حضرت شیخ عبدالوہاب المتقی
حضرت شیخ عبدالوہاب المتقی (تذکرہ / سوانح)
آپ مندو میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد شیخ ولی اللہ مندو کے اکابرین میں سے تھے، حادثات و انقلاب زمانہ کی بدولت مندو سے روانہ ہو کر برہان پور آئے اور یہیں سکونت پزیر ہوئے، برہان پور آکر ماضی کی طرح عزت دار و سربلند ہوئے اور پھر تھوڑے سے ہی دنوں بعد انتقال کیا اسی زمانہ میں آپ کی والدہ نے آپ کو کم سنی میں چھوڑ کر سفر آخرت اختیار کیا، بچپن ہی کے زمانہ سے اللہ کی توفیق نے آپ کی رفاقت کی ہے آپ نے اسی زمانے سے طلب حق کے لیے فقرد تجرید، سفرو سیاحت عالم اختیار کیا، آپ نے زیادہ تر نواح گجرات، اطراف و اکناف علاقہ دکن، سیلون، لنکا اور سراندیپ میں سیاحت کی، آپ کا یہ دستور تھا کہ تین دن سے زیادہ کہیں نہ ٹھہرا کرتے، البتہ تحصیل علم اور مشائخین و صالحین سے استفادہ کے لیے بقدر ضرورت قیام کیا کرتے تھے۔
بیس سال کی عمر کے لگ بھگ جبکہ آپ کی شادی بھی نہ ہوئی تھی مکہ معظمہ پہنچے۔ شیخ علی متقی کی چونکہ آپ کے والد سے شنا سائی تھی اس لیے وہ آپ کی مکہ معظمہ میں آمد کی خبر سن کر آپ سے آپ کی قیام گاہ پر ملنے آئے اور بڑی مہر بانیاں کرتے ہوئے اپنے ساتھ قیام کرنے کی استدعا کی، پھر جب انہوں نے آپ کی خوشخط تحریر دیکھی تو کہا آپ ضرور بالضرور میرے غریب خانہ پر تشریف لائیں اور ہماری چیزوں کی کتاب کردیں اس پر آپ نے اپنے استغنائے ذاتی اور بے نیازی کہ کو کام میں لاتے ہوئے شیخ علی متقی کی دعوت قیام منظور نہ کی اور کہا دیکھتے ہیں ان شاء اللہ نصیب میں کیا ہے؟لیکن آخر کار شیخ کا فضل و کمال اور استقامت حال دیکھ کر ان کے پاس قیام کرلیا، نیز آپ کو اپنے والد کی یہ نصیحت بھی یاد تھی کہ اگر تمہیں راہ حق کے سلوک کی توفیق ہو تو شیخ علی متقی اور ان جیسے بزرگوں کی صحبت ضرور اختیار کرنا، فلاں فلاں لوگوں کے ساتھ رہنے کی کوشش کرنا، ان بزرگوں کے ساتھ ایک ایسے کا نام بھی لیا تھا جو دعوت اسمائے الہی اور بادشاہوں کے مسخر کرنے میں مشہور تھا، کہ اس شخص سے ہمیشہ پرہیز کرنا، آپ خط نستعلیق بہترین لکھتے تھے، لیکن شیخ علی نے اس وجہ سے قرآن شریف کہ خط نسخ میں لکھا جاتا ہے اور یہی صلحاء کی عادت رہی ہے، آپ کو خط نسخ کی مشق کرنے کی طرف اشارہ کیا، چونکہ آپ کو کتابت میں پہلے سے مہارت حاصل تھی اور آپ کے ہاتھ میں لکھنے کی قوت تھی اس لیے تھوڑی مدت میں خط نسخ خوب لکھنے لگے، بعد میں شیخ کی تالیفات کی کتابت تصحیح و تربیت میں مصروف ہوئے، آپ نے شیخ کی بے حساب کتابیں لکھی ہیں آپ تیز لکھنے میں اتنےماہر تھے کہ ایک مرتبہ بارہ ہزار اشعار کو بارہ راتوں میں کتابت کردی، ایک رات میں ایک ہزار اشعار لکھتے تھے اور دن میں حسب معمول دوسری کتابوں کی تصحیح و ترتیب میں مصروف رہتے تھے، شیخ کی اکثر کتابوں کی تصحیح آپ کے ہاتھ سے ہوئی ہے، جن دنوں مکہ معظمہ میں قحط سالی ہوئی اور شیخ علی بھی دوسروں کی طرح فاقے کرنے لگے تو آپ ایک دوسرے آدمی کے پاس جا کر کتابت کرتے اور اس کی اجرت پر آپ کی اور شیخ کی گزر بسر ہوتی تھی، چونکہ ان دنوں بیگن بہت سستے تھے اس لیے انھیں خرید کر ان میں تھوڑا سا نمک دال کر اچار کے طور پر رکھ دیتے اور یہی روزانہ اپنے شیخ کے ساتھ تناول فرماتے تھے غرضیکہ آپ اپنے پیرو مرشد کی اطاعت اور رضا مندی میں اتنے منہمک تھے کہ آپ کو فنافی الشیخ کہا جائے تو بجاہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ کی ظاہری و باطنی مہربانیوں کے لیے مخصوص ہوگئے اور انوار و اسرار و کمالات سے بہرہ ور ہوئے، اپنے پیر کے کمالات کا صرف مجموعہ ہی نہیں بلکہ پیر کی ذات بن گئے، شیخ علی فرمایا کرتے تھے میں نے راہ خدا میں ایک بھائی پایا جو عبدالوہاب ہے، شیخ عبدالوہاب کا بیان ہے کہ پیر و مرشد نے مرید کرتے وقت مجھ سے اقرار لیا کہ مالداری پر فقر کو مقدم رکھنا اور اس اعتقاد پر جمے رہنے چنانچہ اب تک میرا یہی عقیدہ ہے غرضیکہ شیخ کے ہاتھ پر میں نے ماہ جمادی الاول 963ھ میں بیعت کی اور ان کی خدمت میں ان کی وفات 2؍جمادی الاول 975ھ تک رہا میں ان کے ساتھ تقریباً بارہ برس رہا اس وقت پیرو مرشد کی عمر تقریباً (64) سال ہوگی آپ نے اپنے قیام مکہ معظمہ کے زمانے میں (44) حج کیے اور چوالیسویں حج کے بعد آپ دوسرے سال حج کے لیے مکہ معظمہ سے گجرات آئے، کشتی کے ذریعہ آپ کی آمد میں پندرہ یا سولہ دن اور مکہ کی واپسی کے لیے چالیس لیے دن صرف ہوئے، اس سال بھی آپ نے مکہ واپس ہوکر حج ادا کیا، آپ کی آمدورفت کا یہ قلیل عرصہ جو کشتی کے ذریعہ طے ہوا آپ کی کرامت تھی۔
