شیخ احمد مجد شیبابی
شیخ احمد مجد شیبابی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ احمدمجدشیبابی زہدوتقویٰ میں لاثانی تھے۔
خاندانی حالات:
آپ حضرت شیخ احمدمجدشیبابی کی اولادسےہیں؟۔
والد:
آپ کےوالدماجدکانام قاضی مجدالدین تھا،جوقاضی تاج الافضل بن شمس الدین شیبانی کے لڑکے تھے۔
پیدائش:
آپ نارنول میں پیداہوئے۔
بھائی:
آپ کےچھ بھائی تھے۔
تعلیم وتربیت:
آپ کوکل علوم میں دستگاہ حاصل تھی۔آپ کومناظرہ کابہت شوق تھا۔جب آپ طالب علم تھے، اسی وقت سےآپ علماءکی صحبت میں رہتےتھےاوران سےبحث کرتےتھے۔بادشاہوں اورامیروں کی مجلس میں جاتےاوربےتکلف بحث کرتے،آپ کوعربی وفارسی میں تقریرکرنےکی خوب مہارت تھی۔
کایاپلٹ:
مریدہونےکےبعدآپ نےبحث ومباحثہ کرناچھوڑدیا۔بادشاہوں اورامیروں کی صحبت سے اجتناب
کیا۔
اجمیرمیں آمد:
اٹھارہ سال کی عمرمیں آپ اپنےوطن نارنول کوچھوڑکراجمیرآئےاوردربارخواجہ میں رہنےلگے۔ اجمیرمیں(۷۰)سترسال رہے۔خواجہ غریب نوازکاروحانی اشارہ پاک آپ نے اجمیرکےباشندوں کواجمیرپرآنےوالی مصیبت سےآگاہ کردیاتھااورخود بھی اجمیرسے چلےگئے۔
واپسی:
اجمیرسےآپ اپنےوطن نارنول تشریف لائے۔
بشارت:
ایک دن کاواقعہ ہےکہ ایک مجذوب جس کانام اللہ دین تھا،آپ کےپاس آئےاورآپ سے کہا۔۲؎
"احمد!تجھ کوآسمان پربلاتےہیں،اپنےپیرکےپاس جا"۔
ادھرتومجذوب کےفرمانےسےاورکچھ جوخواب آپ نےاس قسم کا دیکھا،اس کی وجہ سے آپ ناگور تشریف لےگئے۔
وفات:
اللہ اکبرکہتےہوئےآپ نے۲۵صفر۹۲۷ھ کوجان شیریں جان آفرین کے سپردکی۔۳؎مزارناگور میں ہے۔
خلیفہ:
ملانارنولی آپ کےمریدہیں۔مولاناعبدالقادرآپ کےخلیفہ ہیں۔
سیرت:
آپ عالم،زاہد،متقی،پرہیزگاراورمتدین تھے،دنیااوراہل دنیاکی آپ کی نگاہ میں کوئی وقعت نہ تھی،
عشق رسول میں سرشارتھے۔خاندان سادات کی بےحد تعظیم وتکریم کرتےتھے۔مجذوبوں سے نہایت انکساری سےپیش آتے تھے۔اپنی تعریف پسندنہیں کرتےتھے۔اگرکوئی مریدآپ کی تعظیم و توقیرکرتااورآپ کوعزت سےپکارتاتوآپ فرماتے۔
"احمدموذی زیاں کار"۔
آپ معمولی قسم کے کپڑےزیب تن فرماتےتھے۔آپ کےپاس ایک خاص پوشاک اورایک دستار رہتی تھی،یہ خاص کپڑے،عیداورجمعہ کی نمازکےموقع پرپہنتےتھےیااگرکوئی دنیادارآتاتھا، جب پہنتےتھے۔
سماع کاشوق تھا۔
ہمت و جرأت:
تلاش معاش کےسلسلہ میں آپ منڈوگئے۔اس وقت آپ کی عمربہت کم تھی۔شیخ محموددہلوی نے جو شیخ الاسلام تھے،امام سےپہلےنمازمیں نیت باندھ لی۔نمازختم ہوئی،کسی نےکچھ نہیں کہا،آپ نے شیخ محموددہلوی سےکہاکہ ان کی نمازنہیں ہوئی،کیونکہ انہوں نےامام سےپہلےنیت باندھی تھی۔
منڈواکےبادشاہوں کےسامنےجب لوگ جاتےتھےتوجھک کراورانگشت شہادت کوزمین پر رکھ کر سلام کرتےتھے۔
