عبدالوہاب نام، متقی لقب، والد کا نام شیخ ولی اللہ تھا۔ اصل وطن مالوہ تھا۔ ان کے والد ہندوستان کے اکابر صوفیا و صلحا سے تھے۔ حوادثِ زمانہ نے ترکِ وطن پر مجبور کیا۔ برہان پور آگئے، یہیں فوت ہوئے۔ شیخ عبدالوہاب کو چھوٹی عمر ہی میں سلوک و معرفت اور سیر و سیاحت کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ بیس سال کی عمر میں وطن سے نکلے۔ گجرات، دکن، سراندیپ سے ہوتے ہوئے مکہ معظّمہ پہنچے۔ یہاں حضرت شیخ<href="#_ftn1" name="_ftnref1" title="">[1] علی متقی چشتی قادری شاذلی کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔ خدمتِ مرشد میں رہ کر علومِ ظاہری و باطنی سے بہرۂ وافر حاصل کیا۔ اپنے خلوص و عقیدت کے باعث مرشد سے بے اندازہ فیوض و برکات اکتساب کیے۔ اپنے اخلاقِ حمیدہ اور اوصافِ پسندیدہ کی وجہ سے عینِ ذاتِ مرشد ہوگئے تھے۔ صاحبِ اخیار الاخیار لکھتے ہیں: شیخ عبدالوہاب ۱۲ سال مرشد کی زندگی میں اور ۲۸ سال مرشد کی وفات کے بعد مکہ معظّمہ میں رہے۔ اس چالیس سال کے دوران میں ایک سال بھی حج فوت نہیں ہوا۔ وہاں تمام عمر درس و تدریس، ارشاد و ہدایت اور ریاضت و مجاہدہ میں گزاری۔ مرشد کی وفات
عبدالوہاب نام، متقی لقب، والد کا نام شیخ ولی اللہ تھا۔ اصل وطن مالوہ تھا۔ ان کے والد ہندوستان کے اکابر صوفیا و صلحا سے تھے۔ حوادثِ زمانہ نے ترکِ وطن پر مجبور کیا۔ برہان پور آگئے، یہیں فوت ہوئے۔ شیخ عبدالوہاب کو چھوٹی عمر ہی میں سلوک و معرفت اور سیر و سیاحت کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ بیس سال کی عمر میں وطن سے نکلے۔ گجرات، دکن، سراندیپ سے ہوتے ہوئے مکہ معظّمہ پہنچے۔ یہاں حضرت شیخ[1] علی متقی چشتی قادری شاذلی کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔ خدمتِ مرشد میں رہ کر علومِ ظاہری و باطنی سے بہرۂ وافر حاصل کیا۔ اپنے خلوص و عقیدت کے باعث مرشد سے بے اندازہ فیوض و برکات اکتساب کیے۔ اپنے اخلاقِ حمیدہ اور اوصافِ پسندیدہ کی وجہ سے عینِ ذاتِ مرشد ہوگئے تھے۔ صاحبِ اخیار الاخیار لکھتے ہیں: شیخ عبدالوہاب ۱۲ سال مرشد کی زندگی میں اور ۲۸ سال مرشد کی وفات کے بعد مکہ معظّمہ میں رہے۔ اس چالیس سال کے دوران میں ایک سال بھی حج فوت نہیں ہوا۔ وہاں تمام عمر درس و تدریس، ارشاد و ہدایت اور ریاضت و مجاہدہ میں گزاری۔ مرشد کی وفات کے بعد اپنے خویش و اقارب سے ملنے کے لیے گجرات آئے مگر اُسی سال واپس چلے گئے کہ حج سے محروم نہ رہ جائیں۔ پچاس سال کی عمر میں نکاح کیا۔ اس سے پہلے جو فتوح خانقاہ میں آتی تھی وہ سب کی سب تقسیم کردی جاتی تھی۔ اب اس سال سے اپنے اہل و عیال کا حصّہ بھی نکالنے لگے۔ صاحب اخبار الاخیار رقمطراز ہیں۔ شیخ عبدالوہاب فرماتے ہیں کہ ایک بار میں بچپن میں والد کے ہمراہ سفر میں تھا۔ اثنائے سفر میں ہم راستہ بھول کر ایک صحرائے لق و دق میں پہنچ گئے۔ آبادی تو کجار ہی آب و گیاہ کا نام و نشان تک بھی نہ تھا۔ ہمارے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ میں بھوک اور پیاس کی شدت سے رونے لگا۔ والد دلداری کرتے تھے کہ صبر کرو ابھی طعام آتا ہے۔ اسی حالت میں رات ہوگئی۔ ہم وحشی جانوروں سے بچنے کے لیے ایک درخت پر چڑھ گئے۔ اسی کش مکش میں رات کاٹی۔ علی الصبح ہم کیا دیکھتے ہیں کہ اُسی درخت کے نیچے ایک میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہے اور قریب ہی ایک نورانی صورت مرد پیر بیٹھا ہوا ہے۔ ہم درخت سے نیچے اُترے اس نے ہمیں اپنی بغل سے گرم گرم روٹیاں نکال کردیں۔ ہم نے کھائیں۔ اُس چشمے سے پانی پیا۔ اس مرد پیر نے کہا: یہاں قریب ہی ایک گاؤں ہے وہاں چلے جاؤ۔ ہم اس گاؤں میں چلے گئے۔ کچھ عرصہ آرام کیا۔ مجھے وہ چشمہ دیکھنے کا پھر شوق ہوا، اُس جگہ پر آیا، دیکھا کہ وہاں نہ چشمہ ہے نہ وہ مرد پیر۔ حیران رہ گیا۔ شاید وہ بزرگ حضرت خضر ہوں گے۔ ہم پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
شیخ اپنے سفر کا ایک اور حال لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم دیارِ مالابار میں پہنچے۔ قاضیِ شہر شافعی المذہب عبدالعزیز نامی تھا، درویشوں کی بڑی خدمت کرتا تھا۔ ہمیں بھی درویش سمجھ کر بڑی محبت و عقیدت کے ساتھ پیش آیا۔ میں نے اس سے پوچھا: کیا اس شہر میں کوئی مردِ درویش ہے۔ کہا: ہاں کیوں نہیں صاحب خوارق و کرامت درویش ہے۔ عوام بھی اس کے بڑے معتقد ہیں۔ مگر بظاہر ارتکابِ نواہی کرتا ہے، خود شراب پیتا ہے دوسروں کو پلاتا ہے۔ اسی وجہ سے میں بھی اُس سے خوش نہیں ہوں۔ دوسرے روز میں قاضی کی نشان دہی کے مطابق اس شخص کو دیکھنے کے لیے گیا۔ دیکھا کہ ایک اونچی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے، ارد گرد لوگوں کا ہجوم ہے۔ میں جب اس کے نزدیک پہنچا تو مجھے مرحبا کہا اور بڑا خوش ہوا۔ دو پیالے شراب کے آئے ایک اس نے خود پینا شروع کیا اور دوسرا مجھے پینے کے لیے کہا۔ میں نے انکار کیا، کہا یہ تو حرامِ مطلق ہے اسے نہیں پینا چاہیے۔ وہ اصرار کرتا رہا میں انکار پر قائم رہا۔ تنگ آکر کہنے لگا: اچھا نہیں پیتے تو نہ پیو۔ دیکھو اب تمھارے ساتھ کیا پیش آتا ہے۔ میں ہ سن کر بڑا مغموم ہوا اور اُس کی مجلس سے اُٹھ کر آگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھتا ہوں کہ بڑا پُر لطف و پُر نظارہ اور عجیب و غریب باغ ہے۔ اگر اسے بہشت کا نمونہ کہا جائے تو بجا ہے۔ چاہا کہ اندر جاؤں۔ دیکھا کہ دروازے پر وہی مردِ شراب خوار کھڑا ہے۔ ہاتھ میں شراب کا پیالہ ہے۔ کہتا ہے پہلے یہ شراب پیو پھر باغ کے اندر جانے کی اجازت ہوگی۔ میں اس اثناء میں بیدار ہوگیا لاحول پڑھا، پھر سوگیا، پھر وہی کیفیت دیکھی، اُٹھا اور حضور اقدسﷺ کی درگاہ میں التجا کی اور آپ کی مدد مانگی، پھر سو گیا۔ دیکھا کہ حضور اکرم ﷺتخت پر تشریف رکھتے ہیں۔ دستِ مبارک میں عصا ہے اور میں حضور کے رُو برو حاضر ہوں، اُسی وقت وہ مردِ شراب خوار حاضر کیا گیا۔ آپ نے اس کی طرف عصا پھینکا اور فرمایا ‘‘ ہٹ جا مبارک کتے’’ اسی وقت اس کی صورت مسخ ہوکر کتے کی ہوگئی۔ وہ وہاں سے بھاگا۔ پھر مجھ فقیر سے مخاطب ہوکر فرمایا: اس وقت میں نے اسے یہاں سے نکال دیا ہے۔ اب یہ شہرمیں نہیں رہے گا۔ میں بیدار ہوکر اس کی قیام گاہ پر گیا۔ دیکھا کہ وہاں کوئی بھی نہیں ہے اور وہ راتوں رات بھاگ گیا ہے۔ ۱۰۰۱ھ میں وفات پائی۔ مزار مکہ معظّمہ میں ہے۔
