حضرت شیخ علی بن حسام الدین
حضرت شیخ علی بن حسام الدین (تذکرہ / سوانح)
آپ کے والد ماجد کانام عبدالملک ابن قاضی خاں المتقی القادری الشاذلی المدنی چشتی ہے، آپ کے آباء واجداد جونپور سے آکر برہان پور میں مقیم ہوگئے، آپ کی ولادت باسعادت برہان پور ہی میں ہوئی ہے، آپ کے والد نے آپ کو آٹھ سال کی عمر میں شاہ باجن چشتی کے پاس لے جاکر مرید کرادیا جو اس زمانہ میں برہان پورمیں مقیم تھے اور اس واقعہ کے چند دن بعد آپ کے والد نے وفات پائی، والد بزرگوار کے انتقال کے بعد آپ بلحاظ طبیعت انسانی کچھ عرصہ لذات حسیہ میں مشغول رہے اور نوجوانی کے زمانے ہی میں بمقام مندو ایک بادشاہ کی ملازمت کی اور دنیاوی دولت جمع کی، اسی اثناء میں اللہ کی عنایت اور ہدایت کے جذبے نے اپنی طرف مائل کیا چنانچہ دنیاوی مال و زر اور اس کی بے ثباتی دیکھ کر شیخ عبدالحکیم ابن شاہ باجن کی خدمت میں پہنچے جن سے مشائخ چشت کی خلافت کا خرقہ حاصل کیا اور چونکہ آپ کی فطرت میں تقویٰ و پرہیزگاری کا غلبہ تھا اس لیے ملتان پہنچ کر شیخ حسام الدین متقی کی خدمت کرنے لگے اور ان کی صحبت بابرکت کی بدولت سلوک و طریقت تقویٰ و پرہیزگاری کی نعمتوں سے مالا مال ہوئے نیز انہی کی صحبت میں رہتے ہوئے دوسال کی مدت میں تفسیر بیضاوی اور عین العلم کا مطالعہ کیا اور تقویٰ و توکل کو اپنا سفر خرچ بنا کر حرمین شریفین کی طرف روانہ ہوئے مکہ معظّمہ پہنچ کر شیخ الحدیث شیخ ابوالحسن بکری جوکہ اپنے وقت کے مانے ہوئے ولی اللہ تھے کی خدمت میں رہ کر حاضری کا شرف حاصل کیا اور انہی کے شاگرد ہوئے۔ اور یہ وہ بزرگ ہیں جن سے مشائخ زماں استفادہ کرتے تھے، نیز آپ نے دوسرے مشائخ کی خدمات بھی کیں چنانچہ شیخ محمد بن محمد بن محمد سخاوی کی خدمت میں رہ کر سلسلہ عالیہ قادریہ کا خرقہ حاصل کیا اور قطب زماں شیخ نورالدین ابوالحسن علی الحسن شاذلی سے سلسلہ شاذلیہ کا اور شیخ ابومدین شعیب مغربی سے سلسلہ مدینہ کا خرقہ حاصل کیا پھر وہیں مکہ مکرمہ میں مقیم ہوگئے اور تمام دنیا کو اپنے انوار اطاعت و مجاہدات اور علمی و عملی فیوضات سے مستفیض کیا، نیز علم تصوف و حدیث میں آپ نے بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ آپ کی خدمات تصنیف و تالیف دیکھ کر عقل حیران ہوتی ہے اور یقین کہتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی توفیق و برکت ہے جو وہ اس بلند درجہ پر غیب استقامت کے ساتھ متمکن ہوئے۔
آپ نے شیخ جلال الدین سیوطی کی کتاب جمع الجوامع کی احادیث کو حروف تہجی کے تحت جمع کرکے تمام اقوال و افعال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مسائل فقہیہ کے طریقہ پر باب وار لکھا ہے، ان کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کتنا کام کیا ہے اور کس خوبی سے انجام دیا ہے، نیز آپ نے ان کتب میں سے احادیث مکرر کو چھانٹ کر اس کا انتخاب علیحدہ مرتب کیا۔