شیخ عبدالوہاب اس زمانے میں علم و عمل، حال و اتباع، استقامت و تربیت مریدوں کے سلوک اور طالب علموں کی افادیت، امداد اور غریبوں فقیروں پر مہربانی و شفقت، مخلوق الٰہی کو نصیحت و برکت عطائے نورانیت اور تمام نیک کاموں کی تلقین کرنے میں اپنے پیرومرشد کے حقیقی وارث، اولیں خلیفہ اور صاحب اسرار ہیں۔
اہالیان حرمین، مشائخین یمن و مصرو شام نے آپ سے ملاقات کی ہیں اور یہ سب آپ کی ولایت اور علوشان کے قائل ہیں اور ان کا متفقہ بیان ہے کہ شیخ عبدالوہاب دراصل قطب وقت امام ابوالحسن شاذلی کے شاگرد شیخ ابوالعباس مرسی کے قدم بہ قدم گامزن ہیں۔
بعض مشائخین یمن نے اہالیان حرمین کے نام شیخ عبدالوہاب کی تعریف میں لکھا ہے: اے اہالیان حرمین! تم میں ایک شمع منجانب اللہ روشن ہے اس سے روشنی حاصل کرو۔
اہل یمن کے صاحب حال عارِف و محقق، شیدائی توحید شیخ سید حاتم ایک مرتبہ شیخ عبدالوہاب سے ملنے کے شوق میں مکہ معظمہ آئے لیکن شیخ عبدالوہاب نے اپنے مکان پر ملنے کی اجازت نہ دے کر کہلا بھیجا دلوں کی ملاقات ہی زیادہ وقعت رکھتی ہے جسمانی طور پر ملنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے چنانچہ سید حاتم یہ جواب پاکر بخوشی یمن واپس ہو گئے۔
جس سال مکہ معظمہ سے میں ہندوستان جانے والا تھا بعض یمنیوں نے آکر کہا کہ سید حاتم اس موسم میں شیخ عبدالوہاب سے ملنے کا اِرادہ رکھتے ہیں اسی زمانے میں ایک دن تنہا بیٹھا ہوا حزب ا لبحر کی نقل کر رہا تھا کہ مکہ مکرمہ کے مشہور اور ممتاز بزرگ شیخ علاؤالدین میرے گھر پر حاضر ہوئے اور پوچھنے لگے یہ کیا لکھ رہے ہو؟ میں نے جواب میں کہا حزب الجر نقل کر رہوں تاکہ کشتی میں اسے پڑھ سکوں، پھر انہوں نے فرمایا کسی سے اجازت لی ہے؟ میں نے کہا شیخ عبدالوہاب متقی سے اجازت لینے کا اراداہ ہے اس پر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا تم شیخ عبدالوہاب کو جانتے ہو؟ میں نے کہا تقریباً دو سال سے آپ کی خدمت کر رہا ہوں تو انہوں نے فرمایا مبارک ہو تمہارے حج مقبول ہوئے اور اعمال پسندیدہ ہوئے، میں نے کہا کس وجہ سے آپ کی تعریف کرتے ہیں؟ جواب دیا اس لیے کہ میرے یمن کے سفر میں وہاں کے مشائخین و فقراء نے متفقہ طور پر کہا کہ شیخ عبدالوہاب مکہ مکرمہ میں اپنے وقت کے قطب ہیں۔
شیخ عبدالوہاب کتب حقائق و توحید مثلاً فصوض الحکم وغیرہ کے بارے میں توقف کرتے تھے نہ تو اس قسم کی کتابیں پڑھتے پڑھاتے اور نہ ان کی ممانعت کرتے اور دوسرے فقہا کی طرح کسی کو بر بھلا نہیں کہتے تھے، آپ فرماتے تھے کہ ظاہری و باطنی طور پر اہلِ سُنت والجمات کی طرح پہلے اپنا عقیدہ مظبوط کرو پھر جو کتابیں مطالعہ کرنا چاہتے ہو کر لو، ان کتابوں کو دیکھ کر اپنا اعتقاد بنانا مناسب نہیں، ہر شخص کی بات کو ٹھندے دل سے سن لو اور اچھی طرح سمجھ میں نہ آئے تو اس سے قطع نظر کرکے چھوڑ دو، اور اپنے عقیدہ میں خلل مت ڈالو۔
ایک مرتبہ آپ کے سامنے ایک کتاب جس کا نام انسان کامل تھا ذکر کیا گیا، آپ نے فرمایا اس کتاب کو شیخ عبدالکریم جیلی نے جو عدن میں سکونت پذیر تھے اور یمن کے مشائخین میں سے تھے تصنیف کی ہے، اور یہ کتاب ابن عربی کی کتابوں کی طرز پر ہے، پھر شیخ عبدالکریم کی تعریف کرنے لگے، فرمایا انہوں نے قرآن شریف کی ایک تفسیر لکھی ہے۔ جس کی حالت یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی تشریح کی (19) جلدیں ہیں، بسم اللہ کے ہر حرف پر ایک بہت بڑی جلد تصنیف کی ہے جس میں سے دو تین جلدیں میری نظر سے بھی گزری ہیں اور اس میں بڑے بڑے علوم کو عالمانہ طور پر لکھا ہے لیکن درحقیقت زہر کو شکر میں لپیٹ کر پیش کیا ہے، اگر اس کتاب کے مطالعہ سے پرہیز کیا جائے تو بہتر ہے ورنہ اس سے یقیناً مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آپ فرماتے تھے کہ تصوف کے لیے یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے توحید و جودی کے اعتقاد کو رکھا جائے جیسا کہ فصوص الحکم وغیرہ میں مذکور ہے، بلکہ تصوف کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمیشہ ریاضت پر عمل کیا جائے اور اہل سنت و الجمات کا عقیدہ ہو، اس کے بعد