سندھی مدنی یہ دو عزیز مدینہ طیبہ کے فقیہوں اور صوفیاء میں سے تھے جو وہاں سے ہندوستان آئے اور علم حدیث پڑھاتے تھے یہاں کے طالب علم وغیرہ ان دونوں کو شیخین کہتے تھے۔
خواجہ عبدالشہید عبید اللہ فرماتے تھے کہ یہ دونوں شیخین حقیقت میں حضرت ابوبکر و حضرت عمر فاروق شیخین کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ دونوں علم و عمل اور تقویٰ کا مجسمہ تھے، ان جیسے اشنحاص مدینہ منورہ سے آج تک نہیں آئے، یہ دونوں شیخ علی متقی کے خصوصی دوست اور خلیفہ تھے۔
سلطان روم کی جانب سے جو حاکم مکہ مکرمہ میں آتا وہ شیخ علی متقی کی خدمت میں ضرور حاضری دیتا اور آپ کا معتقد ہوجاتا شیخ علی متقی کی خدمت میں جو کچھ بھی ازقسم جنس و مال آتا وہ سب اپنے دوستوں خادموں اور فقیروں کو تقسیم کردیتے، اور اس میں سے کوئی چیز ان دونوں شیخین اور شیخ عبدالوہاب کو اس لیے نہ دیتے کہ شاید یہ مال کسب حلال کا نہ ہو۔
شیخ رَحَمت اللہ کے والد ماجد قاضی عبداللہ بعض حوادثات زمانہ کی وجہ سے سندھ سے ہجرت کرکے اپنے تمام اہل و عیال کے ساتھ زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان مقامات متبر کہ میں رہنے کی غرض سے روانہ ہوئے۔ دوران سفر کچھ دنوں احمدآباد میں قیام کرکے شیخ علی متقی کی صحبت سے سرفراز ہوئے پھر متبرک مقامات کی زیارت کرتے ہوئے مدینہ میں مقیم ہوگئے مدینہ منورہ پہنچنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد انتقال کر گئے اور یہ شیخ عبداللہ دراصل قاضی عبداللہ کے یار غار اور ساتھی تھے ان کی نشوونما بھی مدینہ منورہ میں ہوئی تھی انہوں نے عرصہ تک وہاں تعلیم دی تھی، اور عبادت بھی کی تھی، بعض حوادثات کی وجہ سے یہ شیخ عبداللہ وہاں سے 977ھ کے قریب ہندوستان آئے اور تھوڑے دنوں اپنے آبائی وطن احمد آباد میں مقیم رہے اور عین بیماری کی حالت میں جبکہ قوت حس و حرکت تقریباً مفقود ہوچکی تھی یہ دونوں بزرگ احمدآباد سے مقامات متبرکہ کی طرف روانہ ہوئے اور مکہ مکرمہ پہنچنے کے یہ دونوں بزرگ دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اور تمام صالح بندوں پر اپنی رحمتیں فرمائے۔
زندگی طیبہ میں گزر اور شہہ ہر دوسرا
موت آئے آپ کے سینے سے لگ کر یا رسولﷺ
(سائل)
اخبار الاخیار