حضرت شیخ احمد کھتو
حضرت شیخ احمد کھتو (تذکرہ / سوانح)
آپ علاقہ گجرات کے بزرگوں میں سے بڑے بزرگ تھے۔ احمد آباد کے مضافات میں ایک قصبہ سرکچ میں آپ کا مزار ہے۔ آپ کا مقبرہ نہایت ہی پاکیزہ، منزہ اور ہوادار ہے کہ اس کی مثال دنیا میں شاید ہی کہیں ہو۔ کھتو ایک گاؤں کا نام ہے جو اجمیر کے قریب ہے، شیخ احمد کے آباؤاجداد دہلی کے باشندے تھے اور آپ کا بھی بچپن دہلی میں گزرا تھا۔
مشہور ہے کہ آپ ایک بار ایک گاؤں میں بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ سخت طوفان و آندھی آئی جو آپ کو وہاں سے اڑا کر کسی اور جگہ لے گئی اور آپ اپنے وطن سے دور مسافروں کی طرح بے یار و مددگار ہوگئے۔اس زمانے میں آپ کسمپرسی کی حالت میں اِدھر اُدھر گھوم کر وقت گزارا کرتے تھے۔ ایک دن بابا اسحاق مغربی کے ہاتھ لگ گئے جو اس وقت کے بڑے کامل درویش تھے وہ آپ کو اپنی قیام گاہ علاقہ کھتو میں جو اجمیر کے قریب ایک گاؤں ہے اپنے ہمراہ لے آئے چنانچہ شیخ احمد نے بابا اسحاق مغربی کے سایہ عاطفت میں پرورش پائی اور ان کی مہربانیوں اور عنایتوں سے اس طرح مالا مال ہوئے کہ انہوں نے آپ کو کامل ولی اللہ بنادیا۔ بعد میں خلافت و اجازت بھی عنایت فرمادی۔ آپ کا سلسلہ شیخ ابومدین مغربی سے جا کر ملتا ہے چونکہ آپ نے زندگی کی بڑی طویل بہاریں حاصل کی تھیں اس لیے آپ کے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان مشائخ کا واسطہ بہت کم ہے۔ یعنی صرف پانچ بزرگوں کے واسطہ سے آپ کا سلسلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک مل جاتا ہے۔ آپ کے تمام بزرگوں کی عمریں ڈیڑھ سو برس سے زائد تھیں۔ آپ نے ابتداً دہلی میں تعلیم حاصل کی اور تحصیل علم کے بعد مسجد خان جہان میں بے انتہا ریاضت کی۔ اس زمانے میں آپ کی کیفیت یہ تھی کہ دن بھر روزہ افطار فرماتے بس یہی آپ کی غذا تھی۔ پر جب چلہ کشی کرنے لگے تو چالیس روز میں صرف ایک کھجور کھایا کرتے تھے۔ آپ نے دنیا کو اس طرح ترک کیا کہ عمر بھر شادی نہیں کی۔ اس زمانہ میں آپ عالمِ بالا اور عالم فرشتگان کی سیر فرمایا کرتے تھے۔ آپ حرمین شریفین کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے تھے۔ آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے (کوئی نامعلوم) بشارت بھی دی تھی اور متعدد بزرگوں کی صحبت سے فیضاب ہوئے تھے۔ ظفر خاں جو فیروز شاہ کی حکومت کی طرف سے نہروالہ کا حاکم تھا اور بعد میں سلطان مظفر کے لقب سے مشہور ہوا وہ جب گجرات کا بادشاہ ہوا تو ان قدیم تعلقات کی بناء پر جبکہ شیخ احمد دہلی میں مقیم تھے اور باہمی شناسائی تھی اس سلطان مظفر نے شیخ احمد کو مجبور کیا کہ آپ گجرات تشریف لائیں اور یہیں مستقل سکونت اختیار فرمائیں۔ چنانچہ آپ تشریف لے آئے اور سرکچ میں رہنے گئے۔ وہاں کے لوگوں نے آپ کی ظاہری اور باطنی برکتوں سے استفادہ کیا۔ آپ لوگوں کی حتی المقدور امداد فرماتے، آپ کے اخلاق عالیہ کی وجہ سے تمام لوگ آپ سے محبت کرنے لگے۔ آپ کی زندگی میں ہر آنے والے فقیر کے لیے آپ کا دسترخوان وسیع تھا۔ اس لیے آپ کے انتقال کے بعد بھی اس طریقے کو جاری رکھا گیا۔ جس سے فقیر، امیر غریب اور بادشاہ سب ہی سیراب ہوتے ہیں۔