میں ذوق و حال پیدا ہو کر باطن میں ایک ادراک نمودار ہوجائے، آپ نے فرمایا اگر ایک شخص کلمہ پڑھتا ہے اور نماز روزہ وغیرہ ادا کرتا ہے اس سے اگر حال و ذوق، اور ادراک کی چیزیں ظاہر ہوں تو اس کو معذور رکھ کر اس پر لعن و طعن نہ کرے اور اسے ملحدین کی طرف منسوب نہ کرے، برخلاف اس کے جو مسلمان نہ ہو اور ارکان اسلام ادا نہ کرتا ہو وہ اگر توحید و جودی اور اپنے ادراک و ذوق و حال کو بیان کرے تو وہ پکا ملحد اور بے دین ہے، ایسے شخص کی باتوں کا فوراً انکار کردو، قوالی کی بابت آپ کی یہ حالت تھی کہ کسی مرید کو قوالی سننے کی اجازت نہ دیتے تھے، ایک مرتبہ میں نے کہا کہ ہمارے ملک میں قوالی سننا ایک عام چیز بن گئی ہے اگر کوئی شخص قوالی سننے سے احتراز کرے تو سب لوگ اس کے مخالف اوراس کو بر سمجھتے ہیں اور مشائخین کے حوالہ سے اس پر الزام لگاتے ہیں ایسے موقع پر بتائیے کیا عمل کرنا چاہیے؟ جواب دیا، اگر کبھی اپنے ہم مشرک لوگوں کے ساتھ کوئی عزل قوالی مقررہ شرائط کے ساتھ سُنی جائے تو حرج نہیں ہے، اس پر میں نے پھر کہا کہ ہندوستان کا قاعدہ یہ ہے کہ مجلس قوالی میں ہر قسم کے لوگ اہل و نااہل، صالح و منافق اکھٹے ہوتے ہیں اور چناں چنیں کرتے ہیں جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوگا، اس مجلس قوالی کی بابت کیا ارشاد ہے؟ جواب دیا ایسی مجلس قوالی بالکل جائز نہیں، طالب حق کے لیے اس سے پرہیز واجب ہے اور جب کبھی ایسا مسئلہ درپیش ہو تو اس میں کبھی چشم پوشی نہ کرنا۔
شیخ عبدالوہاب اپنے پیرومرشد کے زمانہ میں اور ان کے بعد بھی ایک عرصہ تک مجردر ہے البتہ جب پچاس سال کی عمر کو پہنچے تو شادی کی اور شادی سے پہلے کتابت یا نذرانہ کے طور پر جو پیسے ملتے تھے وہ سب فقیروں کو تقسیم کردیا کرتے تھے اور شادی کے بعد اہل و عیال کے حقوق کو مقدم رکھتے تھے تاہم فقیروں کی امداد اور غم خواری کو بھی ملحوظ رکھتے تھے، خصوصاً ہندوستانی فقیروں کے پشت و پناہ تھے ان کے لباس، کھانے پینے کا بندوبست کرتے، جو لوگ مدینے منورہ زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض سے آتے ان کے اسباب سفر میں پوری امداد فرماتے، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس زمانہ میں آپ سے زیادہ کوئی شخص علوم شرعیہ کا ماہر موجود نہیں ہے، اگر یہ کہا جائے کہ لغت قاموس آپ کو پوری یاد تھی تو مبالغہ نہ ہو گا، اسی طرح فقہ حدیث اور فلسفہ کی کتابیں بیشتر زبانی یاد تھیں، عربی ادب میں بھی ماہر تھے، برسوں تک حرم شریف میں ان کتابوں کو پڑھاتے رہے، اب بڑھاپے کی وجہ سے بینائی کمزور ہوگئی اس لیے گوشہ نشین ہیں جو کتابیں نادر و کمیاب اور زیادہ مفید ہیں ان کو منگواکر ان کی تصحیح کرتے ہیں اور اصل مسئلہ تلاش کرکے ایسے انداز میں لکھ دیتے ہیں کہ جس سے طالب کی کامل تشفی ہو جاتی ہے اور اپنی زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔
آپ فرماتے تھے کہ علم غذا کی طرح ہے جس کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے اور اس کا نفع عام ہے، ذکر دوا کی طرح ہے جس کے ذریعہ علاج کیا جاتا ہے، طالب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کاموں سے فرصت نکال کر خلوت میں فراغت دل اور حضور قلب کے خاص کر رمضان کے آخری عشرے اور بقرعید کے پہلے عشرہ خصوصیت کے ساتھ ذکر و شغل و عبادت کرے اور باقی دنوں میں تحصیل علم میں لگ جائے، لوگوں نے عرض کیا کہ مشائخ تو یہ کہتے آئے ہیں کہ ہمیشہ اور ہر وقت ذکر الٰہی میں مشغول رہے اس کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا جو شخص اچھے کام میں مشغول ہے وہ گویا ذکرِالٰہی کر رہا ہے، نماز ادا کرنا، تلاوت قرآن پاک، علوم شرعیہ کا پڑھانا اور جتنے بھی اچھے کام ہیں یہ سب ذکر میں داخل ہیں ، یہ ہمیشہ کے لیے ہوتے ہیں، جو لوگ پڑھنا پڑھانا اور تمام کاموں کو چھوڑ کر ذکر میں مصروف رہتے ہیں یہ خطرناک بیماری ہے، ہاں جب سخت ہو تو اس وقت خلوت میں زیادہ سے زیادہ پورے انہماک سے ذکر الٰہی کیا جائے، نیز سلف کا یہی قاعدہ رہا ہے کہ تمام اچھے کام جیسے تہذیب اخلاق، اشاعت علوم، اور خدمت خلق وغیرہ میں ہمیشہ لگے رہتے تھے۔
آپ نے فرمایا علم کوئی ایسی چیز نہیں جسے چھوڑ دیا جائے بلکہ یہ وہ نعمت جس کے لیے سچی نیت سے کوشش کی جائے۔
