حضرت شیخ عبداللہ شاہ بلوچ قادری لاہوری
حضرت شیخ عبداللہ شاہ بلوچ قادری لاہوری (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ عبداللہ شاہ بلوچ قادری لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مشائخ قادریہ میں بڑے عظیم المرتبت بزرگ گزرے ہیں۔ صاحبِ علم و فضل تھے۔ زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت میں ممتاز الوقت تھے۔ ذات کے بلوچ تھے۔ سار بانی پیشہ تھا۔ صاحبِ ثروت تھے۔ شیخ شرف الدین پانی پتی کے مرید خلیفہ تھے۔ سلسلۂ بیعت چار واسطوں سے حضرت محمد میر معروف بہ میاں میر قدس سرہ تک منتہی ہوتا ہے۔ جب سلوک میں قدم رکھا تو تمام مال و متاع راہِ خدا میں لٹا دیا۔ تکمیلِ سلوک کے بعد حکمِ مرشد کے مطابق لاہور آکر لوگوں کی ظاہری و باطنی تہذیب و تربیت میں مشغول ہوگئے۔ موضع مزنگ میں اپنے نام پر ایک محلّہ آباد کیا جو اب تک کوٹ عبداللہ شاہ کے نام پر مشہور ہے۔ یہیں تمام عمر درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ ایک خلقِ کثیر آپ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے مستفیض ہوئی۔
آپ کے خلفاء میں سے مولانا مفتی شیخ فیض بخش لاہوری قریشی ہاشمی، مولانا غلام محمدالمشہور امام گاموں امام مسجد نواب وزیر خاں، مولانا حافظ الیار پشاوری قابلِ ذکر ہیں جو اپنے کمال علم و فضل کے باعث مشہورِ زمانہ ہُوئے ہیں۔ مولانا شیخ مراد بخش بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں شیخ عبداللہ بلوچ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک ہندو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا کہ علمِ کیمیا کا شائق ہُوں۔ بڑی محنت اور روپیہ صرف کرنے کے باوجود میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ معلوم نہیں آیا یہ کوئی علم بھی ہے یا نہیں۔ اگر آپ اس معاملے میں میری رہنمائی فرمائیں تو ممنونِ احسان ہوں گا۔ آپ نے فرمایا: بہتر۔ جاؤ کچھ تانبے کے پیسے، سم الفار اور گندھک لے آؤ۔ وہ اسی وقت بازار جاکر یہ سب چیزیں لے آیا۔ مجھے فرمایا کہ جس مٹی کے پیالے میں ہم کھانا کھاتے ہیں وُہ اٹھا لاؤ اور تانبے کے پیسے اس میں ڈال کر سم الفار اور گندھک بھی شامل کردو۔ اوپر کوئلے بھر کر آگ دے دو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ کچھ دیر کے بعد میں فرمایا: چمٹے سے پکڑ کر ایک پیسہ باہر نکالو۔ میں نے پیسہ نکال کر زمین پر رکھ دیا۔ اس ہندو سے فرمایا: اسے کُوٹو۔ جب سیاہ پردہ دُور ہوگیا تو زرِ خالص نکل آیا۔ وُہ ہندو اسی وقت حلقہ بگوشِ اسلام ہوکر آپ کا مرید ہوگیا۔
نقل ہے ایک شخص نے عملیات کے ذریعے ایک جِنّ کو مسخّر کر رکھا تھا اور اسے کسی پرانی قبر کے نیچے چھپا کر اس سے جو چاہتا، کہلواتا۔ اس چیز نے اسے عوام میں صاحبِ کرامت مشہور کر رکھا تھا اور اکثر جہلاء اس کے دامِ فریب میں گرفتار تھے۔ ایک روز یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا اگر آپ کو دعوائے فقر ہے تو مجھے کوئی کرامت دکھایئے، نہیں تومیں دکھاتا ہُوں۔ پھر آپ کو میرا مرید ہوجانا پڑے گا۔ میں مردۂ صد سالہ کو زندہ کر کے گویا کرتا ہُوں اور یہ کرامت مُجھ سے کئی مرتبہ ظہور میں آچکی ہے۔ میرے ساتھ آئیے میں آپ کو اس کا مشاہدہ کراتا ہوں۔ آپ کو گورستانِ میانی میں لے گیا اور کہا: بتائیے، کس مُردہ کو زندہ کروں۔ آپ نے ایک قبر کا نشان دیا۔ اس نے قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر کہا: یٰسین: اندر سے ندا آئی۔ والقرآن الحکیم۔ کہنے لگا: دیکھئے مُردہ زندہ ہوگیا ہے، اب آپ اس سے جو چاہیں پُوچھیں یہ آپ کی ہر بات کا جواب دے گا۔ آپ نے قبر پر پاؤں مار کر فر مایا: جو شخص اس قبر کے اند چُھپا ہُوا ہے وُہ باہر آجائے۔ اُسی وقت ایک چودہ پندرہ سالہ لڑکا قبر سے باہر آگیا۔ آپ نے پُوچھا: تُو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جِنّ ہُوں اور کئی سالوں سے اس شخص کی قید میں ہُوں۔ اس کے حکم سے قبر کے اندر جاکر سوالوں کا جواب دیتا ہُوں۔ آپ نے فرمایا: میں تجھے اللہ کے حکم سے آزاد کرتا ہُوں اور اس شخص کے عملِ تسخیر کو باطل کرتا ہُوں۔ جِنّ اسی وقت غائب ہوگیا۔ حاضرین جو آپ کے ساتھ گورستان گئے تھے انہون نے خوشی و مسرّت کے ساتھ نعرۂ تکبیر بلند کیا اور وُہ شعبدہ باز تائب ہوکر آپ کے حلقۂ ارادت میں آگیا۔ ۷ ماہ جمادی الاوّل ۱۲۱۲ھ میں وفات پائی۔ مزار موضع مزنگ کوٹ عبداللہ شاہ میں زیارت گاہِ خلق ہے۔
چو عبداللہ شاہ مردِ عجیب
جستم از دل چو سالِ تاریخش
شد ز دنیا بسوئے دوست قریب
گفت ہاتف بگوشِ ہوش ’’غریب‘‘
۱۲۱۲ھ