آپ کے ایک مرید بنام محمود بن سعید ایرجی نے آپ کے حالات و اقوال کو جمع کرکے اس کا نام ’’تحفۃ المجالس‘‘ رکھا ہے اس کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دن میں شیخ احمد کھتو کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ بہت بڑا تاجر تقریباً تیس سیر مصری اور مشک کا ایک نافہ ہمارے پاس اس زمانے میں لایا جب کہ ہم مسجد خان جہاں میں تھے۔ میں نے اس پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟اور ہمیں کب سے جانتے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ میں شیخ نور کا مرید ہوں جو پندروہ میں رہتے ہیں اور اب وہیں سے آرہا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس پہلے میں متعدد مرتبہ دہلی سے مال وغیرہ خریدتا رہا ہوں۔ اس دفعہ جب دہلی سے مال خرید کر واپس پندوہ گیا تو اپنے پیر نور صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تم نے دہلی میں کون کون سے بزرگوں کی زیارت کی؟ میں نے جن جن بزرگوں سے ملاقات کی تھی سب کے نام بتادئیے۔ تو شیخ نے فرمایا کہ کیا کھتو سے بھی ملے؟ (چونکہ میں آپ سے ملا نہ تھا) اس لیے خاموش رہا۔ مُرشِد نے فرمایا کہ جب آپ شیخ کھتو سے نہیں ملتے تو آپ کا دہلی جانا بالکل بیکار ہے۔ اس کے بعد میں پریشانی کی حالت میں وہاں سے روانہ ہوا اور مُرشِد کے حکم کے مطابق آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اس تاجر کے پیر شیخ نور سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی نہ انہوں نے کبھی مجھے دیکھا اور نہ میں نے انہیں، لیکن انہوں نے اپنے کشف و کرامت سے جو اللہ کی ایک خاص نعمت ہے مجھے خود ہی پہچان لیا۔ اسی مقام پر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ سلطان فیروز کو بھی شیخ سے بہت عقیدت و ارادت تھی، امیر تیمور کے دہلی آنے سے پندرہ دن قبل شیخ نے اپنے کچھ مریدوں اور ارادت مندوں اور خودسلطان فیروز کو اس کے دہلی پر قابض ہونے کی خبر دیدی تھی، چنانچہ سلطان فیروز شیخ کی پیش گوئی کی وجہ سے دہلی چھوڑ کر جونپور چلا گیا تھا (شیخ کو بھی سلطان نے ساتھ چلنے کو کہا) مگر آپ نے فرمایا کہ ہم کو تو دہلی والوں ہی کے ساتھ رہنا ہے۔ بالاخر شیخ اور آپ کے کچھ ساتھی مغلیہ فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے، آپ کی کرامات کی جب امیر تیمور کو اطلاع ہوئی تو اس نے تمام لوگوں کو جو شیخ کے ہمراہ گرفتار ہوئے تھے بڑی عزت و ادب سے رہا کردیا۔ شیخ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے ساتھ چالیس فقیر جیل میں بند تھے۔ غیب سے روزانہ اللہ تعالیٰ ہمارے پاس چالیس گرم گرم روٹیاں بھیج دیا کرتا تھا۔ اس کے بعد شیخ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ رہائی کے بعد ہم حج کے لیے روانہ ہوئے ہمارا بحری بیڑا جا رہا تھا میں وضو کے لیے باہر نکلا اتفاق سے میرا پاؤں پھسل گیا اور میں سمندر میں گرگیا۔ ابھی تھوڑی ہی دور تیرتا ہوا گیا تھا کہ مجھے اپنے پاؤں کے نیچےپتھر محسوس ہوا چنانچہ میں اس پر کھڑا ہوگیا پانی میری کمر تک تھا اور میں یا حافظ یا حفیظ یا رقیب یا وکیل یا اللہ اسم اعظم پڑھ رہا تھا۔ اس کے بعد کپتان وغیرہ نے مجھے مچھلی کی طرح اوپر اٹھالیا اور میں خانہ کعبہ پہنچ گیا۔ چنانچہ حج کیا اور مدینہ منورہ کی زیارت سے مشرف ہوا۔
