حضرت شیخ عبد السلام المعروف شاہ اعلیٰ چشتی صابری
حضرت شیخ عبد السلام المعروف شاہ اعلیٰ چشتی صابری (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ عبد السلام المعروف شاہ اعلیٰ چشتی صابری
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت شیخ عبد السلام چشتی صابری۔ لقب: شاہ اعلی۔ سلسلہ نسب: حضرت شیخ عبد السلام بن شیخ نظام الدین بن شیخ عثمان زندہ پیر چشتی صابری۔ خاندانی تعلق حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء کی اولاد سے ہیں۔
تاریخ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 890ھ کو ہوئی؛ مادہ تاریخ ’’فیاض‘‘ ہے۔
تحصیلِ علم: آپ علوم ظاہری و باطنی کے جامع تھے۔
بیعت و خلافت: حضرت شیخ عبد السلام المعروف شاہ اعلی چشتی صابری نے اپنے والد بزرگوار حضرت شیخ نظام کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور
تعارف:عارف ربانی ولی العصر ، شیخ زمانہ مرشد یگانہ، حضرت شیک عبد السلام بہ مقلب حضرت شاہ اعلیٰ چشتی صابری پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ 890 ھ مادہ تاریخ ولادت از سیر الاقطاب ‘‘ فیاض’’ نکلتا جو کہ اپنے زمانے کے عظیم روحانی پیشوا حضرت شیخ نظام الدین بن شیخ عثمان زند پیر چشتی صابری علیہ الرحمۃ پانی پتی کے فرزند ار جمند اور حضرت شیخ جلال الدین محمد کبیر الاولیائ کی اولاد سے ہیں۔ آپ نے اپنی ظاہری و باطنی تکمیل کے بعد اپنے والد بزرگوار حضرت شیخ نظام الدین بن حضرت شیخ عثمان زندہ پیر چشتی صابری علیہم الرحمۃ کے دست حق پرست پر بیعت حاصل کی اور اپنے والد بزرگوار کے علاوہ حضرت شیخ نظام الدین نارنولی جو کہ اپنے عہد کے بڑے عارفکامل ہین ان سے بھی خرقہ خلافت پاکر سرفراز و ممتاز ہوئے۔ چنانچہ کسی نے ان کے حق میں بہت خوبصورت شعر کیا۔
نظام پیرو ہم پدرش نظام نظام دو جہاں روئے تمام
است است
آپ کے ایک مرید اللہ دیا نے آپ کے ملفوظات اور حالات واقعات پر ایک کتاب لکھی ہے ۔ جس کا نام ‘‘جواہر اعلیٰ’’ ہے۔ اس میں نے اس نے لکھا کہ آپ کا اصل نام عبد السلام ہے مگر حضرت شیخ نظام الدین نارنولی نے آپ کو شاہ اعلیٰ کا خطاب دیا۔اور اسی نام سے آپ نے شہرت پائی۔
نوکری کے دوران طلب حق:سیر الاقطاب کے مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت شاہ اعلیٰ ابتدائی دور میں بابر کے ایک امیر خاندان کی نوکری کرتے تھے۔کچھ عرصے کے بعد تیرا اندازی میں آپ نے بہت شہرت پائی جس سے تمام فوج میں ممتاز اور یکتا نظر آتے تھے۔مگر دل تھا کہ طلب حق میں بے چین دن و رات کی بے چشنی کے باعث آخر نے آپ نے فوج کی نوکری کو خیر باد کہا اور اپنے وطن پانی پت پہنچ کر والد گرامی سے دلی طبیعت کی کیفیت بیان کیا۔ تو انہوں نے حکم دیا کہ آپ شمس الارض حضرت خواجہ شیخ شمس الدین ترک پانی پتی چشتی صابری علیہ الرحمۃ کے مزار کے ساتھ حجرے میں بیٹھ کر عبادت و ریاضت کریں۔ چنانچہ آپ حضرت خواجہ شمش الدین ترک پانی پتی چشتی صابری علیہ الرحمۃ کے مزار پُر انوار پر عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ ابھی چالیس دن میں بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ حضرت شیخ نظام الدین نارنولی باطنی طور پر تشریف لائے۔ اور فرمایا کہ تمہارا باطنی حصہ میرے پاس ہے لہٰذا تم میرے پاس نار نول میں آؤ۔ چنانچہ آپ حضرت خواجہ شمش الدین ترک پانی پتی چشتی صابری علیہ الرحمۃ مزار پُر انوار پر عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ ابھی چالیس دن میں بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ حضرت شیخ نظام الدین نارنولی باطنی طور پر تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارا باطنی حصہ میرے پاس ہے لہٰذا تم میرے پاس نارنول میں آؤ۔ چنانچہ آپ اسی بیخودی کے عالم میں گرتے پڑتے نارنول پہنچے اور حضرت شیخ نظام الدین نارنولی کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے نے آپ کو خرقہ خلافت سے سرفراز فرما کر شاہ اعلیٰ کے خطاب سے نواز کر رخصت کیا۔
کشف و کرامات:کتاب جواہر اعلیٰ میں شیخ اللہ دیا آپ کا مرید خاص ورقم طراز ہے۔کہ ایک بار میں نے حضرت شیخ شرف الدین بو علی شاہ قلندر پانی پتی علیہ الرحمۃ کی بارگاہ میں نذر مانی کہ اگر میرا کام ہوگیا تو ایک دن وہ نذر پوری کرنے کے لیے میں حضرت پیر عبد السلام بہ ملقب شاہ اعلیٰ اپنے پیرو مرشد کو لے کر حضرت بو علی شاہ قلندر علیہ الرحمۃ کے مزار کی طرف چل دیا۔کہ راستے مین ایک دم شدید بارش آگئی۔میں کچھ فکر مند ہوا تو آپ نے فرمایا فکر نہ کرو بارش تم پر نہیں برسے گی۔
پھر ہوا بھی ایسے ہی کہ بارش ہم سے دس دس قدم دور فاصلے پر ہوتی رہی لیکن ہم پر ایک قطرہ بھی نہیں گرا۔ اس طرح ہم بحفاظت و بخیریت حضرت بو علی شاہ قلندر علیہ الرحمۃ کے دربار میں پہنچ گئے۔ ہم نے وہاں دیگیں پکوائیں۔انہیں تقسیم کیا گیا لیکن اتنی زور دار بارش کے باوجود ہم پر ایک قطرہ بارش کا نہیں اگر حالانکہ چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔
کرامت نمبر ۲:سید الاقطاب میں لکھا ہے۔ کہ حضرت شاہ اعلیٰ کے مریدوں میں سے ایک شخص نے سونے کی کچھ اشرفیاں چمڑے کے تھیلے میں ڈال کر اپنے حجرے میں دفن کردیا۔چند مہینوں کے بعد جب اسے ضرورت پیش آئی تو اس نے اشرفیاں تلاش کیں۔زمین کھودی گئی لیکن وہاں اشرفیوں کا نام و نشان بھی نہ ملا۔بالآخڑ تھک ہار تھک حضرت شاہ اعلیٰ چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔اس کی بات سن کر آپ بذات خود اس کے گھر تشریف لے گئے۔ ابھی اس کے گھر پہنچے ہی تھے کہ اچانک ایک جگہ پر (کسی) مار کر فرمایا اس جگہ کو کھود و تمہارا خزانہ یہاں دفن ہے۔چنانچہ اس شخص نے وہاں سے زمین کھودی تو اسے چمڑے کے تھیلے میں پڑی ہوئی اشرفیاں وہاں سے مل گئیں۔جنہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔اور عرض کرنے لگا حضور میں نے یہ اشرفیاں اپنے حجرے مین دفن کیں تھیں۔لیکن اب یہ راستے میں بر آمد ہو رہی ہیں۔خدا معلوم کیا راز ہے۔ آپ نے فرمایا یہ اسرار الٰہی ہے۔ان کا انکشاف نہیں کیا جاسکتا۔
کرامت نمبر ۳:آپ کی خانقاہ میں ایک کنواں ہے جو آپ نے خود کھود تھا۔جب وہ مکمل ہوگیا۔ تو اس کا پانی کھارا نکلا۔مریدین نے آپ کی خدمت میں پانی کے کھارے ہونے کی شکایت کی تو اتفاقاً وہاں ایک شخص چند روٹیاں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمۃ کے دربار سے لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت شاہ اعلیٰ نے ان روٹیوں کو اپنے ہاتھ سے توڑا اور کنویں میں ڈال دیا۔ اس کے بعد دعا کی اور فرمایا کہ اب پانی نکالو اور پئیو۔ جب پانی نکالا گیا تو وہ میٹھا تھا اور ٹھنڈا بھی۔