کہتے ہیں کہ شیخ ابوالحسن بکری فرماتے تھے کہ علامہ جلال الدین سیوطی نے عالم پر احسان کیا ہے، آپ نے دیگر کتابیں بھی تصنیف کی ہیں جو سالکان طریقت اور طالبان آخرت کے لیے سرمایہ وقت اور مددگار حال ہیں، آپ کی بڑی اور چھوٹی فارسی اور عربی کی کُل کتابیں سو سے زائد ہیں، آپ کی پہلی مصنفہ کتاب تبیین الطریق ہے جس کی تالیف کے وقت آپ کو غیب سے الہام ہوتا تھا، آپ کی ایک کتاب حکم کبیر ہے جو بے حد مفید اور علمِ تصوف کا خلاصہ ہے، آپ اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے کہ اس کتاب کی عظمت کا یہ حال ہے کہ تصوف کا جو مشکل مسئلہ چاہو اس کا جواب اس کتاب میں دیکھ لو اور تصوف کا جو مسئلہ لوگ دریافت کریں اس کا جواب اس میں دیکھ کر دے دو۔
آپ اپنی زندگی کے آخری ایام تک کتب احادیث کی تصحیح میں مشغول رہتے تھے حتیٰ کہ باتقضاء بشریت ہل جل نہیں سکتے تھے، لیکن تاہم اپنا کام نہیں چھوڑتے تھے کہتے ہیں کہ آپ استنباط و دقائق اور فہم معانی میں ایسے ماہر تھے کہ اس وقت مکہ معظمہ کے بڑے بڑے علماء کے لیے بجز اس کے کہ آپ کی تعریف و تحسین کریں کوئی راستہ نہیں تھا۔
شیخ ابن حجر جو اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم اور فقہیہ تھے وہ پہلے شیخ علی کے استاد بھی تھے لیکن اگر ان کو کسی حدیث کے معنی میں اشکال ہوتا تو آپ سے کسی شخص کے ذریعہ سے دریافت کیا کرتے تھے کہ اس حدیث کو جمع الجوامع کے کس باب میں آپ نے مدون کیا ہے پھر بذریعہ قیاس اس حدیث کا مفہوم معلوم کرلیتے تھے۔
شیخ ابن حجر نے اپنے کو بہت مرتبہ شیخ علی کا شاگرد حقیقی کہا ہے اور آخر میں آپ کے مرید ہوگئے یہاں تک کہ آپ سے خرقہ حاصل کرلیا، غرضیکہ مکہ معظمہ کے دیگر تمام مشائخ کرام اور علماء بھی آپ کے کمالات اور ولایت کے معترف تھے اور آپ کی تکریم و تعظیم میں متفق تھے، چنانچہ آج تک وہاں کے خاص و عام لوگ آپ کو اس طرح یاد کرتے ہیں جس طرح دیگر مشائخ سلف کو یاد کرتے ہیں۔
علمائے ظاہر کو تالیف و تصنیف کتب اور نشرو اشاعت علوم کی جو توفیق و برکت حاصل ہوتی ہے اس کے قطع نظر شیخ علی کے ریاض مجاہدے، کرامتیں خوش اخلاقی عمدہ اوصاف، مزین افعال عمدہ حالات، آداب ظاہری و باطنی، تقویٰ پرہیز گاری وغیرہ جو کچھ بیان کی جاتی ہے وہ آپ کے کمالات باطنی اور حالات حقیقی کی اول دلیل ہے شیخ علی نے اپنے انتقال کے دن شیوخ کی صحبت کے حالات اپنے ایک خط میں تحریر کئے تھے جو یہ ہیں۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد والہ اصحابہ اجمعین بعد حمد و صلوۃ کے یہ فقیر اللہ کی علی بن حسام