آپ کے ساتھ مسجد خان جہاں کے امام اور شیخ تاج الدین سرکھچی اور ایک دوسرا آدمی بھی تھا۔ ب یہ تمام لوگ مسجد میں ٹھہرے تو تمام ساتھیوں نے کہا کہ کھانے کا انتظام کرنا چاہئے۔ شیخ نے فرمایا کہ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہوں اس لیے مجھے کھانے کا انتظام کرنے کی ضرورت نہیں تم اپنے لیے مختار ہو۔ چنانچہ وہ لوگ بازار گئے اور کھانا کھا کر واپس آگئے۔ ہم سب نے عشاء کی نماز یک جا پڑھی وہ لوگ نماز پڑھنے کے بعد سو گئے اور میں ہاتھ صاف کر کے تسبیح پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔ اچانک کسی آواز دینے والے نے آواز دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان کون ہے؟ میں سمجھا کہ شاید کسی دوسرے شخص کو آواز دی جارہی ہے اس لیے خاموش رہا، دوسری مرتبہ جب اسی طرح آواز آئی تو میں سمجھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان تو میں ہی ہوں چنانچہ میں اپنی جگہ سے کھڑا ہو کر آواز دینے والے کے پاس گیا وہ اپنے ہاتھ میں ایک طشت لیے کھڑا تھا اس نے مجھے دیکھ کر کہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے میں نے اپنا دامن پھیلایا، اس نے طشت کی کھجوریں میرے دام میں انڈیل دیں، اور طشت خالی کر کے واپس چلا گیا (میں نے جب ان کھجوروں کو کھایا تو وہ ایسی میٹھی تھیں کہ ان کی لذت و مٹھاس کو الفاظ کے ذریعہ بیان ہی نہیں کیا جاسکتا اس کے بعد میں بھی سو گیا، صبح کے قریب جو خواب میں نے دیکھا وہی خواب میرے دوسرے تین دوستوں نے بھی دیکھا، وہ خواب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہوادار اور روشن مقام میں تشریف فرما ہیں، اور صحابۂ کرام آپ کے اِرد گرد کھڑے ہوئے ہیں اور ایک عورت مزین لباس پہنے ہوئے عطر میں بسی اور زیورات میں لدی ہوئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے موجود ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اسے قبول کرلو، میں نے عرض کیا کہ میرے والد نے اسے قبول نہیں کیا (لہذا میں بھی اسے قبول نہیں کرتا) آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشارہ کیا کہ تمہارے والد تو یہ ہیں) میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ منہ میں انگلی ڈالے کھڑے ہوئے تھے مجھ سے فرمایا کہ بابا احمد اسے قبول کرلو، چنانچہ میں نے اس عورت کو قبول کرلیا، اس کے بعد فوراً میرے دل میں خیال آیا کہ یہ عورت دراصل دنیا ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اب مجھ پر دنیا کے دروازے کھول دئیے ہیں۔
عمامہ باندھ کر نیکی کی دعوت دو:
مدینہ منورہ سے واپسی کے وقت میں اپنے تینوں دوستوں کے ہمراہ روضۂ اقدس پر آخری سلام کے لیے حاضر ہوا، روضہ مبارک کے خادِم روضہ سے دس گز کے فاصلے سے اپنے ہاتھوں میں سیاہ دستانے پہنے ہوئے کھڑے تھے۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ یہ دستار لو اور اسے سر پر باندھ لو، میں نے ان سے عرض کیا کہ میرے مَرشِد چونکہ ٹوپی ہی پہنا کرتے تھے اس لیے میں یہ دستار نہیں باندھونگا انہوں نے کہا کہ رات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا تھا کہ یہ دستار فلاں شخص کو دے کر ساتھ ہی میرا پیغام دینا کہ اس کو باندھنے کا میں حکم دیتا ہوں، اس کو سر پر باندھ لو اور اسلام کی دعوت و تبلیغ میں لگ جاؤ چنانچہ میں نے وہ عطیہ قبول کیا، چوما اور سر پر باندھ لیا۔ ایک مرتبہ پھر ملاقات ہوئی تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو مسجد خان جہاں میں رہ کر پہلے سے زیادہ مجاہدہ و ریاضت کا حکم دیا اور شیخ سید جلال الدین بخاری کو بھی غیب سے اِشارہ ہوا کہ ایک صالح نوجوان ہے جو مسجد خان جہاں میں ریاضت میں لگا ہوا ہے اس سے ملاقات کرو چنانچہ سید میری ملاقات کے لیے مسجد میں تشریف لائے جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو ان کے ایک اِرادتمند نے مجھے اطلاع دی کہ سید صاحب تشریف لارہے ہیں چنانچہ میں فوراً کھڑا ہوگیا اور آپ کی پالکی کی طرف جس میں کہ آپ آرہے تھے ملاقات کے لیے آگے بڑھا، سید صاحب کو بھی میری آمد کی کسی اطلاع دے دی وہ اطلاع ملتے ہی اپنی پالکی سے اترے اور میری جانب بڑھ کر مجھے اپنے سینہ سے لگالیا اور کافی دیر تک لگائے رکھا پھر میرے کان پر اپنا منہ رکھ کر تین بار یہ فرمایا، اے جوان! دوست کی خوشبو آرہی ہے، اس کے بعد اللہ حافظ فرماتے ہوئے کہنے لگے کہ اچھے وقت میں مجھے یاد رکھنا بھول نہ جانا اور پھر اپنی پالکی میں بیٹھ کر واپس چلے گئے اور میں بھی اپنی جگہ واپس آکر عبادت میں مشغول ہوگیا۔
آپ فرماتے ہیں کہ میں ننگے پاؤں بلایاروزاد سامان سفر کیا کرتا تھا اور ہر شہر اور بستی میں پہنچ کر رات مسجد میں گزارا کرتا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے احتلام سے بھی محفوظ رکھا، میں ہمیشہ عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتا رہا، سفر میں بھی روزے رکھتا اور اتنی ریاضت کرتا کہ بیان نہیں کیا جاسکتا اگرچہ سفر میں مشقتیں اور تکلیفیں بے شمار ہوتی ہیں لیکن مرا دل ہمیشہ مسرور رہتا تھا، میں برہنہ پا اور پیادہ اس لیے سفر کرتا تھا کہ حدیث شریف میں آتا ہے۔
تم ننگے پاؤں اور ننگے بدن سفر کرو، عنقریب اللہ کو ظاہر باہر دیکھ لو گے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن ایک فقیہ ہمارے پاس آیا اور بابو جیو اس کو روزانہ چار روپے دیا کرتے تھے، میں نے بابو جیو سے عرض کی کہ بابو جیو! یہ فقیر کثرت سے بھنگ پینے کا عادی مجرم معلوم ہوتا ہے، اگر آپ نے اس کو روپے دئیے تو ابھی بازار سے بھنگ خرید کر پی لے گا، بابو جیو نے فرمایا کہ ہم سے ہمارے فعل کی باز پرس ہوگی اور اس سے اس کے فعل کی، یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ میں بارہ سال کا تھا اس وقت سے لے کر آج تک میں بابو جیو کی بات پر عمل پیرا ہوں۔
آپ فرماتے ہیں کہ ایک روز بابو جیو نے مجھ سے فرمایا کہ بابا احمد تم بہت سخی ہو، بھائی جان کبھی کبھی ہاتھ اونچا کیا کرو (یعنی کبھی کبھی لوگوں کو دیا کرو)
میں نے کہا، کہ بابو جیو! آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میرا ہاتھ ہمیشہ اونچا ہی رکھے اور کبھی نیچا نہ ہونے پائے، چنانچہ بابو جیو نے فرمایا کہ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ بابا احمد کا ہاتھ ہمیشہ اونچا ہی رہے اور مخلوق خدا ن سے لیتی رہے اس کے بعد یہ شعر پڑھا۔
ہمت بلند دار کہ دادار کرو گار
برہمت بلند کند فضل خود نثار
پھر یہ حدیث شریف پڑھی۔ اے آدم کی اولاد خرچ کر خرچ کر۔ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی۔
