حضرت شیخ احمد بن علی بن حسین رازی المعروف بہ جصاص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
احمد بن علی بن حسین رازی المعروف بہ جصاص: امام زمانہ،مجتہد وقت، علامۂ عصر،حافظ حدیث،صاحب عفت ودیانت و زہد تھے۔۳۰۵ھ کو شہر بغداد میں پیدا ہوئے۔ابو بکر کنیت تھی،فقہ کو ابو سہل زجاج تلمیذ امام کرخی سے اخذ کیا اور حدیث کو ابا حاتم اور عثمان دارمی اور عبد الباقی بن قانع وغیرہ محدثین سے سُنا اور روایت کیا یہاں تک کہ امام ابو حنیفہ کے مذہب کی ریاست آپ پر منتہی ہوئی اور دور دور سے لوگ واسطے استفادہ کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے چنانچہ ابو عبداللہ محمد بن یحییٰ جر جانی شیخ قدوری و ابو الحسن محمد بن احمد زعفرانی وابو الفرح احمد بن عمر المعروف بہ اسلمہ وابو حفص محمد بن احمد نسفی اور ابو الحسن محمد بن محمد کازنی وغیرہ فقہائے بغداد نے آپ سے بڑا فیض حاصل کیا اور بو علی وبو احمد حاکم نے آپ سے حدیث کو سُنا۔قضاء خطاب کےلیےآپ کو کہا گیا تھا مگر آپ نے منظور نہ کیا اور تدریس و تعلیم میں مشغول رہنا پسند کیا۔
کہتے ہیں کہ جب آپ مناظرہ کی مجلس میں داخل ہوتے تھے تو آپ کے نفس کی قوت اور حسن کلام کے سبب سے مخالفین کو بات تک کی جرأت نہ رہتی تھی۔چونکہ آپ چونا بنایا کرتے تھے اور جص چونا کو کہتے میں اس لیے حصاص کے لقب سے مشہور ہوئے۔آپ نے حسب ذیل کتابیں تصنیف کیں جو نہایت مفید و عمدہ ہیں،مختصر کرخی،مختصر طحطاوی،شرح جامع امام محمد،شرح اسماء الحسنیٰ،کتاب احکام القرآن،کتاب ادب القضاء،کتاب اصول فقہ،واقعات فرہ چلپی۔علاوہ ان کے بہت سے مسائل پر جو اپ سے استفسار کیے گئے،آپ نے جوابات لکھے۔بعض علماء نے آپ کو طبقۂ اصحاب تخریج میں شمار کیا ہے لیکن بعض فضلاء کہتے ہیں کہ آپ کو اصحاب تخریج میں شمار کرنا سراسر آپ پر ظلم کرنا ہے اور اس سے با لکل آپ کی کسر شان ہے کیونکہ اگر اپ کی تصانیف اور ترجفی العلوم کا خیال کیا جائے تو شمس الائمہ وغیرہ فقہاء جن کو اصحاب مجتہدین فی المسائل میں شمار کیا گیا ہے،آپ کے آگے بمنزلہ شاگردوں کے ٹھہرتے ہیں پس اس صورت میں آپ کیونکر طبقہ مجتہدین فی المسائل میںنہ شمار کیے جائیں۔وفات آپ کی پینسٹھ سال کی عمر میں یوم شنبہ ۴یا۷ ماہ ذی الحجہ۳۷۰ھ میں بمقام نیشا پور واقع ہوئی۔’’رہنمائے دین‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)