ایک دن کسی فقیر نے آپ سے سوال کیا، نماز پڑھنا بہتر ہے یا ذکر کرنا، آپ نے فرمایا، نماز پڑھنا بہت بڑا کام ہے لیکن بکثرت ذکر الٰہی سے اتصال و اتحاد کی وہ دولت ہاتھ آتی ہے جو آخر کار فنائے وحدت کی صورت اختیار کرلیتی ہے، اس پر لوگوں نے پوچھا کہ فنائے وحدت کے کیا معنی ہیں؟ ارشاد فرمایا وہ ایک لذت ہے جس کا چکھنے سے تعلق ہے اور تمام طلب گاروں کا حقیقی مقصد صرف اسی لذت کا حاصل کرنا ہے جس نے ایک مرتبہ بھی اپنی عمر میں یہ لذت چکھ لی اس کو پھر تا عمر اس لذت کا ذوق باقی رہتا ہے۔
کچھ لوگوں نے پوچھا کہ درویش جس طرح دعوت حق دیتےتھے یہ وصول حق کا طریقہ ہے یا نہیں؟ جواب دیا ممکن ہے یہ طریقہ ہو لیکن یہ عوت دینے والے بڑے بداخلاق اور کحج فہم ہوتے ہیں، یہ لوگوں کی ایذا ر سانی کو برداشت نہیں کرتے، اور جو آدمی برا ہوتا ہے وہ جلد اپنے عمل کا بدلہ پاتا ہے، دعوت حق دینے والوں کو چاہیے کہ وہ خوش اخلاق اور اذیتیں برداشت کرنے والا ہوں، اور ہمارے پیرومرشد جو دعوت حق دیتے تھے وہ خوش اخلاق تھے، نیز لوگوں کی ایذا ر سانی برداشت کیا کرتے تھے، مجھے دعائے سیفی پڑھنے کی اجازت ملی ہے جس کی سند بہت بڑی ہے چونکہ پیر و مرشد کو دعائےسیفی کی اجازت نہ تھی اس لیے جب انہوں نے مجھےعلوم شریعت و طریقت کی اجازت دی تو دعائے سیفی پڑھنے کی مجھ سے اجازت لی، اس کے بعد دعائے سیفی پڑھنے کی مجھ کو اجازت دے دی تاکہ میں ان کی جانب سے مجاز مطلق اور پورا خلیفہ ہوجاؤں ۔
پیرو مرشد فرمایا کرتے تھے کہ درویش جو ذکر اور حلقہ وغیرہ کرتے ہیں اگرچہ اس کی سند سنت نبوی سے نہیں ملتی تاہم مشائخ کا یہ عمل مستحسن ہے، ہر وہ کام جس کی بنیاد ذکرالٰہی پر ہو وہ موثر ہوتا ہے اصلی ذکر لا الٰہ الا اللہ ہے اور باقی اذکار اسی سے لفظی، معنوی، صوری طور پر مستنبط ہیں، آپ فرماتے تھے کہ ذکر میں الفاظ کو پوری طرح اور صحیح طور پر ادا کرنا چاہئے، ذکر لا الٰہ الا اللہ میں حرف لا کو اور الا اللہ میں الا کو کھینچ کر پڑھنا چاہئے، اور حرف ہا کو بخوبی واضح طور پر ادا کیا جائے، غلبہ شوق اور استیلائے ذکر میں پھر الفاظ ذکر جس طرح اداہوں درست ہے لیکن پورے الفاظ کی ادائیگی کا خیال و انتظام رکھا جائے۔
مشائخین کو ذکر ارہ وغیرہ کرتے ہوئے ان کے مریدوں نے دیکھا اور خود اسی طرح ذکر ارہ کرنے لگے۔ اگرچہ بعض نے اس کی سند بھی حاصل کی ہے۔
ذکر خفی کی مطابق فرمایا، جو ذکر آہستہ کیا جائے اس طرح پڑھ کہ برابر والا آدمی نہ سن سکے اس کو ذکر خفی کہتے ہیں، عرض کیا گیا کہ بعض لوگ ذکر خفی کی اس طرح تعریف کرتے ہیں کہ اس میں زبان کو دخل نہ ہو بلکہ قلب کو بھی خبر نہ ہو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا یہ الگ بات ہے، ذکر خفی کا ادنی مقام یہ ہے کہ ذاکر خود سن لے جیسے غیر جہری نماز۔
اگر دل میں اللہ کو یاد کیا جائے تو بہت اچھا ہے لیکن اس پر ذکر کا اطلاق نہیں ہوتا ہے آپ اپنے حالات اور اسرار سے کسی نامحروم نہیں کرتے تھے، جلسہ عام میں بقدر ضرورت اکتفا کرتے تھے، مجھے چونکہ آپ سے نور استقامت اور استماع فضائل حاصل ہو چکا تھا اس لیے عرض کیا کہ کبھی کبھی اپنے حالات و اخبار سے مستفید فرماتے رہیں چنانچہ آپ کبھی کبھی عجیب و غریب حالات بیان فرماتے تھے۔
ایک مرتبہ میں نے آپ سے دریافت کیا کہ مشائخ و فقراء اہل یمن و حرمین کہتے ہیں کہ آپ شیخ ابوالعباس مرسی کے قدم بہ قدم گامزن ہیں، اس واقعہ کی کیا حقیقت ہے؟ اس پر مسکراتے ہوئے فرمایا، اللہ جانے وہ کیوں کہتے ہیں اور کس وجہ سے کہتے ہیں، اس کے بعد شیخ ابوالعباد مرسی کے مناقب و فضائل بیان کرنے لگے اور فرمایا کہ آپ شیخ ابوالحسن شاذلی کے مرید تھے، شیخ ابن عطاءاللہ آپ کے شاگرد تھے انہوں نے آپ کی سوانح حیات پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’لطائف المنن فی مناقب شیخ ابوالعباس وابی الحسن‘‘ ہے۔
شیخ ابوالعباس مرسی ایک بڑے بزرگ آدمی تھے، بادشاہ وقت کو ان سے بدگمانی سی پیدا ہوگئی تھی، اس نے اس کے تقویٰ و پرہیز گاری کا امتحان لینے کی غرض سے ان کو دعوت دی اور دو طرح کے کھانے پکوائے، ایک تو وہ تھے جو عام طور پر کھائے جاتے ہیں جیسے بکری اور مرغ وغیرہ اور دوسری کچھ حرام چیزیں جیسے کتا اور بلی وغیرہ کے گوشت وغیرہ اور حکم دیا کہ مرغ وغیرہ حاکموں اور فوجیوں وغیرہ کی جانب جو ایک صف میں بیٹھیں گے ان کی جانب بڑھائے جائیں۔ اور کتا بلی وغیرہ کے گوشت فقیروں اور درویشوں کی طرف رکھے جائیں، اس کی کسی کو خبر نہ ہونے پائے، رکابیوں میں ایک خاص قسم کی شناخت رکھی تاکہ کھانا ایک دوسرے سے ملنے نہ پائے، شیخ کے دل میں مجلس میں داخل ہونے کے بعد منجانب اللہ یہ بات معلوم ہوئی تو آپ اپنی جگہ سے اٹھے اور آستین چڑھا کر کہنے لگے آج میں مخلوق اللہ کی خدمت کروں گا، یہ کہہ کر وہ کھانے جو امراءو حکام کے آگے رکھے گئے تھے فقیروں کی جانب کھِسکادئیے اور درویش کے آگے جو کھانے رکھے گئے تھے وہ سب امراء و حکام کے آگے رکھ کر فرمایا۔