الدین عرف متقی اس دن جبکہ دنیا سے رخصت ہوکر آخرت کی طرف جارہا ہے عرض گزار ہے کہ میرے والد بزرگوار نے مجھے بچپن کے زمانے میں شیخ باجن کا مرید بنایا، شیخ باجن قوالیاں سنتے اور وجد و حال میں رہتے تھے میں نے اپنے پیر و مرشد کو اختیار کیا بمقابلے اس قول کے کہ ’’جب بچہ بالغ ہوجاتا ہے تو اس کو اختیار ہے کہ اپنے سابق پیر کو برقرار رکھے یا نہ رکھے، چنانچہ پیرومرشد اور والد ماجد کی وفات کے بعد شیخ عبدالحکیم بن شیخ باجن رحمۃ اللہ علیہ سے خرقہ چشت حاصل کرکے بعد میں ایک ایسے مرشد کی تلاش میں رہا جو مجھے حق کا راستہ دکھائے جس کا کہ میں طلب گار ہوں چنانچہ ملتان پہنچ کر شیخ حسام الدین متقی کی خدمت میں حاضری دی، پھر بعد میں حرمین شریفین پہنچ کر شیخ ابوالحسن بکری کی خدمت میں حاضری دے کر ان کی صحبت سے سرفراز ہوا اور شیخ محمد سخاوی سے سلسلہ قادریہ، شاذلیہ، مدنیہ کے خرقے حاصل کئے، نیز سنا گیا ہے کہ آپ نے بوقت وفات ایک رقعہ کسی مخلص کو دیا کہ اس کو بعد میں پڑھنا، چنانچہ آپ کے انتقال کے بعد جب اس خط کو پڑھا گیا تو اس میں یہ مضمون تھا، بھائیو! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے، میرے پاس امانت الٰہی تھی، میں نے وہ الہ اور قابل لوگوں کے حوالہ کردی ہے سمجھا جس نے سمجھا۔ فقط والسلام
شیخ علی کے شاگرد خاص اور خلیفہ اور آپ کے کمالات و آثار کے سب سے بڑی نشانی عارف باللہ شیخ کامل عبدالوہاب بن ولی اللہ المحب حنفی متقی قادری جو مرکز دائرہ استقامت، قطب فلک ولایت اور مشائخین و فقراء کے نزدیک متفقہ طور پر یمن سے شام تک علاقہ کے زبر دست ولی ہیں، اللہ ان کے علوم سے ہم سب کو مستفید کرے، جن کا تذکرہ شیخ علی کے حالات کے بعد ہی قلم بند کیا گیا ہے غرضیکہ ان کی زَبانی شیخ علی کے حالات لکھے جارہے ہیں۔
شیخ عبدالوہاب کا بیان ہے کہ شیخ علی جب ملتان میں شیخ حسام الدین کے پاس رہتے تھے اس وقت بھی خلوت گزیں تھے، شیخ حسام الدین کی یہ حالت تھی کہ اپنے سر پر کتابیں اُٹھاتے ہوئے آپ کے کمرے کے دروازہ پر آکر اس طرح اجازت لیتے تھے، حسام الدین حاضر ہے، کیا فرمان ہے، ایک دو دفعہ کہنے کے بعد شیخ علی اگر اپنے کمرے کا دروازہ کھول دیتے تھے تو شیخ حسام الدین اس وقت تک تفسیر بیضاوی پڑھتے پڑھاتے جب تک شیخ علی کے پاس وقت کی گنجائش ہوتی اور اگر شیخ علی اپنے کمرے کا دروازہ نہ کھولتے تو شیخ حسام الدین واپس چلے جاتے تھے، اس کے بعد شیخ علی نے ملتان کے آس پاس ان مقامات کا سفر کرنا شروع کیا، جن میں نیک لوگ سکونت پذیر تھے اورجہاں آپ باآسانی عبادت کرسکتے تھے وہاں چند روز ٹھہرتے تھے۔
