف لے آئے۔مگر اس کے کچھ عرصہ بعد آپ کے والد گرامی کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد لاہورتشریف لے آئے اور اسی جگہ جہاں آج کل آپ کا مزار پر انوار ہےکو تبلیغ اسلام کا مرکز قرار دےکر رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کردیا۔ جہاں آپ کے پاس عوام و خواص کا ایک جم غفیر جمع رہتا تھا۔ اور آپ کی ذات ولا صفات سے ہزاروں افراد نے فیوض و برکات حاصل کئے۔کثیر غیر مسلم آپ کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
دوسری مرتبہ حج: جب آپ دوسری مرتبہ حج کی ادائیگی کے لیے اپنے دوستوں کے ہمراہ پاپیادہ خشکی کے راستے سے گئے تو ایک مقام پر جاکر راستہ بھول گئے اور ایک ویران جنگل بیابان میں جانکلے۔جہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہ تھا۔جب آپ کے دوستوں کو پیاس نے ستایا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر پانی کے لیے دعا چاہی آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اسی وقت دعا قبول ہوگئی۔اس وقت ایک تیتر آپ کے سر پر اڑتا ہوا آیا اور آواز دیتا ہوا ایک طرف چلا گیا۔ آپ سمجھ گئے کہ جہاں پرندے ہوتے ہیں وہاں پانی ضرور ہوتا ہے۔ آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس طرف گئے تو میٹھے پانی کا ایک چشمہ ملا۔ سب نے پانی پیا وضو کیا غسل کیا اور کپڑے دھوئے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا چونکہ ہمیں تیتر کی وجہ سے پانی ملا ہے۔ چنانچہ جو بھی میرا مرید ہے نہ ہی وہ تیتر کا شکار کرے گا اور نہ ہی اسکا گوشت کھائے گا آپ کے اس فرمان کے بعد آپ کے مریدین نے تیتر کا شکار اور اس کا گوشت کھانا بند کردیا۔(خزینۃ الاصفیاء، ص423/تذکرہ اولیاء لاہور، ص357)
یکدم لاہور سے عرفات: ایک دن آپ اپنی خانقاہ سے اٹھ کر حضرت پیر زیدی کے مزار پر انوار کی زیارت کے لیے تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں شیرا نامی ایک مرید ملا اور عرض کرنے لگا حضور آج حج کا دن ہے بہت سے خوش نصیب آج عرفات میں حج پڑھ رہے ہوں گے اور ہم کس قدر بدنصیب ہیں کہ ہم اس نعمت سے محروم ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اپنی آنکھیں بند کر کے میرے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھو اور میرے ساتھ چلو۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا ہوگا کہ آپ نے فرمایا کہ شیرا آنکھیں کھولو۔جب اس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ میدان عرفات میں کھڑے ہیں۔ حج کیا اور حج سے فارغ ہو کر جس طرح گئے اسی طرح واپس پھر لاہوربھی پہنچ گئے۔(ایضا)
