حضرت شیخ عبد اللہ طاقی علیہ الرحمۃ
آپ کا نام محمد بن الفضل بن محمد طاقی سجستانی ہروی ہے۔آپ موسٰی بن عمران جیرفتی کے مرید ہیں۔علوم ظاہرو باطن کے عالم تھے۔ شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ وہ ہمارے پیر ہیں اور استاد بھی۔حنبلی مذہب کے تھے۔اگر میں ان کونہ دیکھتا توحنبلیوں کا اعتقاد مجھے نہ معلوم نہ ہوتااور میں نے کسی کو طاقی سے بڑھ کرباہیبت اور بارعب نہیں دیکھا۔میں نے ان کو نابینا دیکھاہے۔مشائخ ان کی تعظیم کرتے تھے۔آپ صاحب کرامات و ولایت و فراست بھی تھے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ وہ کسی کے کام میں دلچسپی رکھتے ہو۔جس قدر کہ میرے ساتھ رکھتے تھے۔میری عزت کرتے تھے اور مجھے اچھا جانتے تھے۔مجھ سے کہا تھا کہ عبداللہ منصور سے کہا۔سبحان اللہ وہ کیا نور ہے کہ خدائے تعالی نے تیرے دل مین رکھا ہے۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ چالیس سال گزرگئے تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ نور کیا ہے جو وہ کہتے تھے۔
شیخ عبداللہ طاقی علیہ الرحمۃغروماہ صفر۴۱۶ھ میں فوت ہوئے۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ مجھ کو محمد قصاب ے آنکھ اور دل سے بزرگ بتایا ہےلیکن خرقانی نے مجھے پہچانا نہیں اور محمد قصاب میری بہت تعظیم کرتے تھےمیرے ساتھ بازار میں آئےاور کہا کہ میرے یاراپنے باپ کے لیے دستار کیا خرید تے ہومیرے ساتھ موافقت کی اور کہا تیس سال ہوگئے ہیں کہ یہاں تک میں بازار میں نہیں آیا۔شیخ الا سلام کہتے ہیں شیخ ابو عبداللہ باکو شیرازی نے اچھے صفر کیے تھے اور دنیا کے مشائخ کو دیکھا تھااور بہت سے بزرگوں کی حکایتیں ان کو یاد تھیں۔میں نے خود ان سے تیس ہزار حکایات انتخاب کر کے لکھی ہیں اور تین ہزار حدیثیں۔شیخ الا سلام کہتے ہیں کہ وہ بادشاہ تھے تصوف کے بہانہ میں تمام علوم سے بانصیب تھےوہ میری اس قدر تعظیم کرتے تھے کہ اور کسی کی نہیں کرتے تھے۔جب میں ان کی خدمت میں آتا وہ کھڑے ہو جاتے اور مشائخ نشاپور کے لیے جیسے ابن ابی خیر وغیرہ کے لیے کھڑے نہ ہوتے تھے۔بڑے دانا تھے۔
شیخ الا سلام کہتے ہیں کہ جب میں رے سے واپس آیا تو شیخ ابو عبداللہ باکو کی خانقاہ میں آیا۔ اس خانقاہ میں میرے تین دوست تھے۔ ایک تو مکی شیرازی،دوم ابوالفرج،سوم ابو نصر تر شیرازی۔شیخ نے آواز دی ابوالفرج وہ خانقاہ سے باہر دوڑا اور کہا لبیک۔شیخ نے کہا جب دانشمند اس خانقاہ میں باہر گیا تھا تو میں نے تم سے کہا تھا۔ کہا آپ نے یہ کیا کہا تھا کہ وہ صفر کو جاتا ہے وہ صفر کے لیے نہیں اور نہ صفر اس کے لیے ہے۔وہ تو اس لیے ہے کہ حلقہ میں بیٹھے اور لوگ اس کے گرد بیٹھے۔وہ خدا کی باتیں کہے۔میں نے کہا کاش بارے یہ بات اس وقت کہتے تاکہ تمام رنج و صفر سفید پڑھتا لیکن خرقانی کو دیکھنا چاہیے تھا۔یعنی میراصفر اس لیے تھا۔
(نفحاتُ الاُنس)