2016-05-27
علمائے اسلام
متفرق
1700
| سال | مہینہ | تاریخ |
یوم پیدائش | 0481 | جمادى الأولى | 02 |
یوم وصال | 0536 | صفر المظفر | 23 |
حضرت ابو العباس احمد بن محمد الصنہاجی الاندلسی المعروف ابن العریف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپکا نام احمد بن محمد ہے۔علوم کا عالم اور قرات کے اقسام کے عارف تھےاور تمام روایات میں انتہا تک پہنچے ہوئے تھے۔بہت سے مرید و طالب ان کے پاس جمع ہوگئے تھے۔بادشاہ وقت کو ان کی طر ف سے دل میں خوف پیدا ہوا اور ان کو طلب کیا۔آپ راستہ میں فوت ہوگئے۔بعض کہتے ہیں کہ بادشاہ کے پاس پہنچنے سے پہلے اور بعض کہتے ہیں،پہنچنے کے بعد اور ان کی وفات ۵۳۶ھ میں ہوئی۔صاحب فتوحات اپنے شیخ ابو عبداللہ غزالی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ یہ کہتے تھے۔میں ایک دن اپنے شیخ ابن عریف کے پاس سے باہر آیا۔جنگل می سیر کرتا تھا۔جب درخت یا گھاس پر میں پہنچتاتھا۔وہ کہتا تھا،مجھ کو پکڑ کر میں فلاں بیماری کے لیے مفید ہوں اور فلاں ضر رکو دفع کرتا ہوں۔ مجھ کو اس حال سے حیرانی پیدا ہوئی۔اپنے شیخ کے پاس واپس گیا اور یہ قصہ ان سے بیان کیا۔شیخ نے کہا،ہم نے تم کی اس لیے تو تربیت تو نہ کی تھی ۔این کان منک الغار والنا فع حین قالت لک الاشجار انھا نا فعۃ وضارۃ فقال یاسیدی التوبۃ یعنی تم سے نفع و ضر کہا ں ہے۔جب تجھ سے درختوں نے کہا کہ وہ نافع وضر رساں ہیں۔تب اس نے کہا،میرے سردار میری توبہ ہے۔شیخ نے کہا،خدا تعالی نے تجھے آزمایا ہے۔ورنہ میں نےتجھےخدا کا راستہ دکھایا تھا،نہ اس کے غیر کا۔اب تیری سچی توبہ کی علامت یہ ہےکہ اس جگہ پر پھر جائے اور وہ درخت اور گھاس تجھ سے کوئی بات نہ کریں۔ابو عبداللہ اس جگہ پر پھر گئےتو ان باتوں میں سے کچھ نہ سنا۔خدائے تعالی کے شکر کا سجدہ کیااور شیخ کی طرف لوٹا اور اس کو بتایا۔شیخ نے کہا،الحمدللہ الذی اختارک لنفسہ ولم بد فعک الی کون مثلک من اکوانہ یعنی اس خدا کی تعریف ہے کہ جس نے تجھے اپنے لیے پسند کرلیااور نہ دفع کیا۔تجھ جیسے کو اپنے اور مخلوق کی طرف۔صاحب فتوحات یہ بھی لکھتے ہیں۔کنت یوما عند شیخنا ابوالعباس العریفی باسبیلنا جا لساو اردنا اوارہ احدا عطاء معروف فقال شخص من ال جماعۃ للذی یرید ان یتصدق الا قربون اولی بالمعروف فقال الشیخ من فورہ متصلا بکلام الفضائل الی اللہ فیما یردھا علی الکبد واللہ ما سمعتھا فی تلک الحالۃ الا من اللہ تعالی حتی قیل لی انھا کذا نزلت فی القران مما تحققت بھا و اشر بھا قلبی وکذا جمیع من حضر فلا ینبغی ان یاکل نعم اللہ الا اھل اللہ ولھم خلقت خلقت ویا کلھا غیر ھا کم التبعیتہ فھم المقصودون بالنعم یعنی میں ایک دن اپنے شیخ ابو العباس عریفی کے پاس اشبلیہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ہم نے ارادہ کیا یا کسی نے ارادہ کیا کچھ عطیہ کا یعنی صدقہ وغیرہ کا۔تب جماعت میں سے ایک شخص نے صدقہ دینے والے سے کہاکہ قریبی لوگ زیادہ مستحق صدقہ دینے کے ہیں۔پھر شیخ نے فوراً قائل کے کلام کے ساتھ ملا کر کہا،یعنی مراد یہ ہے کہ خد ا سے جو زیادہ قریب ہوں ۔پس اس کلمہ کی کیا ہی ٹھنڈک جگر پر پہنچی ۔واللہ میں نے اس حالت میں اس کو سنا،مگر اللہ تعالی سے حتی کہ مجھ سے کہا گیا کہ قرآن میں ایسا نازل ہوا ہے۔جس کو میں نے اچھی طرح جان لیا اور میرے دل نے اس کو پی لیا۔ایسا ہی تمام حاضرین سمجھ گئے۔اب خدا کی نعمتوں کے لائق صرف اہل اللہ ہیں۔انہیں کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور باقی لوگ ان کے تابع ہو کر کھاتے ہیں۔کیونکہ نعمتوں سے وہی لوگ مقصود ہیں۔آپ رحمتہ اللہ۵۳۶ہجری میں فوت ہوئے۔
(نفحاتُ الاُنس)