تصنیف: حضرت شیخ عبد الکریم لاہوری ایک جید عالم اور اپنے وقت کے نامورفاضل انسان تھے۔باطنی علوم کے ساتھ ظاہری علوم میں بھی بڑے فضل و کمال کے مالک تھے۔آپ نے بہت کتب تصنیف کیں،جن میں ’’شرح فصوص الحکم‘‘ تصنیف لطیف شیخ اکبر محی الدین ابن العربی، کی فارسی شرح ہے،بہت عمدہ ہے، اور مشہور ہے۔اسی طرح ایک رسالہ بنام ’’اسرار عجیبہ‘‘ پیرانِ چشت اہل بہشت کے ذکر و شغل کے بارے میں ہے۔(تذکرہ علماء ہند، ص279)
آپ کے والد شیخ مخدوم الملک عبداللہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ تھے آپ خاندانِ عالیہ چشتیہ صابریہ میں شیخ نظام الدین بلخی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے جب آپ کے والد بزرگوار کو اکبر بادشاہ نے ہندوستان سے نکال دیا تو وہ کعبۃ اللہ میں چلے گئے شیخ عبدالکریم بھی آپ کے ساتھ گئے حج کیا اور والد کے ساتھ ہی ہندوستان واپس آگئے جن دنوں آپ کے والد کو زہر دے کر شہید کردیا گیا آپ لاہور آگئے اوریہیں قیام فرمایا ہدایت خلق میں مشغول ہوگئے بہت بڑی دنیا آپ کے حلقۂ ارادت میں آئی اور آپ سے بڑی کرامات سامنے آئیں۔
کتابوں میں لکھا ہے کہ حاجی عبدالکریم دو بار حج کے سفر پر گئے ایک دفعہ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ اور دوسری بار چند دوستوں کے ساتھ پیادہ خشکی کے راستے بیت اللہ کی طرف چل پڑے سفر میں راستہ بھول گئے اور ایک ویران بیابان میں جانکلے جہاں دُور دُور تک پانی کا نام و نشان نہ تھا سب دوستوں پر پیاس طاری ہوگئی آپ نے آسمان کی طرف منہ کرکے دعا فرمائی تو قبول ہوگئی اُسی وقت ایک تیتر آپ کے سر پر اُڑتا ہوا آیا تو آواز دیتا ہوا ایک طرف چلاگیا آپ سمجھ گئے کہ جہاں پرندے ہوتے ہیں وہاں پانی ضرور ہوتا ہے تھوڑی دُور اُسی طرف گئے تو میٹھے پانی کا ایک چشمہ ملا سب نے پانی پیا وضو کیا غسل کیا اور کپڑے دھوئے فرمایا کہ چونکہ تیتر کی وجہ سے ہمیں پانی ملا چنانچہ جو بھی میرا مرید ہوگا نہ تیتر کا شکار کرے گا اور نہ گوشت کھائے گا چنانچہ اس دن سے آپ کے مریدوں نے تیتر کا گوشت کھانا بند کردیا۔
یہ بات پائیہ ثبوتِ کو پہنچی ہوئی ہے کہ حضرت حاجی رحمۃ اللہ علیہ کے چار بیٹے تھے ایک کا نام شیخ یحییٰ دوسرے کا نام اعلیٰ نور تیسرے کا نام عبدالحق اور چوتھے کا اعلیٰ حضور تھا اِن چاروں میں شیخ یحییٰ بڑے صاحبِ کمال اور صاحب علم بزرگ تھے اُن سے بڑے لوگوں نے فیض پایا یہ بات مشہور تھی کہ ایک دن خیر و نامی ڈاکو موضع سید والا سے اُٹھ کر لاہور ڈاکہ ڈالنے آیا وہ لاہور کے بازاروں میں گھومتا رہا لیکن اُس کو کوئی موقعہ نہ ملا رات ہوئی تو شخ یحیٰ کی خانقاہ میں آپہنچا وہاں اُس نے دو بیل دیکھے اُنہی کو چُرا کر روانہ ہوگیا لیکن تھوڑی دُورجاکر اندھا ہوگیا بیلوں کو لے کر پھر واپس آیا تو پھر آنکھیں ٹھیک ہوگئیں اِس طرح اُس نے کئی بار کیا آخر کار بیلوں کو آپ کی خانقاہ کے پاس باندھا اور اندھا ہوکر ایک کونے میں بیٹھ گیا دن چڑھا تو خانقاہ کے ملازمین نے خیرو کو دیکھا تو شیخ یحییٰ کو بتایا اب خیرو بھی اُٹھ کر آپ کی خدمت میں آیا تو رات کا سارا واقعہ عرض کرکے معافی مانگنے لگا آپ نے فرمایا تو نے سچ کہا ہے اس لیے تم رحم کے قابل ہو۔ پھر اپنا ہاتھ اُس کی آنکھوں پر مارا وہ اُسی وقت بینا ہوگیا اور شیخ کے مریدوں میں شامل ہوکر مرتبۂ کمال کو پہنچا۔
