حضرت غوث الاعظم کے بزرگ ترین خلفا سے تھے۔ علومِ ظاہری و باطنی میں منفرد تھے۔ آپ کا شمار مشائخِ کبار سے ہوتا ہے۔ فتوحاتِ مکیہ میں مذکور ہے کہ ایک روز ابو السعود دریائے دجلہ کے کنارے جارہے تھے کہ اُن کے دل میں خیال گزرا۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہیں جو اس کی عبادت پانی میں کرتے ہیں۔ یہ خیال اُن کے دل میں آیا ہی تھا کہ ایک شخص نے پانی سے سر نکالا اور کہا ہاں کیوں نہیں اور میں انہی میں سے ہوں۔ میں بکریت کے مقام کا رہنے والا تھا جو دریائے دجلہ کے کنارے واقع تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کا حکم ہُوا کہ شہر چھوڑ کر پانی میں عبادت کروں کیونکہ تقدیرِ الٰہی اسی طرح ہے۔ میں نے اس حکم کی تعمیل کی۔ پندرہ روز کے بعد بکریت پر ایک حادثۂ عظیم نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس آفت سے محفوظ رکھا۔ یہ کہہ کر پھر پانی میں غوطہ لگاگیا۔
شیخ ابوالسعود کو حق تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ عطا ہوتا تھا اُس سے رُوگردانی نہ کرتے تھے۔ مکلف طعام کھاتے اور لباسِ فاخرہ پہنتے۔ ایک روز ایک درویش آپ کی خدمت میں آیا دیکھا کہ آپ نے ایک قیمتی پگڑی سر پر باندھ رکھی ہے جس کی قیمت کم ازکم دو سو دینار سے کم نہیں ہے۔ اس کے دل میں خیال گزرا کیا یہ فضول خرچی نہیں ہے جو حکمِ قرآن کے خلاف ہے۔ جس پگڑی کی قیمت سے دو سو درویشوں کا لباس تیار ہوسکتا ہو وہ ایک درویش سر پر کیوں باندھے۔ شیخ نورِ باطن سے اس کے خیال سے آگاہ ہوگئے۔ فرمایا: اے درویش! میں نے یہ پگڑی اپنے آپ نہیں باندھی۔ اگر چاہتا ہے تو اسے بازار لے جاکر بیچ ڈال اور دریشوں کے لیے طعام فراہم کر۔ درویش نے وہ پگڑی بازار میں لے جاکر فروخت کر ڈالی اور درویشوں کے لیے مکلف دسترخوان آراستہ کیا۔ جب خدمتِ شیخ میں حاضر ہُوا تو دیکھا کہ شیخ کے سر پر وہی پگڑی ہے۔ شیخ نے فرمایا: اے درویش حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔ اس شخص سے پُوچھ کہ یہ پگڑی کہاں سے لایا ہے۔ درویش نے اس شخص سے پگڑی لانے کا حال پوچھا۔ اس نے کہا پچھلے سال میں کشتی میں سوار تھا کہ بادِ مخالف چلنی شروع ہُوئی اور اتنی شدّت اختیار کر گئی کہ کشتی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی مگر میں ایک تختہ پر بیٹھا رہا۔ میں عہد کیا اگر میں صحیح و سلامت کنارے پر پہنچ گیا تو خدمتِ شیخ میں ایک قیمتی دستار نذر کرونگا۔ چھ مہینے گزرنے پر بھی مجھے قیمتی دستار نہیں ملی تھی۔ آج یہ دستار فلاں دکان پر دیکھی جسے خرید کر ہدیۂ شیخ کیا۔ شیخ نے فرمایا: سنا میں نے یہ پگڑی خود نہیں باندھی ہے بلکہ کسی اور نے بندھوائی ہے۔
داراشکوہ سفینۃ الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ کتابِِ فصوص الحکم میں تحریر ہے کہ شیخ ابوالسعود نے اپنے مریدوں سے فرمایا کہ پندرہ سال ہوئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مملکت میں قوتِ تصرف عطا فرمائی ہے لیکن میں نے اس سے کبھی کام نہیں لیا۔ ابن القاید نے ایک روز دریافت کیا کہ آپ تصرف کیوں نہیں کرتے۔ فرمایا: میں نے تصرف صرف حق تعالیٰ کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ وُہ جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے اور جو اس کی منشاء ہوگی اس کے مطابق اختیار فرمائے گا۔ ۵۷۹ھ میں وفات پائی۔
قطعۂ تاریخِ وفات:
شیخ ذی رتبہ پیرِ عالمگیر |
|
بو سعود آنکہ بود زبدۂ حق |