آپ نےبادشاہ کواس طرح سلام کیااورفرمایاکہ اس طرح سلام کرنااسلامی تعلیم کےخلاف ہے اور یہ طریقہ بدعت ہے،آپ جب بادشاہ کےسامنےگئے۔سلام علیکم کہااوراس کےبرابربیٹھ گئے۔
فرمان:
آپ فرماتے ہیں کہ۔۴؎
"اہل دین کواہل دنیاکےسامنےذلیل نہ ہوناچاہیےکیوں کہ یہ لوگ،ظاہربین ہیں"۔
کرامت:
جس زمانےمیں آپ اجمیرمیں قیام تھا،آپ نےلوگوں کوآگاہ کردیاتھاکہ اجمیرپرمصیبت آنےوالی ہے،آپ بفرمان خواجہ غریب نوازاجمیرسےباہرچلےگئے۔
حواشی
۱؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۳۸۷
۲؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۳۸۱
۳؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۳۸۱
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)
شیخ احمد مجد بن قاضی مجد الدین بن قاضی تاج الافضل بن شمس الدین شیبانی: آپ کا نسب امام محمد شیبانی تک منتہیٰ ہوتا ہے۔قصبۂ نار نول میں پیدا ہوئے اور اجمیر میں نشو و نما پایا۔بڑے عالم فاضل،جامع علوم شریعت و طریقت اور امرِ معروف و نہی منکر میں جان تک جانے کا خوف نہ کرتے تھے۔علوم ظاہری و باطنی خواجہ حسین ناگوری سے حاصل کیےاور اٹھارہ سال کی عمر میں انواع علوم کا درس دیتے تھے اور بڑی قوت علمیہ کے ساتھ علماء و فضلاء سے بحث کرتے اور زبان عربی و فارسی میں تقریری کیا کرتے تھے،اٹھارویں سال میں نار نول سے اجمیر میں آئے جہاں ستر سال تک زہد و ورع وریاضت میں مشغول رہے اور امر معروف و نہی منکر میں آپ کے سامنے خویش وبیگانہ یکساں[1]تھا۔آپ کا یہ دستور تھا کہ آدھی رات کو اُٹھ کر خواجہ معین الدین کے روضہ مبارک میں نماز تہجد کی پڑھتے اور اس وقت سے نماز چاشت تک کسی سے بات چیت نہ کرتے اور وظائف میں مشغول رہتے، بعد ازاں علوم دینیہ کا درس دیتے،پھر تھوڑی دیر نیند کر کے اٹھ بیٹھتے اور عصر تک اور ادمیں مشغول رہتے،بعد ازاں تفسیر مدارک کا وعظ کہتے اور بیان معنی آیات وعدہ و ووعید میں نہایت گریہ زاری کرتے تھے چنانچہ کثرت گریہ وزاری سے آپ کی آنکھیں ہمیشہ سرخ و مربدرہتی تھیں نوسے سال کی عمر میں آپ اجمیر سے نار نول میں تشریف لائے جہاں تین چار سال مقیم رہے،ایک دن الہ دین مجد وب نے آکر کہا کہ اے احمد آپ کا آسمان میں طلب کرتے ہیں،آپ ناگور میں اپنے مرشد کےپاس چلیں،اسی وقت آپ ناگور کو متوجہ ہوئے اور چند روز کے بعد ۲۵؍ماہ صفر ۹۲۷ھ میں عالمِ جاودانی کو رحلت فرمائی اور ناگور میں اپنے مرشد کے پائیں مدفون ہوئے۔’’زینت موجودات‘‘ تاریخ وفات ہے۔
1۔ شیخ با یزید قیام الدین اجمیری سے تعلیم پائی’’نزہت الخواطر‘‘(مرتب)
(حدائق الحنفیہ)