یاد رہے کہ شیخ عبدالکریم لاہوری رحمۃ اللہ علیہ بڑے عالم فاضل انسان تھے ظاہری علوم میں بھی بڑے فضل و کمال کے مالک تھے آپ کی تصانیف میں سے شرح فصوص الحکم بڑی مقبول ہوئی اسی طرح آپ نے ایک اور کتاب اسرار عجیبہ لکھی جس میں چشتیہ سلسلے کے اذکار و مشاغل درج ہیں۔)۱(
۱۔ صاحب اقتباس الانوار نے آپ کے ایک اور رسالے مصباح العارفین کا ذکر بھی کیا ہے جس میں سلسلہ چشتیہ قدوسیہ کے مشاغل درج ہیں اس رسالے میں شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات و مقامات بھی تفصیل سے لکھے گئے ہیں۔
شیخ اکرم کریم با اکرام
مکرمت یافت چون بخلد بریں
مقتدای شفیق دان سالش
نیز برحق کریم کاشف دین
حضرت شیخ نظام الدین تھانیسری ثمہ بلخی قدس سرہٗ کے پانچویں خلیفہ حضرت شیخ عبدالکریم لاہوری قدس سرہٗ ہیں جنہوں نے فصوص الحکم کی شرح بزبان فارسی معتبر اور اعلیٰ لکھی ہے۔ آپ نے اذکار، اشغال اور اسرر پر بڑے شاندان اور عجیب رسائل بھی تحریر فرمائے ہیں سلسلۂ قدوسیہ کے اذکار ومشاغل پر مشتمل ایک رسالہ لکھا ہے جسکا نام مصباح العارفین ہے اسکے حاشیہ پر لکھتے ہیں کہ آج تمام کمالات ولایت و نبوت کا جامع علی اللہ حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی الحنفی کے سلسلے کے سوا کہیں نہیں ہے۔ اور اس سلسلۂ عالیہ کی شان و شوکت (غلغلہ) قیامت تک افزوں وزیادہ ہوتی رہے گی شیخ عبدالکریم کا مزار لاہور میں زیارت گاہ خلائق ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
حضرت شیخ اللہ داد لاہوری اور حضرت شیخ دوست محمد صوفی لاہوری حضرت شیخ نظام الدین بلخی قدس سرہٗ کے چھٹے اور ساتویں خلفاء حضرت شیخ اللہ داد لاہوری اور حضرت شیخ دوست محمد صوفی لاہوری ہیں۔ ان دونوں حضرات کے حسن تربیت سے بےشمار طالبان حق مرتبہ تکمیل وہدایت کو پہنچے جنکے ذریعے مزید خلفاء وجود میں آئے اور ہدایت خلق میں مشغول رہے۔ ان دونوں حضرات کے مزارات لاہور میں زیارت گاہ خلائق ہیں۔ رحمۃ اللہ علیہما۔) اقتباس الانوار(
اولاد: شیخ عبد الکریم لاہوری کے چار فرزند تھے۔شیخ یحیٰ، اللہ نور، عبد الحق،اعلیٰ حضور۔ ان میں سے شیخ یحیٰ بہت صاحبِ کمال اور اہل اللہ میں سے تھے۔(تذکرہ اولیائے لاہور، ص358)
تاریخِ وصال: آپ کا وصال باکمال 7؍یا 27؍ رجب المرجب 1045ھ مطابق 1635ءکو ہوا۔ مزار پر انوار متصل باغ زیب النساء نواں کوٹ یتیم خانہ روڈ پر چھپر اسٹاپ پر بائیں جانب گلی نما بازار جس کا راستہ سمن آباد کو جاتا ہے۔ اس کے بائیں کونے پر مزار پر انوار متصل موضع نواں کوٹ لاہور میں واقع ہے