وما تقدموا لانفسکم من خیر تجدوہ عنداللہ خیراً اعظم اجراً
ترجمہ: جو بہتر چیز تم اپنی جان کے لیے آگئے بھیجتے ہو اسے اللہ کے ہاں بہترین اور عمدہ بدلہ پاؤ گے۔
ایک دن آپ نے فرمایا کہ فقیروں کی محفل میں آنا تو آسان ہے لیکن واپس جانا بڑا مشکل ہے، میں (محمود بن سعید ایرجی مرتب ملفوظات) نے عرض کیا کہ آقائی سیدالسادات سید بہاؤالدین جو میری والدہ کے جد امجد تھے وہ فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے پاس آنے والوں کو درویش نہ سمجھو، اگر تم میں ہمت ہے تو ان کی آنکھ، کان، زَبان پر قبضہ کرکے ان کے قلوب کو حاضر کردو، میں نے اتنی بات عرض کی تھی کہ شیخ نے فرمایا کہ میں سمرقند کی ایک مسجد میں اس وقت پہنچا جبکہ وہاں ایک اہل علم آدمی تعلیم دے رہا تھا اور تعلیم حاصل کرنے والے اس کے اردگرد بیٹھے پڑھ رہے تھے، میں درویش والی ٹوپی اور فقیرانہ لباس پہنے ہوئے ان پڑھنے والوں سے ذرا فاصلے پر بیٹھ گیا، ایک طالب علم حسامی کا تکرار کر رہا تھا مگر اس کی عبارت غلط پڑھ رہا تھا میں نے دور سے بیٹھے ہوئے کہا کہ اعراب درست پڑھو۔ میری یہ بات سننے کے بعد وہ استاد جو سبق پڑھا رہا تھا اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے پاس آیا اور مجھے اٹھا کر وہاں لے گیا جہاں وہ پہلے سبق پڑھا رہا تھا۔ پھر اس نے مجھ سے علم اصول کے چند مسائل پوچھے۔ میں نےان کا تسلی بخش جواب دیا۔ تب اس عالِم نے کہا کہ آپ نے اس علم کے ساتھ یہ ٹوپی اور پھٹے پرانے کپڑے کیوں پہن رکھے ہیں۔ میں نے کہا کہ علم کے ساتھ اگر اچھے کپڑے پہنوں تو نفس بدخوئی اور شرارت کرے گا اس لیے میں نے اپنے کو اس لباس میں چھپا رکھا ہے۔
تحفۃالمجالس کے مولٔف لکھتے ہیں کہ ایک رات شیخ احمد نے مولانا محمد قاسم سے کہا کہ تم فلاں گاؤں چلے جاؤ، قصہ یہ تھا کہ مولانا نماز تراویح میں تمام قرآن سُن چکے تھے اور صرف سورہ سبح اسم ربک کے بعد والا حصہ رہتا تھا، ان کے دل میں خیال آیا کہ آج رات قرآن سن کر صبح سویرے فلاں کام کے لیے فلاں جگہ روانہ ہوجاؤں گا۔ (شیخ احمد کو اللہ عزَوّجَل نے کشف کے ذریعہ ان کے اِرادے اور آئندہ ان کے قرآن کی تکمیل کی خبر دیدی تھی اس لیے فرمایا) کہ مولانا آپ ابھی فلاں گاؤں چلے جائیں مگر مولانا اس خیال سے خاموش کھڑے رہے کہ اگر نفی میں جواب دیتا ہوں تو شیخ ناراض ہوجائیں گے اور اگر چلا جاتا ہوں تو قرآن کریم پورا نہ سن سکوں گا، چنانچہ شیخ نے پھر حکم دیا کہ آپ فلاں گاؤں ابھی چلے جائیں۔ شیخ کے اس حکم پر مولانا سلام کرکے اس گاؤں کی جانب روانہ ہوگئے۔ (جہاں ان کو جانا تھا، اس گاؤں کا نام قصبہ دولقہ تھا) چنانچہ مولانا قصبہ دولقہ میں پہنچے تو اس وقت عشاء کی نماز کا وقت ہوچکا تھا اس لیے وضو کرکے فوراً مسجد میں چلے گئے۔ امام کے ساتھ عشاء کے فرض پڑھے پھر سنتیں پڑھیں۔ اس کے بعد نماز تراویح کھڑی ہوگئی تو امام نے سورہ سبح اسم ربک ہی سے نماز تراویح پڑھانا شروع کی۔ مولانا محمد قاسم نے سبح اسم ربک سے پہلے پورا قرآن شریف تراویح میں سن ہی لیا تھا اب اس امام کے پیچھے اسی ترتیب سے شروع ہوگیا (اور مولانا کی ترتیب میں کوئی خلل نہ آیا)پھر مولانا اپنے کام سے فارغ ہوکر اس گاؤں سے واپس تشریف لائے اور شیخ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے کہ حضرت معاف فرمانا میں نے آپ کے حکم کی تعمیل میں ذرا تامل اس لیے کیا تھا کہ مجھے اس بات کا خطرہ تھا کہ کہیں تمام قرآن سننے کی سعادت سے محروم نہ رہ جاؤں اس لیے کہ سبح اسم ربک کے بعد والا حصہ ابھی تک باقی تھا۔ خیال تھا کہ آج رات اس حصہ کو سن کر صبح سویرے روانہ ہوجاؤں گا۔ شیخ احمد نے فرمایا کہ مولانا تمہارے کسی دنیاوی کام کی وجہ سے شیخ دینی کام میں نقصان واقع نہیں ہونے دے گا۔ درویشوں کو (اللہ تعالیٰ بسا اوقات) کام انجام سے پہلے ہی واقف کردیا ہے۔ چونکہ دولقہ کا امام مسجد قرآن کریم کو سبح اسم ربک سے پڑھنے والا تھا اس لیے ہم نے آپ کو حکم دیا تھا کہ تم فوراً دولقہ چلے جاؤ (دنیاوی کام بھی ہوجائے گا اور دینی کام میں بھی کوئی فرق نہ آئے گا) آئندہ اس بات کا اہتمام کرنا کہ درویش جو بات کہے اس کی تعمیل میں تامل نہ کرنا۔
سلطان احمد گجراتی نے شہر احمد آباد کی بنیاد رکھی تھی اس کے زمانہ سلطنت میں شیخ احمد کھتو کی بزرگی کا آفتاب اپنی پوری جلانیوں اور درخشانیوں سے لوگوں کو منور کر رہا تھا۔
گجرات کی حکومت کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ سلطان محمد بن سلطان فیروز دہلوی نے یہ سنا کہ گجرات کے اندر کافروں نے فتنہ و فساد کا بازار خوب گرم کر رکھا ہے اور گجرات کا وہ حصہ جو دریا کی سَمت ہے وہاں ایک قطعہ ہے جس کو وہ لوگ دیوپٹن کہتے ہیں، وہاں انہوں نے ایک تبخانہ بنا رکھا ہے جسے وہ لوگ سومنات کہتے ہیں اور اس علاقہ کا سابق گورنر نظام مفرح بھی حکومت کی بغاوت پر کمر بستہ ہوچکا ہے اور کتھایت کے علاقہ میں آزادی سے سلطنت کر رہا ہے اور سب سے زیادہ افسوس ناک یہ بات تھی کہ وہ بھی مسلمانوں کو بہت ستا رہا تھا اور ان کے اموال، دولت سامان تجارت جبراً چھین رہا تھا۔
سلطان فیروز کو جب دہلی میں یہ اطلاع ملی تو اس نے فوراً ہی اپنے ایک امیر فوجی افسر ظفر خاں کو گجرات کی جانب روانہ کردیا تاکہ شریر اور بعدمعاش لوگوں کے شر کو فرو کردیں، ظفر خاں وہ شخص تھا جس نے گجرات اور اس کے اردگرد کے متعدد علاقوں کو فتح کیا تھا، اس نے بادشاہ کے حکم میں ذرا تامل نہ کیا اور فوراً تعمیل کے لیے تیار ہوگیا۔(وہاں پہنچ کر ان کو خوب کامیابی ہوئی) تو تھوڑے دنوں بعد ظفر خاں کے بیٹے نے اپنا لقب محمد شاہ رکھا اور ۸۰۶ھ میں گجرات کے بادشاہ ہونے کا اعلان کردیا، ابھی اس کی سلطنت کے کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس نے دہلی پر حملہ کرنے کی تیاریاں کردیں لیکن اللہ کی قدرت سے اسی دن مرگیا، محمد شاہ کی وفات کے دن ۸۰۶ھ میں ظفر خاں پھر گجرات آیا اور اپنی بادشاہت کا اعلان کرکے اپنا لقب مظفر شاہ رکھا، چنانچہ انہوں نے گجرات میں تین سال آٹھ مہینے سلطنت کی، اس کے بعد اس کا پوتا سلطان احمد بادشاہ ہوا، اسی نے شہر احمدآباد کی بنیاد رکھی تھی، اس نے بتیس برس چھ ماہ حکومت کی، اس کے بعد اس کی اولاد میں سے لوگ بادشاہ بنتے رہے جن کے اب نام محفوظ نہیں ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
۸۱۰ھ میں شہر احمدآباد بسا اور اس کی بنیاد رکھی گئی اور ۸۱۲ھ میں جامع مسجد کی بنیاد رکھی گئی جس کے عدد ’’خیر و بخیر‘‘ کے لفظ سے نکلتے ہیں۔
اخبار الاخیار