آپ بڑے بزرگ اور علومِ شریعت و طریقت میں کامل، زہدو تقویٰ کے حامل ذوق اور وجد و حال کے استاد تھے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بہت کوشاں رہتے تھے اہل دنیا آپ کی نظروں میں بے وقعت تھے آپ کی محفل کا رنگ سفیان ثوری کی محفل کی طرح ہوتا تھا آپ خواجہ حسین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے کہتے ہیں کہ اٹھارہ برس تک آپ نے مسلسل درس تدریس کا کام کیا تھا۔ نارنول میں پیدا ہوئے اور اجمیر میں پرورش پائی۔ آپ کے والد قاضی مجدالدین بن قاضی تاج الافاضل بن شمس الدین شیبانی تھے جو امام محمد شیبانی کی اولاد میں سے تھے اور وہ امام ابو حنیفہ کے تلمیذ تھے۔ قاضی مجدالدین کے سات بیٹے تھے جو سب کے سب ہونہار، متقی، دیانت دار اور چوٹی کے عالِم تھے۔ سب سے بڑے بیٹے کا نام شیخ احمد مجد شیبانی تھا جو علم و عمل میں تمام بیٹوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ آپ طالب علمی کے زمانے میں عالموں سےمناظرہ کرتے اور عربی و فارسی زبان میں تقریر بھی کرلیا کرتے تھے اسی طرح بادشاہوں اور رئیسوں کی محافل میں بھی شریک ہوتے اور دھڑتے سے باتیں کیا کرتے تھے۔ جوانی ہی میں خواجہ حسین سے بیعت ہوگئے تھے اس کے بعد مباحثہ اور بادشاہوں کے پاس آمدورفت سے توبہ کرکے علم طریقت شیخ سے حاصل کیا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں نارنول سے اجمیر آئے اور ستر برس تک یہاں ریاضت و عبادت میں گزارے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں آپ کے نزدیک امیر و غریب، اپنا پرایا سب برابر تھے کسی کی جانبداری نہ کیا کرتے تھے۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک مرتبہ تلاش معاش کے لیے اپنے رشتہ دارو ں کے ہمراہ مندو گیا اس وقت میری عمر بہت معلومی تھی، شیخ محمو دہلوی وہاں کے شیخ الاسلام اور صدر العلماء تھے، نماز میں انھوں نے امام سے قبل ہی اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیے، نماز سے فراغت کے بعد کسی نے بھی ان سے کوئی تعارض نہ کیا۔ میں نے جب دیکھا کہ کوئی بھی ان سے کچھ نہیں کہہ رہا تو میں آگے بڑھا اور شیخ الاسلام سے کہا کہ آپ کی نماز نہیں ہوئی اس لیے کہ آپ نے امام کی تکبیر سے پہلے اللہ اکبر کہ کر ہاتھ باندھ لیے تھے۔
مندو والوں کی عادت تھی کہ زمین کی طرف جھک کر اور اپنا انگوٹھا زمین پر رکھ کر شیخ الاسلام کو سلام کیا کرتے تھے لیکن شیخ احمد مجد اور قاضی ادریس دہلوی، شیخ الاسلام کو اس طرح اس لیے سلام نہ کرتے تھے کہ یہ رسم ناجائز خلاف شرع اور بدعت تھی بلکہ یہ دونوں بزرگ السلام علیکم کہتے اور بادشاہ وقت کے برابر بیٹھتے تھے۔ بادشاہ وقت نے انصاف کی خاطر قاضی ادریس کو اجمیر کا قاضی مقرر کرکے چار گاؤں انعام میں دئیے اور شیخ احمد کو مفتی مقرر کیا جو آپ کے آباء واجداد کا کام تھا، شیخ احمد مجد کو خاندان نبوت سے بڑی محبت و الفت تھی۔ اپنے شیخ کے اصول کے مطابق دسویں محرم اور بارہ (۱۲) ربیع الاول کے نئے اور دھلے ہوئے کپڑے نہ پہنا کرتے تھے اور ان ایام میں راتوں کو زمین پر سویا کرتے تھے اور سادات کے قبرستان میں اعتکاف کرتے اور دن کو ازواج مطہرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو ایصال ثواب کی غرض سے لوگوں کو کھانا کھلاتے اور دسویں محرم الحرام کو نئے لوٹے شربت سے بھر کر اپنے سر پر رکھ کر سادات کے گھروں میں جاتے اور ان کے فقیروں اور درویشوں کو پلاتے اور ان دنوں خوب نالہ و گریہ کیا کرتے اکثر آپ کی حالت غیر ہوجاتی اور خوب روتے۔
صحابۂ کرام اور تمام مشائخین کی فاتحہ خوانی حتی الامکان ترک نہ کرتے، نعتیہ کلام کے خوب رسیا تھے اس کے طالب نہ تھے اور نہ ہی رقص و وجد کرتے اسی طرح محفل سماع بھی منعقد نہ کرتے تھے، عموماً آپ پھٹا ہوا لباس پہنتے خوب دُھلا ہوا لباس زیب تن نہ فرماتے۔ اکثر و بیشتر ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ اور نماز کے علاوہ سرپر دستار بہت کم رکھتے تھے البتہ ایک عمامہ اور ایک نفیس پوشاک ہمیشہ تیار رکھتے تھے جس کو نماز جمعہ اور عیدین میں استعمال فرماتے اسی طرح اگر کوئی دنیا دار آپ کے پاس آتا تو اس وقت بھی اس لباس کو پہن لیاکرتے، اور محفل وعظ میں شیروں کی طرح جوان مردی سے بیٹھتے اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو ایسی عظمت اور ہیبت سے بیان کرتے کہ بادشاہوں کے دل بھی موم ہوجاتے اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں سے فرمایا کرتے تھے کہ دنیا والوں کو دین داروں پر ترجیح نہیں دینی چاہیے کیونکہ اہل دنیا محض ظاہربیں ہوتے ہیں۔
آپ اپنے زمانے اور شہر کے مجذوبوں اور فقیروں کی عزت کیا کرتے تھے۔ اگر اتفاق سے آپ کہیں سواری پر جاتے ہوتے اور راستے میں کوئی مجذوبب مل جاتا تو اپنی سواری سے اتر کر دست بستہ کھڑے ہوجاتے اور جو وہ حکم کرتا اس پر عمل کرتے اگر آپ کے سامنے کسی کی غیبت یا کوئی ناجائز بات کرتا تو آپ اس سے فوراً فرماتے کہ بابو خاموش رہو۔
اگر کوئی آپ کے سامنے آپ کا نام مع الاحترام والاعزاز لیتا جیسا کہ عموماً ارادت مند اپنے مطاع کا نام لیتے ہیں تو آپ آبدیدہ ہوکر فرماتے کہ میں بہت بدکردار ناہنجار ہوں۔ اور اسی طرح منقول ہے کہ خواجہ حسن کو بھی اپنی تعریف و منقبت پسند نہ تھی جب کوئی ان کے سامنے تعظیم و تکریم سے پیش آتا تو آپ فرماتے کہ میں تو رانک ہوں اور رانک کمینہ کو کہتے ہیں جو لوگوں میں ذلیل سمجھا جائے۔
