حضرت ابوالقاسم علی گرگانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام و کنیت:
آپ کا اسم مبارک علی بن عبداللہ اور کنیت ابوالقاسم ہے۔ آپ کو فیض باطنی شیخ ابوالحسن خرقانی سے اور تین واسطہ سے سید الطائفہ جنید بغدادی سے ہے۔ اپنے وقت میں بے نظیر و بے بدل اور مرجع کل تھے اور مریدوں کے واقعہ کے کشف میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔
کرامات:
۱۔ حضرت قطب دوراں داتا گنج بخش ہجویری لاہوری فرماتے ہیں! کہ مجھے ایک واقعہ پیش آیا جس کے حل کا طریقہ دشوار ہوا۔ میں شیخ ابوالقاسم کرگانی[۱] کی زیارت کے ارادے سےطوس میں پہنچا اور آپ کو مسجد میں اپنے حجرے کے اندر تنہا پایا۔ آپ اس وقت بعینہ میرے واقعہ کو ایک ستون سے ارشاد فرمارہے تھے۔ میں نے عرض کیا اے شیخ! آپ گفتگو کس سے کر رہے ہیں؟ فرمایا: اے لڑکے! اللہ تعالیٰ نے اس وقت اس ستون کو میرے ساتھ گویا کر دیا کہ اس نے مجھ سے سوال کیا جس کا میں جواب دے رہا ہوں۔
[۱۔ کرگان بضم کاف و تشدید رائے مہملہ مفتوح و کاف ذار سی دیہات طوس میں سے ایک گاؤں کا نام ہے۔]
کشف کی کیفیت:
ایک روز شیخ ابوسعید اور شیخ ا بوالقاسمطوس میں ایک تخت پر بیٹھے ہوئے تھے اور درویشوں کی ایک جماعت ان کے آگے کھڑی تھی۔ ایک درویش کے دل میں آیا کہ ان بزرگوں کا مرتبہ کیا ہے۔ شیخ ابوسعید نے اس درویش کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ جو شخص دو بادشاہوں کو ایک وقت میں ایک جگہ پر ایک تخت پر دیکھنا چاہے اسے کہہ دو کہ آکر دیکھ لے۔ یہ سن کر وہ درویش دونوں کی طرف دیکھنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ کے آگے سے حجاب اٹھادیا۔ پس شیخ کے قول کی صداقت اس کے دل پر منکشف ہوگئی۔ اور اس نے ان کی بزرگی کو دیکھ لیا۔ پھر اس کے دل میں خیال آیا کہ کیا آج روئے زمین پر خدا تعالیٰ کا کوئی بندہ ایسا بھی ہے جو ان دونوں سے بڑا بزرگ ہو۔ شیخ ابوسعید نے اس درویش کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ ایک چھوٹا سا ملک ہوتا ہے جس میں ہر روز ابوسعید و ابوالقاسم جیسے ستر ہزار جاتے ہیں اور ستر ہزار آتے ہیں۔
وصال مبارک:
سفینۃ الاولیاء میں آپ کا سنہ وفات (۲۳ صفر) ۴۵۰ھ لکھا ہے۔
ارشاداتِ عالیہ
۱۔ علی بن عثمان یعنی حضرت داتا گنج بخش لاہوری قدس سرہ کا بیان ہے کہ میں نے شیخ المشائخ ابوالقاسم کرگانی سے طوس میں پوچھا کہ درویش کے لیے کم سے کم کون سی چیز ہونی چاہیے تاکہ فقر کے نام کے شایا ں ہوں، آپ نے فرمایا کہ تین چیزیں ہونی چاہییں۔ تین سے کم نہ چاہیے۔ ایک یہ کہ گدڑی پر پیوند درست لگانا جانتا ہو۔ دوسرے یہ کہ بات درست سننا جانتا ہو۔ تیسرے یہ کہ زمین پر پاؤؤں درست مارنا جانتا ہو۔ جب شیخ نے یہ فرمایا درویشوں کا ایک گروہ میرے ساتھ حاضر تھا ہم جب اپنے مکان پر واپس آئے میں نے کہا آؤ ہم میں سے ہر ایک ارشاد شیخ کی نسبت اپنا اپنا خیال ظاہر کرے۔ چنانچہ ہر ایک نے اظہار خیال کیا جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ پیوند درست وہ ہوتا ہے جو بنا بر احتیاج و ضرورت ہو نہ کہ زینت کے لیے۔ جب بنا بر ضرورت پیوند لگایا جائے تو وہ خواہ درست نہ ہو۔ مگر راست و موجب حصول مقصد ہوگا۔ بات درست وہ ہوتی ہے جو درویش حال میں سنے نہ کہ امیدو آرزو میں۔ اور اس میں حق و جد کے ساتھ تصرف کرے نہ کہ بذل کے ساتھ۔ اور پاؤں درست وہ ہوتا ہے جو وجد سے زمین پر مارے نہ کہ لہو سے۔ کسی نے یہ توجیہ حضرت سید ابوالقاسم سے بیان کردی۔ آپ نے سن کر فرمایا علی نے درست کہا۔ اللہ تعالیٰ اس کا حال اچھا کردے۔
۲۔حضرت شیخ ابوالقاسم کرگانی قدس سرہ نے اپنی کتاب اصول الطریقہ و فصول الحقیقہ میں ذکر کیا ہے کہ کسی کام میں جو گناہ نہ ہو بھائیوں کی موافقت کی فضیلت نفلی روزے سے کم نہیں ہے۔ اور روزے کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ روزہ دار کی نظر میں اپنے روزے کی قدر و مقدار نہ ہو۔ (انیس الطالبین ص۶۰)۔
۳۔خواجہ عبیداللہ احرار فرماتے تھے کہ شیخ ابوالقاسم کرگانی قدس سرہ کا ارشاد ہے کہ تو ایسے شخص کی صحبت میں بیٹھ کر تو سراسروہ ہوجائے یا وہ سراسر تو ہو جائے یا دونوں حق سبحانہ میں گم ہوجائیں کہ نہ تو رہے نہ وہ۔ (رشحات، ص۶۰)
(کشف المحجوب۔ نفحات الانس)
(مشائخِ نقشبندیہ)