آپ قلندر صفت تھے اور شیخ جمال الدین ہانسوی کے ساتھ ان کی بے حد دوستی تھی شیخ ہانسوی جب ہانسی سے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی زیارت کے لیے آتے تو جمنا کے کنارے شیخ طوسی کی خانقاہ میں ٹھہرتے، جہاں فقیروں کی ملاقات کے علاوہ مجالس سماع بھی منعقد ہوا کرتی تھیں، حضرت خواجہ نظام الدین بھی آپ کی خانقاہ میں آتے اور مجلس میں شریک ہوا کرتے تھے۔
ایک دفعہ شیخ جمال الدین ہانسوی کی دہلی میں آمد کے موقع پر مولانا حسام الدین اندرپتی نے جو دہلی کے صدر خطیب اور قاضی القضاۃ تھے، علاوہ ازیں شیخ جمال الدین کے مرید بھی تھے اپنے پیر و مرشد شیخ جمال الدین کا استقبال کیا جب یہ استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے تو شیخ طوسی نے مولانا حسام الدین سے کہا کہ آپ شیخ جمال الدین سے کہہ دیں کہ میں حج کے لیے جا رہا ہوں، شیخ جمال الدین نے آتے ہی مولانا حسام الدین سے دریافت فرمایا کہ ہمارا سفید ہاتھی یعنی ابوبکر طوسی کس حال میں ہے؟ مولانا نے عرض کیا کہ حضرت وہ تو حج کے لیے جا رہے ہیں، اتنی بات سننے کے بعد شیخ نے مولانا حسام الدین کو اسی وقت روانہ کیا اور کہا کہ آپ چلیں ہم آپ کے پیچھے آ رہے ہیں اور یہ رباعی شیخ طوسی کے نام لکھ کر دی
برپائے ترا سرم نثار اولی تراست
یک سرچہ بود بلکہ ہزار اولیٰ تر
درغار وطن ساز چو بوبکر از آنکہ
بوبکر محمدی بہ غار اولیٰ تر!
ترجمہ: (میرا سر اگر آپ کے پاؤں پر قُربان ہوجائے تو بہت اچھا ہو، ایک سر کیا بلکہ ہزار سر بھی قربان ہوجائیں تو بہت بہتر ہو، حضرت ابوبکر کی طرح غار کو وطن بنائیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق حضرت ابوبکر کی مانند ہمارے لیے غار ہی بہتر ہے)
حضرت شیخ ابوبکر طوسی کا مزار دہلی میں جمنا کے کنارے آپ کی خانقاہ ہی میں ہے جو مرجع عام و خاص ہے۔
اخبار الاخیار