حضرت شیخ احمدکھٹوسرآمداولیائےروزگارتھے۔
خاندانی حالات:
آپ کےآباؤاجداددہلی میں رہتےتھے۔
نام:
آپ کانام شیخ احمدہے۔
تعلیم:
آپ نےدہلی میں تعلیم پائی۔
بچپن کاایک واقعہ:
ایک دن آپ اپنےساتھیوں کےساتھ دہلی میں کھیل رہےتھےآندھی کا ایک طوفان آیا۔اس طوفان نےآپ کوگھیرلیااوروطن سےدورکسی جگہ پھینک دیا۔بہت دنوں تک اِدھراُدھرپھرتے رہے۔کھٹومیں ایک درویش بابااسحاق مغربی رہتےتھے۔ان درویشوں سےآپ کی ملاقات ہوئی۔ ان درویشوں آپ کواپنےپاس رکھا۔آپ نےانہیں کےسائےمیں تربیت پائی۔
بیعت وخلافت:
آپ حضرت بابااسحاق مغربی کےمریداورخلیفہ ہیں۔بابااسحاق مغربی کاسلسلہ حضرت شیخ ابدمدین مغربی تک پہنچتاہے۔
ریاضات وعبادات:
آپ کاجب دہلی میں قیام تھاتوآپ مسجدخان جہاں میں عبادت میں مشغول رہتے۔آپ مجاہدات،
ریاضات اورعبادت میں مشغول رہتے۔روزےرکھتےاورکھل کےٹکڑےسےافطارکرتے۔اپنے پیرومرشدکی وفات کےبعدآپ نےایک چلہ کھینچااورایک کھجورروزکھاتےتھے،اس طرح آپ نےچالیس روزتک چالیس کھجوریں کھائیں۔
زیارت حرمین شریف:
آپ نےحرمین شریف کی زیارت سےمشرف ہوناچاہا،آپ کی خواہش پوری ہوئی،حرمین شریف کی زیارت سےفارغ ہوکرآپ نےدرویشوں کی صحبت سےاستفادہ کیااوران کےروحانی فیوض سے مستفیدومستفیض ہوئے۔
سلاطین سےتعلقات:
سلطان فیروزآپ کامعتقدتھا۔ظفرخاں جوبعدمیں سلطان مظفرکےلقب سےمشہورہوا اورگجرات کا بادشاہ ہوا،وہ بھی آپ کامعتقدتھااورآپ کی بہت تعظیم وتکریم کرتاتھا۔
گجرات میں آمد:
سلطان مظفرکی استدعاپرآپ دہلی سےگجرات تشریف لائے اورسرکھج میں بودوباش اختیارفرمائی۔
وفات:
آپ کامزارسرکھج میں ہے۔
مرید:
محمودبن سعیدایرجی آپ کےممتازمریدوں میں سےہیں۔
سیرت:
آپ کاشمارمشائخ کبارمیں سےہے۔آپ عابد،زاہد،متقی وپرہیزگارتھے۔عبادات،ریاضات و مجاہدات میں زیادہ وقت گزاردیتےتھے۔جوکچھ آتا،وہ سب خرچ کردیتےتھے۔آپ کالنگرعام تھا۔ آپ اپنےآپ کولوگوں سےچھپانے کی کوشش کرتےتھے۔سمرقندکاایک واقعہ ہے کہ آپ ایک مسجد میں گئے،وہاں ایک عالم درس دےرہاتھا۔بہت سےطالب علم درس میں موجودتھے۔آپ نہایت خاموشی سےایک طرف جاکربیٹھ گئے۔آپ کالباس نہایت معمولی تھا۔ایک طالب علم نے جو حسامی پڑھ رہاتھا،غلط اعراب پڑھے۔آپ نےاس طالب علم کوٹوکا،وہ یہ عالم یہ سن کرآپ کی طرف متوجہ ہوا،آپ سےبہت عزت سےپیش آیا،آپ کاامتحان لینےکی غرض سےاس عالم نے آپ سے علم اصولی کےمتعلق چندسوال کئے۔آپ نےہرسوال کاجواب دیا۔اس عالم کوسخت تعجب ہواکہ اتناعلم ہوتےہوئے بھی لباس معمولی پہن رکھاہے،اس سےرہانہ گیا،آخراس نے آپ سے دریافت کیا۔۱؎
"تم نےباوجوداتنےعلم کےایسےحقیرسےکپڑےاورٹوپی پہن رکھی ہے"۔
آپ نےجواب دیا۔
"ایک توعلم،دوسرےاگراچھےکپڑےپہنوں تونفس بدخوئی کرےاس درویش نےخاص کرخود کو اس لباس میں پوشیدہ رکھاہواہے"۔
فرمان:
درویشوں کی مجلس میں آناتوآسان ہے،مگرسلامتی سےباہرجانادشوارہے۔۲؎
کرامات:
تیمورکےحملےکےوقت آپ دہلی میں تھے۔حملےسےپندرہ روزقبل آپ نےلوگوں کوآگاہ کردیاتھا اورآپ کےبعض مریدآپ کےحکم سےکانپورچلےگئے۔
آپ خوددہلی میں رہےتیمورکےلشکرنےآپ کوگرفتارکیا۔جب تیمورکوآپ کی بزرگی و عظمت کاعلم ہوا،اس نےآپ کورہاکیااورآپ سےمعذرت کاخواہاں ہوا۔جب لشکرنےآپ کوگرفتارکیا،آپ کے ساتھ قیدوبندمیں سب چالیس آدمی تھے،جب آپ قیدمیں رہے،غیب سےچالیس روٹیاں آتی
رہیں اورآپ کواورآپ کےمعتقدین کواس طرح کھانےکی کوئی تکلیف نہ ہوئی۔
حواشی
۱؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۳۳۲
۲؎غفتُہ المجالس
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)