(خراب چیزیں خراب لوگوں کے لیے اور عمدہ چیزیں اچھے لوگوں کے لیے ہیں) یہ دیکھ کر بادشاہ نے اپنی بدگمانی اور بد اعتقادی سے توبہ کی اور فوراً ہی شیخ کے قدموں پر گرپڑا، اتنی حکایت بیان کرنے کے بعد شیخ عبدالوہاب نے سکونت فرمایا اور مجھ کو باقی قصہ سننے کا انتظار تھا، چنانچہ سال بھر بعد میرے پوچھے بغیر ایک دن فرمایا کہ گذشتہ سال ہم نے ایک قصہ بیان کیا تھا وہ تمہیں یاد ہوگا جو ادھورا رہ گیا تھا، واقعہ یہ ہے کہ مولانا محمد طاہر یمنی کا ایک ملازم جو ان کے پاس سے شیخ ابوالعباس مرسی کی زندگی میں مکہ مکرمہ آیا تھا، اور چونکہ مولانا محمد طاہر یمنی کے شیخ ابوالعباس مرسی سے مراسم واقعات تھے اس لیے وہ شیخ کی مہمان سرائے میں ٹھیر گیا، اسی درمیان میں وہ بیمار پڑ گیا، میں (عبدالوہاب) کبھی کبھی اس کی عیادت کو جاتا تھا، ایک رات میں نے سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا جو ارشاد فرما رہے ہیں کہ اے عبدالوہاب! جاؤ اور اس بیماری کی خبر لو اور ثابت قدم رکھو، چنانچہ میں بیدار ہوا اور اس بیماری کے پاس پہنچا، دیکھا کہ اس کا آخری وقت ہے میں اس کے سرہانے بیٹھ گیا اور قرآن پاک اور دوسری دعائیں پڑھنے میں مشغول ہو گیا، اتنے میں اس بیمار نے یہ آیت تلاوت کی ویثبَّت اللہَ الَّذین بالقول الَّثابت پھر جاں بحق ہو گیا، اس کی اس آیت کی تلاوت سے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو کہ اس کو ثابت قدم رکھو بالکل ثابت پایا، پھر دوسرے دن اس کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھی، میں اس کی قبر کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ میری آنکھ لگ گئی اور اس حالت میں نے دیکھا کہ وہ بیٹھا ہوا ہے اور مجھے دیکھ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تمہاری تثبیت اور ثابت قدم رکھنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نزع کے وقت شیطان کے وساوس سے نجات دی اور شیخ ابوالعباس مرسی کے محل کے پاس جنت میں مجھے جگہ دی ہے، میں نے یہ خواب اپنے شیخ سے بیان کیا، وہ اور ہم سب لوگ خوب روئے، اس کے بعد شیخ عبدالوہاب نے فرمایا کہ یہ قصہ ابھی ادھورا ہے اس کا باقی حصہ یہ ہے کہ میں نے جس بیمار کو خواب میں دیکھا تھا اس نے مجھ سے کہا آئیے ذرا ہمارے گھر کی سیر کیجیے، چنانچہ اس کے گھر کے بیرونی دروازے پر پہنچے پھر اس میں سے گزر کر اندرونی دروازوں میں سے ہوتے ہوئے اس کے گھر میں گئے، دیکھا کہ اس کا یہ گھر ایک بہت بڑا محل ہے جو ہر قسم کے سازو سامان اور جواہرات سے آراستہ ہے اس میں قیمتی جواہرات اور موتیوں کی پچہ کاری ہے۔ دروازے، اور دریچہ سب قیمتی جواہرات کے ہیں، اور حقیقت میں اس کا یہ محل ایسا تھا جیسا کہ جنت کے اور مکانوں کا حال ہے، پھر تھوڑی دیر بعد میں اس سے رخصت ہوکر باہر آیا، وہ شخص بھی مجھے رخصت کرنے باہر آیا اور وہیں مجھ سے ایک اور آدمی ملا جس کے چہرہ سے کرامت و ولایت کے آثار نمودار تھے، اس نے بڑھ کر السلام علیکم کے بعد اپنے گھر چلنے کی آرزو کی، جس پر میں (عبدالوہاب) نے کہا، ہماری آپ کی کوئی شناسائی نہیں ہے میں آپ کے گھر کیسے چل سکتا ہوں جس پر اس نئے شخص نے کہا یہ ضرور ہے کہ ہم میں آپ میں بظاہر کوئی شناسائی نہیں ہے لیکن اتحاد اور یگانگت کی ایک خاص نسبت ہے غرض کہ اس کے مجبور کرنے پر میں اس کے ساتھ اس کے گھر گیا دیکھا تو اس کا محل بہت زیادہ عمدہ اور جواہر و یا قوت کا بنا ہوا ہے اور پہلے والے شخص سے بھی زیادہ آراستہ و پیراستہ ہے، میں نے ان کا نام دریافت کیا تو جواب دیا، میرا نام ابوالعباس مرسی ہے، انہوں نے اپنی نشست گاہ پر مجھے بٹھایا اور کہا آپ یہاں بیٹھے، آپ ہمارے جانشین ہیں، غرض کہ ایک عرصہ بعد وہاں باہر نکل کر دیکھا کہ وہیں پیرومرشد شیخ علی متقی کا بھی محل ہے میں نے ان سے ملاقات کی، وہ جہاں بیٹھے تھے اس کے پاس نہریں جاری تھیں، ایک نہر کی جانب اشارہ کرکے فرمایا یہ جامع کبیر ہے، پھر ایک دوسری نہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ جامع صغیر ہے، پھر دوسری نہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ میری فلاں کتاب ہے اور یہ میری فلاں کتاب ہے۔