کرامت نمبر ۴:آپ کے وصال باکمال کے چند سال ایک ضعیف عورت جس کا شاہی خاندان سے تعلق اس طرح ہے کہ نور الدین بادشاہ نے اپنی کنیروں میں سےا یک ایک کنینر اپنے رضاعی بھائی نواب مقرب خان کو عنایت کی تھی۔وہ بی بی نہایت ہی ععفت ماب اور قرآن پاک کی حافظہ تھیں۔نواب اور ان کا تمام خاندان عطیہ سلطانی سمجھ کر ان کی عزت کرتا تھا۔یہ بی بی نہایت متقیہ اور پرہیزگار تھیں۔اور نماز پنجگانہ تھیں اور امرائے پانی پت کی لڑکیوں کی استانی تھیں۔دختر نواب مقرب خان دختر دیوان عبد الرحیم اور دیگر لڑکیاں اس خاندان کے دیگر شرفاء کی ان کے پاس قرآن پڑھتی تھیں ان بی بی کےپاس زیور بھی بہت تھا۔ان کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ اس کو فروخت کر کے حضرت شاہ اعلیٰ چشتی صابری علیہ الرحمۃ کا مزار بنوادیا جائے۔
اس بی بی نے مزار کی تعمیر کا کام شروع کرادیا۔دوارن تعمیر جو معمار کام کررہا تھا نے خواب میں دیکھا کہ حضرت شاہ اعلیٰ اپنی قبر کے سرہانے کھڑے ہیں۔ اور فرمارہے ہیں کہ عمارت کا جو چبوترہ تم بنوارہے ہو۔ اس سے ہمارے صندوق کا تختہ ٹوٹ گیا ہے۔ اور ایک اینٹ صندوق میں گر گئی ہے۔ لہٰذا مناسب یہ ہے کہ چبوترہ کو گرا دو اور اینٹ کو صندوق سے باہر نکالو اور تختے کو درست کر کے دوبارہ چبوترہ بناؤ۔
صبح ہوئی تو وہ معمار ان نیک بی بی کے پاس ان گھر گیا اور رات کا خواب ان کے سامنے بیان کیا۔ اس نے کہا کہ جس طرح حضرت شاہ اعلٰی کا حکم ہے اسی طرح کرو۔چنانچہ وقت مقرر ہوا اور شہر کے بڑے بڑے لوگ جمع ہوگئے۔چبوترے کی عمارت کو ہٹا دیا گیا۔اور صندوق کو باہر نکالا گیا تو کیا دیکھا کہ واقعی صندوق کا تختہ ٹوٹا ہوا ہے اور اس کے اندر اینٹ پڑی ہوئی ہے۔ یہ اینٹ حضرت کے زانوں کے نیچے تھی اور آپ کا دایاں پاؤں دراز تھا۔لیکن بایاں پاؤں اینٹ کی وجہ سے کھڑا ہوگیا تھا۔لوگون نے دیکھا کہ آپ کا جسم صحیح سالم موجود ہے ۔ آنکھیں اس طرح روشن ایسا محسوس ہوتا تھا۔ کہ آپ آرام فرمارہے ہیں۔چنانچہ شہر کے رہنے والے چھوٹے بڑے آپ کی زیارت سے مشرف اور فیض یاب ہوئے۔ صدوق کے تختے کو دوبارہ درست کیا گیا اور عمارت کو از سر نو اس کی بنیاد کو تیار کر کے اٹھایا گیا۔
وصال باکمال:آپ کا وصال باکمال ۱۴۲ برس کی عمر شریف میں ۱۰۳۳ ھ بمطابق ۱۶۳۱ ء کو ہوا۔ آپ کا مزار پُر انوار پانی پت ہندوستان میں مرجع خاص و عام ہے۔آپ کے دو صاحبزادے تھے ۔ جن میں سے ایک کا نام شاہ منصور دوسرے کا نام شاہ نور تھا۔ ان دونوں کا انتقال آپ کی ظاہری حیات مبارک میں ہی ہوگیا تھا۔ آپ کے بڑے صاحبزادے شاہ منصور کے بڑے فرزند حضرت شاہ محمد آپ کے وصال کے بعد اپنےدادا کے سجادہ نشین مقرر ہوئے۔
سیر الاقطاب کے مصنف نے آپ کی تاریخ وصال ۱۰۳۳ سے ‘‘ شاہ اعلیٰ’’ نکالی ہے جبکہ خزینۃ الاصفیاء کے مصنف مفتی غلام سرور لاہوری نے آپ کے وصال کی قطعہ تاریخ یہ لکھی ہے:
جناب شاہ اعلیٰ پیر اسلام |
نظام الدین و دنیا شیخ والا |