آپ کا اسم گرامی عسکر ابن الحصین تھا۔ بعض کتابوں میں عسکر بن محمد بن حصین لکھا ہے خراسان کے کامل مشائخ خراسان میں سے تھے۔ زہد و مجاہدہ اور تقویٰ میں راسخ القدم تھے۔ آپ نے پورے تیس سال ریاضت و مجاہدہ میں گزارے۔ حضرت شیخ حاتم عطار بصری اور حاتم اصم کی صحبت میں رہے۔ فرمایا کرتے ایک بار میں ایک وادی سے گزر رہا تھا میرے دل میں گرم روٹی بیضہ مرغ کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ میں راستہ بھول گیا ایک ایسے قبیلہ میں جا پہنچا۔ جس کے بہت سے لوگ لاٹھیاں ہاتھ میں پکڑے کھڑے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی چلا اٹھے۔ وہ پکڑا گیا مجھے گھیر لیا اور کہنے لگے تم نے ہمارا سامان چورایا ہے تم چور ہو اور مجھے مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ اسی ہنگامے میں مجھے قبیلے کے ایک بوڑھے نے دیکھا اور مجھے پہچان لیا اور چلایا کہ بے وقوفو! یہ تو ہمارے شیخ طریقت ہیں تم کیا کر رہے ہو، بے ادبو! تم صدیقان طریقت کے سردار سے بھی یوں سلوک کر رہے ہو۔ وہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے۔ معافی کے طلب گار ہوئے میں نے کہا: ہمیں معافی کی ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ ہے آج کے واقعہ سے خوشتر میں نے زندگی کا کوئی واقعہ نہیں دیکھا۔ میں ایک عرصہ سے اپنے آپ (اپنے نفس) کو آزمانا چاہتا تھا کہ ذاتی طور پر میری لوگوں میں کیا حقیقت ہے۔ میں نے معلوم کرلیا ہے۔
جس شخص نے مجھے پہچانا تھا مجھے اپنے گھر لے گیا۔ میرے سامنے دستر خوان چن دیا گیا جس پر گرم روٹیاں، انڈے اور بھنے ہوئے مرغ لگا دیے گئے۔ میں نے ہاتھ بڑھایا تاکہ کچھ کھاؤں آواز آئی! ابو تراب کھاؤ۔ انہی چیزوں کے لیے تم نے دوستو تھپڑ کھائے اور اتنی ذلت قبول کی آئندہ بھی اپنے نفس کی ہر خواہش پر اتنی سزا پالیا کرو۔
ایک دفعہ حضرت شیخ ابوتراب اپنے مریدوں کے ساتھ ایک وادی سے گزر رہے تھے وادی ایک لق ووق صحرا تھا۔ دور دور تک پانی اور سایہ دار درخت کا نام و نشان نہ تھا تمام احباب تشنگی سے بے جان ہو رہے تھے۔ انہوں نے پانی مانگا تو حضرت نے اپنا عصا زمین پر مارا اور ایک لکیر کھینچی۔ یہ لکیر پانی کا ایک چشمہ بن گئی۔ سب نے پانی پیا وضو کیا اور نماز ادا کی۔ حضرت شیخ ابوالعباس بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت شیخ ابوتراب کے ساتھ ایک صحرا میں ہم سفر تھا۔ ایک ساتھی نے پانی طلب کیا۔ آپ نے زمین پر پاؤں مارا۔ اس سے چشمۂ آب جاری ہوگیا۔ اس شخص نے فرمایا میں تو پیالے میں پانی پینا چاہتا ہوں۔ شیخ نے ایک ہاتھ زمین پر مارا ایک خوبصورت چینی پیالہ پکڑ کر اس کے حوالے کردیا۔ نہ صرف اس پیالے سے پانی پیتے رہے بلکہ دوران سفر مکہ تک اپنے سامان میں ساتھ رکھا۔
شیخ ابوتراب ۱۷؍جمادی الاوّل ۲۴۵ھ وادی بصرہ میں واصل بحق ہوئے۔ اس وقت آپ یکہ و تنہا ہی سفر کر رہے تھے چند سالوں بعد تاجروں کا ایک قافلہ وہاں سے گزرا۔ لوگوں نے دیکھا۔ آپ رو بقبلہ ایسے ہی نظر آ رہے ہیں جیسے زندہ ہوں۔ اگرچہ آپ کا بدن خشک ہوچکا تھا۔ مگر اتنے عرصہ میں نہ تو کسی درندے نے جرات کی اور نہ موسمی تغیرات نے اثر کیا۔
بوتراب آنکہ بود دَر عالم رحلتش صاحب سعید بگو
|
|
شیخ یکتا ولی حق کامل ہم بفرما ما ولی حق کامل
|
(خزینۃ الاصفیاء)