یہ میرا خواب تھا اور شیخ ابوالعباس مرسی کے متعلق میں یہی جانتا ہوں ممکن ہے کہ شیخ ابوالعباس مرسی نے اس واقعہ کی فقرائے یمن اور اہالیان حرمین شریفین کو اطلاع دی ہو ورنہ میں نے آج تک کسی فرد سے بیان نہیں کیا، یہ خواب تیس سال بعد صرف تم سے کہہ رہا ہوں اور وہ کبھی اس وجہ سے کہ اس خواب کے بیان کی ضرورت پیش آگئی تھی، حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے بارے میں فرمایا کہ ایک مرتبہ میں اپنے بچپن کے زمانے میں اپنے والد محترم کے ہمراہ علاقہ مندو کے حادثات اور انقلاب میں کہیں گُم ہو گیا اور ہم مارے مارے اس جنگل میں جا پہنچے جہاں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ تھی، میں بھوک کی وجہ سے رونے لگا تو والد صاحب نے کہا، تھوڑی دیر صبر کرو کھانا تیار ہے، لیکن ان باتوں سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا، جب رات ہوئی تو شیر و بھیڑیا وغیرہ کے خوف سے ہم نے درخت پر رات گزاری، صبح کو اٹھ کر دیکھا تو اس درخت کے نیچے میٹھے پانی کا چشمہ پایا، ہم کو دیکھ کر وہیں ایک نُورانی بوڑھے نے اپنی بغل سے دو گرم روٹیاں نکال کر ہم کو دیں، اس درخت کے قریب ہی ہم کو ایک گاؤں کی آبادی کے اثرات بھی معلوم ہوئے چنانچہ وہ روٹی کھا کر اور چشمہ کا میٹھا پانی پی کر ہم آبادی کی جانب روانہ ہوئے، گاؤں میں پہنچ کر ہم بہت مسرور ہوئے، پھر اس آدمی اور چشمہ کے دوبارہ دیکھنے کے شوق میں ہم گاؤں سے جب اس درخت کے پاس پہنچے تو وہاں نہ وہ چشمہ تھا اور نہ وہ بوڑھا، ہم حیران و پریشان ہوئے اور آخر کار معلوم ہوا کہ وہ بوڑھا شخص دراصل خواجہ خضر تھے جو ہماری امداد کے لیے وہاں ظاہر ہوئے تھے۔
ایک مرتبہ استدراج کے متعلق ارشاد فرمایا کہ فاسق اور بدعتی بھی ایک قوت و تصرف حاصل کرلیتے ہیں جس کے ذریعہ عوام الناس کو اپنا معتقد بناتے ہیں اور ان کا دل اپنی طرف مائل کرتے ہیں، چنانچہ میرے ساتھ بھی اس قسم کس قصہ پیش آیا ہے، ایک مرتبہ میں (عبدالوہاب) علاقہ ملا بار میں اس وقت پہنچا جب کہ عبدالعزیز شافعی وہاں کے قاضی شہر تھے، ان کا دستور تھا کہ وہ مسافروں، درویشوں اور گدڑی پوشوں سے رازداری کی گفتگو کے خواہاں تھے مجھ کو درویشی لباس میں دیکھ کر وہ میرے قریب آبیٹھے دوران گفتگو میں نے پوچھاکیا آپ کے شہر میں کوئی صالح فقیر ہے جس کے ساتھ نشست و برخاست کی جائے تو انہوں نے کہا، ایک اہل باطن ہے شہر والے اس کے معتقد ہیں لیکن وہ بعض ممنوعات الٰہی کو ظاہراً کرتا ہے اس لیے ہمیں پسند نہیں ہے، چنانچہ میں دوسرے دن قاضی صاحب کے بتائے ہوئے پتہ پر پہنچا، دیکھا کہ ایک بلند جگہ وہ بیٹھا ہوا ہے اور دو تین آدمی اس کے ساتھ ہیں اور مردوں عورتوں کا جمگھٹا ہے، مجھے دیکھ کر اس نے خوشی سے مرحبا کہا، تھوڑی دیر بعد شراب کے جام آئے اور دور چلنے لگا، مجھے بھی پینے کا اشارہ کیا، میں نے کہا یہ حرام ہے، اس نے بے انتہا اصرار کیا، لیکن جب میں نے نہ پی تو اس نے کہا اگر نہیں پیتے تو دیکھ میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں، غرض کہ میں اس کے پاس سے رنجیدہ خاطر لوٹا، اپنے دوستوں سے مل کر بھی میں نے یہ واقعہ بیان نہیں کیا، کھانا تیار تھا، لیکن وہ بھی اچھا معلوم نہ دیا، پھر اسی حالت میں سوگیا، خواب میں دیکھا کہ ایک پر بہار باغ ہے جس میں ہر طرح کے میوے لگے ہوئے ہیں، وہاں دن والا شخص اپنے ہاتھ میں جام شراب لیے آیا اور کہا یہ پی لو، میں تمہیں باغ میں لے آیا ہوں لیکن دن کی طرح میں نے اس وقت بھی جام شراب پینے سے انکار کیا، تھوڑی دیر بعد آنکھ کھل گئی اور میں نے جاگتے ہی لاحول پڑھی، اس کے بعد میں پھر سوگیا اور دوسری مرتبہ بھی یہی خواب دیکھا چنانچہ بیدار ہو کر رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں میں نے التجا کی اور امداد چاہی اب تیسری مرتبہ سوتے میں دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دستِ مبارک میں عصا لیے رونق افروز ہیں اور میں آپ کے روبرو کھڑا ہوں کہ اتنے