آپ حالت سفر میں دو تھیلے اپنے پاس رکھتے تھے، ایک میں کھانے پینے کا سامان ہوتا جیسے چاول، آٹا، دال، گھی، تیل، نمک وغیرہ کھانے پکانے کے برتن اور جنگل سے اپنے ہاتھوں کاٹی ہوئی لکڑیاں بقدر ضرورت رکھا کرتے تھے، دو دن کے سامان کو چار دن تک استعمال کرتے، کبھی مسجد میں نہ ٹھہرتے بلکہ کرایہ کے مکان میں ٹھہراکرتے تھے چقماق جلا کر آگ سلگاتے تھے اور ایک لوٹا جس میں ایک مشک پانی آتا تھا جو کھانے پکانے، وضو اور بشرط ضرورت غسل کے لیے کافی ہوتا اپنی پیٹھ پر لادے رکھتے تھے آپ کا قاعدہ تھا کہ پاک پانی سے پہلے برتن دھوتے پھر خود ہی کھانا پکاتے تھے، آپ نے کسی آدمی سے اپنی کوئی خدمت نہیں لی، آپ نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کریں گے نیز اپنے کام میں کسی دوسرے کی مدد نہیں لیں گے، اگر مجبوراً آپ کو شدید ضرورت کام لینے کی پڑجاتی تو کام کرنے والے کے ہاتھ میں پہلے رقم رکھتے اور بعد کو اس سے کام لیتےغرضیکہ ایک تھیلے میں خورد نوش کا سامان اور دوسرے میں چند کتابیں رکھتے جو راستہ میں ضروری ہوتی تھیں، غرضیکہ اس صفائی خوش اسلوبی اور سامان کے ساتھ سیرو سیاحت کیا کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ رہنے یا آپ کی خدمت کرنے کی خواہش کرتا تو آپ اس کی یہ بات قبول نہ کرتے۔
شیخ علی گجرات اس زمانے میں گئے جبکہ وہاں سلطان بہادر کی حکومت تھی وہ آپ کے اوصاف و کمال سن کر آپ کا معتقد ہوگیا اس نے آپ کو گراں قدر انعامات اور کچھ جاگیر دینا چاہی لیکن آپ نے سلطان کی پیشکش قبول نہیں کی، اس زمانے میں آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ جدھر جاتے لوگ آپ کے پیچھے آتے اور پروانہ کی طرح اکٹھا ہوجاتے آپ اپنے کمرے کا دروازہ بند رکھتے اور کسی کو اپنے ساتھ نہ بٹھاتے، عالم متقی اور صالح قاضی عبداللہ سندھی جبکہ وہ بغرض روانگی حج اپنے اہل و عیال اور دوسرے اکثر لوگوں کے ساتھ تھوڑے دن کے لیے گجرات میں ٹھہرے ہوئے تھے نیزشیخ علی سے ان کو بھی محبت و الفت اور پکا اعتقاد ہوگیا تھا انہوں نے شیخ علی سے عرض کیا کہ اگر ایک مرتبہ سلطان بہادر کی التماس قبول فرمالیں تو اچھا ہو اگر مرضی نہ ہو تو اس سے گفتگو نہ فرمائیے گا ہم لوگ اس وقت حاضر رہیں گے اور اس کو اپنی باتوں میں لگائے رکھیں گے اس طرح اس کی آرزو پوری ہوجائے گی اس پر آپ نے جواب دیا کہ بادشاہ کے لباس اور وضع قطع سے غیر اسلامی چیزیں جھلکتی ہیں یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں اسے دیکھنے کے بعد امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہ کروں، جس پر ان لوگوں نے عرض کیا ہم خادم حسب موقع جو مناسب سمجھیں گے کہیں گے اور کریں گے، لیکن بادشاہ کی خواہش یہ ہے کہ ایک مرتبہ خدمت عالی میں حاضری دیں، غرضیکہ سلطان نے حاضری دی اور شیخ کے معتقدین نے اسے نصیحتیں کیں، اس ملاقات