حضرت شیخ عبداللہ قریشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ شیخ بہاؤالدین زکریا کی اولاد میں سے تھے جس زمانے میں آپ کے آباؤاجداد ملتان سے دہلی آئے تو سلطان بہلول نے اپنی دختر نیک اختر کی آپ سے شادی کردی آپ ایک مجذوب بزرگ تھے، ظاہری شان و شوکت کے بھی مالک تھے، سلوک کے ابتدائی دور میں آپ نے بے انتہا ریاضت اور انسانی طاقت سے وراء الوریٰ مجاہدے کیے تھے، آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں سلوک کے ابتدائی مراحل میں روزانہ کم از کم ایک ہزار رکعت پڑھا کرتا تھا اور تین قرآن ختم کرتا تھا اور ایک ساعت اللہ کی یاد اور اس کے ذکر سے جو فوائد حاصل ہوتے وہ تمام عبادتوں سے زیادہ ہوتے تھے۔
شیخ حاجی عبدالوہاب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ایک رات میں اپنے مُرشد عبداللہ یوسف کی خِدمت میں حاضر ہوا، آپ اپنے علوم الٰہی سے بھی مجھے بہرہ یاب فرمایا کرتے تھے۔اس لیے اس رات جب مجھے مشاہدے کی کیفیت کے آخری مراحل تک پہنچادیا تو فرمایا کہ یہ علم باتوں کے ذریعہ سینہ میں داخل نہیں کیا جاسکتا، البتہ اس کے حاصل کرنے اور سکھانے میں مکمل رشدو ہدایت دخیل ہے کیونکہ دل ایک برتن کے مثل ہے جس میں مختلف حالات جمع ہیں اور دنیا میں کوئی بھی دل ایسا نہیں جو احوال کے اعتبار سے ایک دوسرے سے الگ اور متفرق نہ ہو، اسی لیے دو مختلف الحال دل ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ ہر دل میں دوسرے دل کے علاوہ ایک خاص قسم کی لذت ہے۔
آپ ایک دن اپنے دومنزلہ مکان کی چھت پر کھڑے تھے جو اب بھی آپ کے مقبرے کے برابر موجود ہے، اچانک آپ پر وجد کی حالت طاری ہوگئی اور اسی حالت میں مکان کی چھت سے گر گئے لیکن اس کے باوجود کہ مکان دومنزلہ تھا آپ کے کوئی چوٹ وغیرہ نہ لگی۔
آپ نے ایک مرتبہ جذبہ و حال کی کیفیت میں ایک بکری کو اُٹھاکر زمین پر دے مارا جس سے وہ مرگئی، لوگوں نے آپ سے کہا کہ غریب بکری کو آپ نے خواہ مخواہ مار دیا، اس کے بعد آپ نے اس مردہ بکری کی پشت پر لات مارکر فرمایا کہ کھڑی ہوجا اور کسی کو بدنام نہ کر، قدرت خداوندی سے وہ مردہ بکری زندہ ہوگئی ایک دن آپ نے وجد کی حالت میں اپنے خادِموں سے فرمایا کہ گھر کے اندر جتنا اثاثہ اور سامان و اسباب ہے اس کو نکال کر باہر پھینک دو اور گھر کو آگ لگادو، اس وقت آپ کے چھوٹے بیٹے احمد شاہ آپ کے پاس موجود تھے انہوں نے عرض کیا کہ ابا جی سامان نکالنے میں لوگوں کو تکلیف ہوگی بہتر یہ ہوگا کہ سامان مکان کے اندر ہی رہے اور اس کو آگ لگادی جائے تاکہ تمام چیزیں ایک دم جل جائیں اور قصہ تمام ہوجائے، آپ کو اپنے فرزند کی یہ بات پسند آئی۔
آپ کا مزار پرانی دلی میں مشہور ہے لوگ اس کی زیارت کرکے برکت حاصل کرتے ہیں، آپ نے 22؍صفر کو انتقال فرمایا۔
(اخبار الاخیار)