اندازِ عِشق: اگر آپ کے سامنے کوئی آکر کہتا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے تو آپ باادب دوزانو ہوکر بیٹھتے اور تمام واقعہ سننے کے بعد اس کے ہاتھ پاؤں کو چومتے، اُس کے دامن و آستین کو اپنے منہ پر ملواتے اور جس جگہ وہ خواب دیکھتا اس جگہ پر بھی جاتے اور اس جگہ کو چُومتے وہاں کی خاک و گردوغبار کو اپنے چہرے اور بالوں پر ملتے۔ اگر وہ مُقام پتھر ہوتا تو اُس پتھر کو دُھلواتے اور اس پانی کو پیتے اور تمام بدن اور کپڑوں پر گلاب کی طرح چھڑکتے۔
سادات کا ادب: اگر کسی سید سے کسی کی لڑائی ہوتی تو آپ اس کے پاس خود جاتے اور اس کی خوشامد کرکے سید کی بات اونچی رکھتے اور فرماتے کہ ان سے اگر کسی مَقام پر شرعاً خصومت کا حق بھی ہوتب بھی مروت ہی سے پیش آنا چاہیے۔
جب اجمیر میں خوب گڑبڑ ہوئی اور رانا سانگا جو بڑا بت پرست تھا اس نے مسلمانوں سے قلعہ چھین کر اس پر اپنا قبضہ جمالیا اور بہت سے مسلمانوں کو شہید کردیا تو اس واقعہ سے سات دن پہلے آپ نے خواجہ معین الدین چشتی کے حکم سے شہر سے باہر نکل کر تمام مسلمانوں کو اس سے آگاہ کردیا تھا اور فرمایا کہ میں اس شہر پر اللہ کے غضب کے آثار دیکھ رہاہوں اور خواجہ معین الدین چشتی کی طرف سے میں اعلان کرتا ہوں کہ تمام مسلمان اس شہر سے باہر چلے جائیں اور خود مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کو پیر کے دن ۹۲۲ھ اجمیر سے باہر لے کر نکل گئے اور پھر دوسرے پیر کے دن کافروں نے اجمیر پر دھاوا بول دیا اور تمام شہر تباہ کردیا۔
آپ اٹھارہ برس کی عمر میں اجمیر آئے اور تقریباً نوّے برس کی عمر تک وہاں رہے اور تین برس تک نارنول میں مقیم رہے۔ نارنول قیام کے زمانے میں آپ کے پاس ایک دن ایک مجذوب آیا اور آکر کہا کہ احمد! آپ کو آسمانوں پر طلب کیا گیا ہے اپنے شیخ کے پاس چلے جاؤ، اور آپ نے خود بھی اسی رات اس قسم کی چیز دیکھی، چنانچہ آپ اسی وقت ناگور چلے گئے اور کچھ دنوں کے بعد اس جہان فانی سے عالمِ پائدار کی طرف رخصت ہوگئے۔
کہتے ہیں کہ عالم نزع میں جب آپ کو ذرا سا فاقہ ہوتا تو ہاتھ اُٹھاتے اور تکبیر تحریمہ کہتے اور پھر بے ہوش ہوجاتے چنانچہ ایک بار اللہ اکبر کہا اور ۲۵؍صفر ۹۲۷ھ کو جان جانِ آفریں کے سپرد کی اور مخدوم بزرگ سلطان التارکین کے روضہ میں اپنے شیخ کے پائیں دفن کردیے گئے آپ کی تاریخ وفات آپ کے ایک مرید مُلا محمد نارنولی نے لکھی ہے جو بہت نیک اور مقبول خاص و عام اور بزرگوں کے عقیدت مند اور اس علاقے کے مورخ تھے۔
نظر بستہ بود احمد مجد شیباں
زدون خدا ہمجو زاہد نہ شاہد
کہ تاریخ آں پیر خود نارنولی