کے دوسرے دن سلطان نے ایک کروڑ روپیہ گجراتی بطور تحفہ شیخ کی خدمت میں روانہ کیے جو آپ نے سب کے سب قاضی عبداللہ کو دیتے ہوئے فرمایا کہ چونکہ بادشاہ کی ملاقات کے تم ذریعہ تھے اس لیے یہ ساری رقم تمہاری ہے، اس کے بعد فرمایا کہ طالبوں اور مریدوں کی تربیت و ارشاد ہمارے پیرومرشد اس طرح کیا کرتے کہ اس کی ظاہری حالت کو برقرار رکھتے ہوئے خود ان کے باطن کی تربیت میں لگ جاتے اور اپنی توجہ اور ہمت کے ذریعہ ان طالب علموں اور مریدوں اور طالبوں کو آپ کے عمل کےمطلق اطلاع نہ ہونے پاتی۔
اس خادِم (شیخ عبدالوہاب) کی خود یہ حالت ہے کہ ایک عرصہ کے بعد پیرومرشد شیخ علی کی بدیہی حسی تعلیم کا مجھے علم ہوا کہ اس ذریعہ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ میں نے جب آپ کی خدمت میں حاضری دی تھی تو دو سال تک مجھے بالکل یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آپ کس شخص کی جانب متوجہ ہیں اور کس کو کس ذکر وظیفہ اور مجاہدہ وغیرہ کی تعلیم و تلقین فرمارہے ہیں، ہاں البتہ اکثر اوقات ہم لوگوں کو اپنی تالیفات و تصنیفات کی کتابت اور مقابلہ و صحت کا حکم دیا کرتے تھے آپ کا کمال یہ تھا کہ ہر کام کرنے والے کو محسوس ہوتا کہ آپ خود اس کے پاس ہیں اور اس سے کام کرارہے ہیں غرضیکہ دو سال بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں جہاں تھا اس سے بہت بلند ہوکر اس مقام پر پہنچ گیا ہوں جس کا درجہ خواب و خیال میں بھی محسوس نہیں ہوسکتا تھا۔
پیرومرشد شیخ علی فرمایاکرتے تھے کہ طالب علموں کی تربیت میں مشائخ کرام دو طریقے استعمال کرتے تھے، ایک یہ کہ مرید میں جو خرابیاں ہیں پہلے ان کو انہی کے ذریعہ سے دور کراتے تھے بعد میں خود تصرف کرتے یہ طریقہ مریدوں کے لیے زیادہ مشکل ہے۔
مشائخ کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مرید کو اس کی حالت پر چھوڑا کر خود اس کی اصلاح میں مشغول ہوجائے اور آہستہ آہستہ اس میں نورانیت پیدا کرنے کی کوشش کرے جو اس کو مطلوب تک پہنچاتی ہے اور یہ طریقہ مرید پر زیادہ آسان ہے۔
پیرومرشد شیخ علی اکثر اوقات اشاعت و افادیت علوم اورطالبان علم کی امداد میں مصروف رہتے، کتابوں اور سامان کتابت کی فراہمی میں پوری کوشش کرتے، روشنائی خود بناتے اور ہم لکھنے والوں کو یہی سیاہی استعمال کراتے، عربستان کے علاقہ میں جو کتابیں مفید و کم یاب تھیں اُن کی نقلیں کرا کے ان شہروں میں روانہ کرتے جہاں وہ کتابیں نہ تھیں اور جن کی وہاں کے باشندوں کو سخت ضرورت تھی۔