ز دنیا شد چو در خلد معلّیٰ! |
|
جنابِ شیخِ اکمل عبد وہاب |
[1]۔ شیخ علی نام، متقی لقب تھا، والد کا نام حسام الدین تھا۔ اصل وطن جونپور تھا مگر ولادت برہان پور میں ہوئی تھی پہلے سلسلۂ چشتیہ میں شاہ باجن سے فیض حاصل کیا۔ پھر شیخ حسام الدین متقی ملتانی چشتی سہروردی سے علومِ ظاہری و باطنی سے استفادہ کیا۔ حرمین الشریفین آئے۔ یہاں شیخ ابوالحسن بکری سے اجازتِ تلقین طریقۂ شاذلیہ جو حضرت شیخ ابو مدین مغربی المتوفیٰ ۵۹۰ھ تک منتہی ہوتا ہے حاصل کی اور حضرت شیخ محمد بن محمد بن محمد سخاوی سے سلسلۂ قادریہ کا خرقہ حاصل کیا۔ مکہ معظّمہ میں سکونت اختیار کرکے تادمِ زیست درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں مشغول رہے۔آپ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے جمع الجوامع، جامع صغیر، مجموعہ حکم کبیر، تبئیس الطریق زیادہ مشہور ہیں۔ ۹۷۵ھ میں وفات پائی۔ ‘‘علی سرِ خدا’’ آپ کی تاریخِ وفات ہے۔ مزار مکہ معظّمہ میں ہے۔
کے بعد اپنے خویش و اقارب سے ملنے کے لیے گجرات آئے مگر اُسی سال واپس چلے گئے کہ حج سے محروم نہ رہ جائیں۔ پچاس سال کی عمر میں نکاح کیا۔ اس سے پہلے جو فتوح خانقاہ میں آتی تھی وہ سب کی سب تقسیم کردی جاتی تھی۔ اب اس سال سے اپنے اہل و عیال کا حصّہ بھی نکالنے لگے۔ صاحب اخبار الاخیار رقمطراز ہیں۔ شیخ عبدالوہاب فرماتے ہیں کہ ایک بار میں بچپن میں والد کے ہمراہ سفر میں تھا۔ اثنائے سفر میں ہم راستہ بھول کر ایک صحرائے لق و دق میں پہنچ گئے۔ آبادی تو کجار ہی آب و گیاہ کا نام و نشان تک بھی نہ تھا۔ ہمارے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ میں بھوک اور پیاس کی شدت سے رونے لگا۔ والد دلداری کرتے تھے کہ صبر کرو ابھی طعام آتا ہے۔ اسی حالت میں رات ہوگئی۔ ہم وحشی جانوروں سے بچنے کے لیے ایک درخت پر چڑھ گئے۔ اسی کش مکش میں رات کاٹی۔ علی الصبح ہم کیا دیکھتے ہیں کہ اُسی درخت کے نیچے ایک میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہے اور قریب ہی ایک نورانی صورت مرد پیر بیٹھا ہوا ہے۔ ہم درخت سے نیچے اُترے اس نے ہمیں اپنی بغل سے گرم گرم روٹیاں نکال کردیں۔ ہم نے کھائیں۔ اُس چشمے سے پانی پیا۔ اس مرد پیر نے کہا: یہاں قریب ہی ایک گاؤں ہے وہاں چلے جاؤ۔ ہم اس گاؤں میں چلے گئے۔ کچھ عرصہ آرام کیا۔ مجھے وہ چشمہ دیکھنے کا پھر شوق ہوا، اُس جگہ پر آیا، دیکھا کہ وہاں نہ چشمہ ہے نہ وہ مرد پیر۔ حیران رہ گیا۔ شاید وہ بزرگ حضرت خضر ہوں گے۔ ہم پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