برآورد از جملہ شیخ زاہد
نارنول کا ایک مشہور آدمی جو شاہی خاندان سے تھا آپ کا مرید تھا اور اپنے کمزور بھائیوں پر ظلم کیا کرتا تھا۔ ایک دن یہ آدمی اپنے سر پر پانی سے بھری ہوئی صراحی رکھ کر شیخ احمد کی خانقاہ کی جانب روانہ ہوا۔ تمام شہر میں ایک شور برپا ہوگیا کہ فلاں امیر اپنے سر پر صراحی رکھ کر شیخ احمد کی خانقاہ کی جانب جارہا ہے۔ جب وہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے اُس سے فرمایا کہ بابو تمہارے اس کام سے میں ہرگز خوش نہیں ہوسکتا، جاؤ اپنے بھائیوں کا جھگڑا ختم کرکے پہلے انھیں خوش کرو تو میں بھی تم سے خوش ہو جاؤں گا، چنانچہ اس شخص نے اس کے بعد شاہی دربار میں آمدورفت سے توبہ کرلی اور اچھے مریدوں کی طرح اپنی زندگی گزارنے لگا، نیز شیخ احمد کا یہ معمول تھا کہ نصف شب کو بیدار ہوکر خواجہ معین الدین کے روضہ پر حاضر ہوتے اور وہیں نماز تہجد ادا کرکے بیٹھے رہتے اور چاشت کے وقت تک کسی سے کوئی بات چیت نہ کرتے اور چاشت کی نماز ادا کرنے کے بعد لوگوں کو مذہبی علوم کا درس دیتے، بعد میں معمولی سا قیلولہ کرتے پھر اُٹھ کر ظہر کی نماز پڑھتے بعد میں عصر تک اپنے وظائف وغیرہ پڑھتے رہتے اور عصر کے بعد لوگوں کو تفسیر مدارک پڑھاتے جہاں جہاں عذاب کا تذکرہ آتا وہاں اس طرح گریہ و زاری کرتے جیسے صوفیاء محفل سماع میں کرتے ہیں، بہت رونے کے باعث آپ کی آنکھیں سُرخ رہا کرتی تھیں، تفسیر مدارک پڑھانے کا یہ طریقہ اسی مسلک کے مشائخ کا ایجاد کردہ ہے۔ چنانچہ خواجہ حسین ناگوری اور شیخ حمیدالدین صوفی بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ آپ نے ستر برس تک اجمیر میں اسی طرح زندگی گزاری۔
جب آپ آدھی رات کو خواجہ صاحب کے روضہ پر آتے تو اس کا دروازہ خود بخود کھل جایا کرتا۔ جب یہ بات مشہور ہوگئی تو اس راز کو معلوم کرنے کے لیے ایک آدمی ایک رات آپ کے پیچھے پیچھے چلا، شیخ احمد جب روضہ پر پہنچے تو روضہ کا دروازہ کھُلا اور آپ اندر چلے گئے، یہ شخص بھی اندر داخل ہونے لگا مگر اس کے داخل ہوتے وقت دروازے کے دونوں پٹ اس طرح بند ہوگئے کہ یہ شخص اس کے اندر دب گیا، دبنے کی تکلیف برداشت نہ کرکے اس شخص نے کہا، شیخ احمد مجد! میں ایسا تجسّس کرنے سے توبہ کرتا ہوں چنانچہ دروازہ ڈھیلا پڑگیا اور وہ شخص وہاں سے چلا گیا۔
مولانا محمد نارنولی اپنے استاد مولانا عبدالمقتدر سے جو شریعت کے بڑے زبردست عالِم تھے اور شیخ احمد کے مرید تھے نقل کرتے ہیں کہ ہم نے بھی نارنول میں متعدد لوگوں کے ہمراہ شیخ احمد مجد کے لیے اس طرح دروازہ کھلتا ہوا دیکھا ہے اور یہ روضہ شیخ محمد ترک قبرستان میں واقع ہے۔
اخبار الاخیار