میں وہی بدعتی شخص پھر آیا، جناب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عصا اس کی جانب پھینکا اور وہ کتے کی صورت بن کر بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھاگ کھڑا ہوا، اس کے بعد آقائی و مولائی سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا، وہ بھاگ گیا اب دوبارہ اس شہر میں نہ آئے گا، چنانچہ خواب سے بیدار ہو کر میں نے وضو کیا اور دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرکے اس کے مکان پر پہنچا دیکھا کہ وہاں کوئی پرندہ تک نہیں ہے اور وہ میرے پہنچنے سے پہلے فرار ہو چکا تھا، لوگوں نے دریافت پر کہا کہ تھوڑی دیر پہلے یہ پیر اپنا گھر خالی کرکے اپنا سامان لے کر ایک دو ہوچکا ہے۔
ایک مرتبہ عبادت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا سلوک و جذب کی راہ میں عارف باللہ اپنی نظروں سے عین حقیقت وغیرہ دیکھتے ہیں، سوال کیا گیا کہ بغیر جذب و سلوک کے بھی اللہ تک رسائی ہوتی ہے جیسا کہ لوگوں کا خیال ہے؟ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا ہمیں بھی ابتدائی زمانے میں ایک واقعہ پیش آیا تھا اس پر غور کر کے بتاؤ کہ یہ کس قسم میں ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ہم احمد نگر (دکن) کے ایک باغ میں بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ اور بھی فقیر تھے کھانا پکانے کی تیاری کر رہے تھے کہ دور سے ایک آدمی آتا دکھائی دیا، میں نے دل میں سوچا کہ اگر یہ شخص ہمارے پاس آئے تو اس کو بھی ہم کھانا کھلائیں گے چنانچہ وہ شخص ہمارے پاس آیا میں نے اس سے کہا ذرا بیٹھے گا کھانا تیار ہو رہا ہے ایک لقمہ کھالیجیے، میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ اس طرح بھاگا جیسے جنگل کا جانور چوکڑیاں بھرتا ہوا دوڑتا ہے، اس کے آنے اور جانے کی ادا میرے دل میں گھر کر گئی چنانچہ میں بھی اس کے پیچھے دوڑا لیکن وہ باغ میں لاپتہ ہو گیا، بہت تلاش کیا لیکن دکھائی نہ دیا آخر میں مایوس ہو کر واپس ہوا تھا کہ ایک درخت میں سے جس کی شاخیں زمین پر آکر اس درخت کےتنہ کو چھپائے ہوئے تھیں اس میں سے مجھے آواز دیکر کہا کیا دیکھ رہے ہو کسے ڈھونڈرہے ہو، میں نے کہا میں تم ہی کو تلاش کر رہا ہوں تب اس نے مجھے بلاکر اس جھاڑی کے اندر بٹھایا اور کہا کہو اللہ اللہ چنانچہ میں نے یہ اسم اعظم چھ سات مرتبہ کہا ہوگا کہ غیب سے ایک نُور دکھائی دیا اور میں خود رفتہ ہوگیا مجھے اپنی سدھ بدھ نہ رہی عقل و شعور جاتے رہے اور مرنے کی سی حالت ہوگئی، اس کے بعد اس مرد حق نے میری گردن اور کان سہلائے تھوڑی دیر کے بعد میری ہوش ٹھکانے ہوئے لیکن وہاں کی خصوصی حالت سے میں ایسا متاثر ہوا تھا کہ عرصہ تک اپنی اصلی حالت میں نہ آسکا تھا اور بہت دنوں تک میں اپنی ذات میں اس دن کے انوار و برکات کے اثرات محسوس کرتا رہا۔
ایک دن جنگم جوگی کی ریاضت و تصرف کا تذکرہ آپ کے سامنے ہوا تو فرمایا ایام سیاحت میں ہماری بھی ملاقات ایک جوگی سے ہوئی جو بڑی بڑی ریاضتیں کرتا تھا اور عام عادات انسانی کے خلاف مظاہرے کیا کرتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا کہ میرے پاس سونے کا ایک قلع ہے تم (عبدالوہاب صاحب) اگر میرے ساتھ ریاضت کرو تو میں تم کو اس طلائی قلعہ کے اندر لے جاؤں گاشہر کے مرد و زن اس کے پاس جمع رہتے، ہر قسم کے تحفہ و تحائف سامان اکل و شرب اور زر نقد لاتے لیکن وہ سب کا سب فوراً ہی تقسیم کردیتا اور خود اس میں سے کوئی چیز اپنے پاس نہ رکھتا، میں نے اس کو مذہب اسلام کی کچھ باتیں سنائیں تو اس نے بڑے شوق سے سنیں۔ چونکہ اس نے طلائی قلعہ دیکھنے کا کئی بار مجھ سے تذکرہ کیا تھا اس لیے میں نے خاص طور پر اس پر توجہ ڈالی۔ وہ ایسا ہی مضمحل و پریشان رہا کیونکہ جوگی گری کے کاموں میں میری توجہ کے بعد مشغول ہو جاتا تھا، لیکن آخر کار وہ اسلام لایا اور توبہ کرکے میرا مرید ہوا، ایک مرتبہ درویشوں کی ریاضت ترک سوال اور غذاسے غیر متعلق رہنے کے سلسلے میں اپنا واقعہ بیان کیا کہ ایک زمانہ میں ہماری غذا کی یہ حالت تھی کہ ہمارا ایک دوست قصائی کے پاس سے ناکارہ ہڈیاں اور گیہوں کے تنکے جو کھیتوں میں پڑے رہتے ہیں لاتا اور انہیں دھو کر دیگچہ میں ابالتا اور ہم دونوں اس شوربے کا ایک ایک پیالہ پی لیا کرتے، لوگوں کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو وہ طرح طرح کے کھانے لانے لگے تو ہم وہاں سے روانہ ہوگئے پھر ہم نے دستور بنالیا کہ تین دن سے زیادہ کہیں قیام نہیں کرتے تھے۔