پیرومرشد کی مجلس میں اگر دوسرے لوگ مباحثہ وغیرہ کرتے تو آپ اس بحث میں حصہ لینے کے بجائے خاموش، رہا کرتے البتہ خاص مسائل کے تصفیہ میں بقدر ضرورت کچھ ارشاد فرمادیتے، آپ کی مجلس میں اگر کوئی شخص ایسی بات کرتا جس کی نفی و اثبات کی کوئی دلیل نہ ہوتی تو آپ سنتے رہتے اور کچھ نہ کہتے، آپ کتب تصوف کے حقائق و اَسرار کو اس طرح حل کرتے جیسا کہ دوسرے مشائخ کا طریقہ تھا، کھانا اتنا تناول فرماتے کہ جس سے زندہ رہ کر عبادت کرسکیں۔
پیرومرشد کا دستور تھا کہ آپ اپنے لیے جو شوربا پکواتے اس میں سے تھوڑا سا چکھ لیتے باقی سب کا سب اپنے دسترخوان والوں کو دے دیا کرتے۔
پیرومرشد کے ایک نوکر کا نام کمال تھا جو بڑا بد اخلاق اور بے ڈھنگا تھا، وہ ہمیشہ بکواس کیا کرتا اور جو چاہتا کرتا، اس کے باوجود آپ اس کو عزیز رکھتے اور اس کی بد اخلاقی کو برداشت کرتے رہتے تھے، ایک دن وہ آپ کے لیے شوربا پکا کر لایا اس میں بے انتہا نمک تھا، آپ نے حسب معمول وہ شوربا چکھا اور یہ کہنے کے بجائے کہ تم نے ایسا خراب اور اتنا نمک کیوں بھر دیا ہے، اس سے صرف اتنا کہا بابا کہاں! ادھر آؤ، پھر اس کو اپنے پاس بٹھاکر شوربے کا ایک چمچہ بھر کر دیا اور فرمایا یہ لو یہ کھاؤ اور دیکھو کیسا پکا ہے کمال نے وہ شوربا چکھ کر جو نمک کے زیادہ ہونے سے کڑوا ہوگیا تھا منہ بناتے ہوئے سخت لہجہ میں کہا، ہاں! کچھ نمکین ہوگیا ہے لیکن بڑے مزے کا ہے، اس میں کوئی خرابی نہیں، آپ کھائیے، جس پر آپ نے فرمایا بہت خوب، پھر آپ نے پانی منگوا کر اس میں ڈالا اور وہی تھوڑا سا نوش فرمایا۔ پیرومرشد کے بڑھاپے کے زمانے میں اس فقیر نے ایک مرتبہ عرض کیا پیرومرشد! آپ اس ضعیفی میں کتنے نفل پڑھتے ہیں؟
جواب دیا جوانی میں تو بہت زیادہ نفل پڑھاکرتا تھا اب دن کے وقت ذکر خفی و شغل الٰہی کے ساتھ تصنیف کتب میں مشغول رہتا ہوں اور رات کو جبکہ بڑھاپے کی وجہ سے زیادتی پیشاب کی شکایت ہوگئی ہے دس بارہ مرتبہ پیشاب کرنے اٹھتا ہوں اور ہر مرتبہ وضو کرکے حسبِ توفیق دو دو چار چار نفل ادا کرتا ہوں آپ فرماتے تھے کہ میں اپنی جوانی میں کتابت کی اجرت پر زندگی بسر کرتا تھا اس میں سے بیوہ عورتوں کی مدد کیا کرتا اور باقی اپنی ضرورت پر خرچ کرتا تھا، اور کہیں سے جو کچھ رقم آجاتی وہ اللہ کو قرض دے دیتا، کیونکہ اللہ کو قرض دینے سے بڑی وسعت اور خوش حالی پیدا ہوتی ہے، اور جب کوئی ایسی رقم آپ کے پاس آتی جس کے حلال ہونے کا آپ کو پکا یقین ہوتا تو اس میں سے تھوڑی سی خود بھی خرچ کرلیا کرتے آخر زمانے میں بزرگوں کے عرس میں کھانا کھلانے کے بجائے غریبوں اور محتاجوں کو نقد رقم دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجلس طعام اورلوگوں کا اجتماع تکلیف و پریشانی سے خالی نہیں ہے۔