شیخ اپنے سفر کا ایک اور حال لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم دیارِ مالابار میں پہنچے۔ قاضیِ شہر شافعی مذہب عبدالعزیز نامی تھا، درویشوں کی بڑی خدمت کرتا تھا۔ ہمیں بھی درویش سمجھ کر بڑی محبت و عقیدت کے ساتھ پیش آیا۔ میں نے اس سے پوچھا: کیا اس شہر میں کوئی مردِ درویش ہے۔ کہا: ہاں کیوں نہیں صاحب خوارق و کرامت درویش ہے۔ عوام بھی اس کے بڑے معتقد ہیں۔ مگر بظاہر ارتکابِ نواہی کرتا ہے، خود شراب پیتا ہے دوسروں کو پلاتا ہے۔ اسی وجہ سے میں بھی اُس سے خوش نہیں ہوں۔ دوسرے روز میں قاضی کی نشان دہی کے مطابق اس شخص کو دیکھنے کے لیے گیا۔ دیکھا کہ ایک اونچی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے، ارد گرد لوگوں کا ہجوم ہے۔ میں جب اس کے نزدیک پہنچا تو مجھے مرحبا کہا اور بڑا خوش ہوا۔ دو پیالے شراب کے آئے ایک اس نے خود پینا شروع کیا اور دوسرا مجھے پینے کے لیے کہا۔ میں نے انکار کیا، کہا یہ تو جرامِ مطلق ہے اسے نہیں پینا چاہیے۔ وہ اصرار کرتا رہا میں انکار پر قائم رہا۔ تنگ آکر کہنے لگا: اچھا نہیں پیتے تو نہ پیو۔ دیکھو اب تمھارے ساتھ کیا پیش آتا ہے۔ میں ہ سن کر بڑا مغموم ہوا اور اُس کی مجلس سے اُٹھ کر آگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھتا ہوں کہ بڑا پُر لطف و پُر نظارہ اور عجیب و غریب باغ ہے۔ اگر اسے بہشت کا نمونہ کہا جائے تو بجا ہے۔ چاہا کہ اندر جاؤں۔ دیکھا کہ دروازے پر وہی مردِ شراب خوار کھڑا ہے۔ ہاتھ میں شراب کا پیالہ ہے۔ کہتا ہے پہلے یہ شراب پیو پھر باغ کے اندر جانے کی اجازت ہوگی۔ میں اس اثناء میں بیدار ہوگیا لاحول پڑھا، پھر سوگیا، پھر وہی کیفیت دیکھی، اُٹھا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی درگاہ میں التجا کی اور آپ کی مدد مانگی، پھر سو گیا۔ دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تخت پر تشریف رکھتے ہیں۔ دستِ مبارک میں عصا ہے اور میں حضور کے رُو برو حاضر ہوں، اُسی وقت وہ مردِ شراب خوار حاضر کیا گیا۔ آپ نے اس کی طرف عصا پھینکا اور فرمایا ’’ ہٹ جانا مبارک کتے‘‘ اسی وقت اس کی صورت مسخ ہوکر کتے کی ہوگئی۔ وہ وہاں سے بھاگا۔ پھر مجھ فقیر سے مخاطب ہوکر فرمایا: اس وقت میں نے اسے یہاں سے نکال دیا ہے۔ اب یہ شہرمیں نہیں رہے گا۔ میں بیدار ہوکر اس کی قیام گاہ پر گیا۔ دیکھا کہ وہاں کوئی بھی نہیں ہے اور وہ راتوں رات بھاگ گیا ہے۔ ۱۰۰۱ھ میں وفات پائی۔ مزار مکہ معظّمہ میں ہے۔
ز دنیا شد چو در خلد معلّیٰ! |
جنابِ شیخِ اکمل عبد وہاب |
<href="#_ftnref1" name="_ftn1" title="">[1]۔ شیخ علی نام، متقی لقب تھا، والد کا نام حسام الدین تھا۔ اصل وطن جونپور تھا مگر ولادت برہان پور میں ہوئی تھی پہلے سلسلۂ چشتیہ میں شاہ باجن سے فیض حاصل کیا۔ پھر شیخ حسام الدین متقی ملتانی چشتی سہروردی سے علومِ ظاہری و باطنی سے استفادہ کیا۔ حرمین الشریفین آئے۔ یہاں شیخ ابوالحسن بکری سے اجازتِ تلقین طریقۂ شاذلیہ جو حضرت شیخ ابو مدین مغربی المتوفیٰ ۵۹۰ھ تک منتہی ہوتا ہے حاصل کی اور حضرت شیخ محمد بن محمد بن محمد سخاوی سے سلسلۂ قادریہ کا خرقہ حاصل کیا۔ مکہ معظّمہ میں سکونت اختیار کرکے تادمِ زیست درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں مشغول رہے۔آپ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے جمع الجوامع، جامع صغیر، مجموعہ حکم کبیر، تبئیس الطریق زیادہ مشہور ہیں۔ ۹۷۵ھ میں وفات پائی۔ ’’علی سرِ خدا‘‘ آپ کی تاریخِ وفات ہے۔ مزار مکہ معظّمہ میں ہے۔
(خزینۃ الاصفیا قادریہ)