شیخ عبدالوہاب کے ایک دوست مجھ عبدالحق سے کہتے تھے ایک مرتبہ قحط کے زمانہ میں شیخ عبدالوہاب اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک مسجد میں تھے، ایک کونہ میں یہ اور دوسرے کو نہ میں وہ عبادت الٰہی کرہےتھے، دونوں نے طے کر لیا تھا کہ ہم آپس میں گفتگو نہ کریں گے، نیز کسی سے کھانا نہ مانگیں گے، بیس دن تک یہی حالت رہی کہ ان دونوں نے باہم کوئی بات نہیں کی، اور کسی نے کھانا بھی نہیں کھایا اکیسویں دن ایک حلوہ فروش نے ان دونوں کے درمیان کھانا رکھا اور چلا گیا۔ ان دونوں نے اس میں سے کچھ نہ کھایا۔ پھر دوسری مرتبہ بھی یہی ہوا یہا ں تک کہ تیسری بار اس حلوائی نے اپنے ہاتھ سے لقمے بنا کر دونوں کو کھلائے، یہ اس زمانہ کا قصہ ہے جب کہ شیخ عبدالوہاب مکہ معظمہ آئے اور شیخ علی متقی کی صحبت میں رہنے لگے۔
ایک مرتبہ اس فقیر عبدالحق نے دریافت کیا کہ باوجود اس ریاضت، حال و مکاشفہ اور تصرفات جو آپ میں بدرجہ کمال موجود تھے مشائخ کی صحبت میں رہ کر اور کیا چیز حاصل کی؟
جواب میں فرمایا جو کچھ مجھے ملا ہے وہ مشائخ کی صحبت بابرکت کا فیض ہے پھر تھوڑی دیر بعد کہا میرا مذہب اور میری اسلامی شریعت کی بقاء و قیام کا انحصار ہی ان بزرگوں کی برکات پر ہے، ابتدائی زمانہ میں ایسے مختلف حالات پیش آئے کہ میں کہتا اللہ ہی جانتا ہے میرا کیا حشر ہوگا اور کس جنگل میں حیران و پریشان پھروں گا لیکن بزرگوں کے طفیل اور ان کی صحبت کی وجہ سے میرا طریقہ دین و اسلام مستحکم و مظبوط ہوا اور اصلی کام یہی ہے کہ آخرت کے کام درست ہو جائیں۔
ایک مرتبہ حُضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیردی کی گفتگو ہوئی تو فرمایا ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ میں سبز گنبد کے اُوپر گیا، گنبد شق ہوا اور میں اس دراز میں سے مزارمبارک پر پہنچا اور پھر اس میں سے نکل کر متلاشی ہوا اور اسی قوت کے اثر سے مشرق و مغرب کی ہر چیز سے بلند و بالا ہو گیا ہوں، میں نے یہ خواب پیر و مرشد شیخ علی متقی کے زمانے میں دیکھا تھا جب ان سے اپنا یہ خواب بیان کیا تو انہوں نے یہ تعبیر دی کہ تم پیروی سرور کائنات میں کامل اور آقائی دو عالم کی محبت میں مستغرق اور بصفت باقی باللہ رہو گے۔
ایک مرتبہ عمرۂ جعرانہ کا تذکرہ ہوا تو شیخ عبدالوہاب نے کہا مکہ مکرمہ سے تقریباً سات میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں جعرانہ ہے جہاں جنگِ حنین کی غنیمتیں تقسیم کرنے کے لیے سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا تھا۔ اے عبدالحق! جب تمہارا گزر ادھر سے ہو تو وہاں ضرور عمرہ کرنا، اسی کے قریب وہ پہاڑ ہے جہاں سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا تھا۔ اس جگہ کو ہر گز نہ بھولنا، آپ نے اس مقام کی پوری پوری نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا اگر تمہاری قسمت میں ہے تو وہاں سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا جمال جہاں آرالازماً حاصل ہوگا۔ میں وہاں پہنچا تو سو گیا اور خواب میں تھا جتنی دیر میں آنکھ کھلتی اور بند ہوتی ہے اتنی دیر میں نے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا جمال جہاں آرا دیکھا، دو منٹ یا اس سے بھی کم مدت میں تقریباً میں نے آقائی و مولائی رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو سو مرتبہ سے زیادہ دیکھا اور شیخ عبدالوہاب المتقی القادری الشاذلی کا دستور تھا کہ اس مقام کا عمرہ کرنے کے لیے ہمیشہ روزہ دار اور پیدل جایا کرتے تھے۔
کچھ ایسا کر دے مرے کردگار آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں
وہ نُور دے مرے پرورگار آنکھوں میں
کہ جلوہ گر رہے رُخ کی بہار آنکھوں میں
اُنہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں
کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں
یہ دم ہمارا کوئی دم کا اور مہماں ہے
کرم سے لیجئے دم بھر قرار آنکھوں میں
یہ دل تڑپ کر کہیں آنکھوں میں نہ آجائے
کہ پھر رہا ہے کسی کا مزار آنکھوں میں
پیا ہے جامِ مَحَبت جو آپ نے نُوری
ہمیشہ اس کا رہے گا خُمار آنکھوں میں
(سامانِ بخشش)
اخبار الاخیار