ایک مرتبہ پیرومرشد کے علاقہ کے کسی وزیر نے آپ کو دعوت دی اور عرض کیا پیرومرشد غریب خانہ پر تشریف لاکر خادِم کو سربلند و بابرکت فرمائیں تو پیرومرشد نے جواب دیا، اپنے درِ دولت پر آنے سے مجھے معذور رکھیے، فقیر یہیں سے دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو برکتیں عنایت کرے، لیکن جب اس وزیر نے بہت اصرار کیا تو فرمایا احقر تین شرطوں کے ساتھ حاضر ہوسکتا ہے۔
پہلی شرط یہ کہ جہاں چاہوں گا بیٹھوں گا، آپ کو یہ حق نہیں ہوگا کہ مجھے اوپر نیچے بٹھانے کی کوشش کریں۔
دوسری شرط یہ ہے کہ یہ کھائیے اور یہ کھائیے پر اصرار نہ کیجیے گا میں جو چاہوں گا کھالوں گا۔
تیسری شرط یہ ہے کہ جب چاہوں گا آپ کی مجلس سے اُٹھ کھڑا ہوں گا، آپ اصرار نہ کریں گے کہ چند لمحے اور ٹھہرئیے، غرضیکہ اس وزیر نے آپ کی تینوں شرطیں منظور کیں، تو آپ نے فرمایا ان شاء اللہ کل آئیں گے چنانچہ دوسرے دن روٹی کے چند ٹکڑے اس تھیلی میں ڈالے جو ہمیشہ اپنی گردن میں لٹکائے رکھتے تھے اور تن تنہا اس وزیر کے محل میں گئے اور دروازے کے قریب بیٹھ گئے حالانکہ وزیر نے شاہانہ طریقہ پر فرش فروش بچھائے تھے اور شاہی نشست کی طرح انتظام کیا تھا، وزیر نے کہا پیرومرشد آپ یہاں نہ بیٹھے اوپر تشریف رکھئے، پیرومرشد نے جواب دیا کہ شرط یہ ہوئی ہے کہ جہاں جی چاہے گا بیٹھیں گے، چنانچہ وزیر شرط یاد کرکے خاموش ہوگیا، اس کے بعد طرح طرح کے کھانے چنے گئے اور عرض کیا گیا پیرومرشد! بسم اللہ فرمائیے تو آپ اپنی تھیلی میں سے چند ٹکڑے نکال کر کھانے لگے، وزیر نے بہت خوشامدکی مگر آپ نے اس کے دسترخوان کی کوئی چیز نہ چکھی اور فرمایا شرط یہ تھی کہ جو کچھ اچھا معلوم ہوگا وہ ہم کھائیں گے، اس کے بعد آپ اُٹھ کھڑے ہوئے اور خدا حافظ کہتے ہوئے فرمایا شرط یہی تھی کہ جب چاہیں گے واپس لوٹیں گے چنانچہ السلام علیکم کہ کر اس کے محل سے چلے آئے۔
شیخ عبدالوہاب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جبکہ پیرومرشد مکہ معظمہ میں سکونت پذیر تھے دو باپ بیٹے مغرب سے مکہ مکرمہ میں وارد ہوئے جو نہایت درجہ کے عبادت گزار تھے، بیٹا دس یا پندرہ دن کے بعد اور باپ چار پانچ دن کے بعد کھانا کھایا کرتے تھے، پیرومرشد ان دونوں کی تعریف سن کر ان سے ملنے کے لیے تیار ہوئے لیکن کمزوری کی وجہ سے پیدل نہ چل سکتے تھے، چنانچہ آپ کے کہنے پر ایک تندرست، اور قوی ہیکل آدمی آپ کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے ان دونوں مغربی بزرگوں کے پاس لے گیا، پیرومرشد کتاب حکم کبیر اور اس خادِم کو اپنے ساتھ لیتے گئے، جب ان دونوں مغربی بزرگوں کو معلوم ہوا کہ شہر کے مشہور اور معزز آدمی ملاقات کرنے آرہے ہیں جن کی وجہ سے ہماری شہرت ہوجائے گی اور ہماری عبادت میں خلل پیدا ہوگا تو ان دونوں نے ہمارے آمد پر بے التفاتی کا سلوک کیا چنانچہ پیرومرشد نے مجھ خادِم (عبدالوہاب) سے کہا دیکھو یہ دونوں کتنی بے رخی سے پیش آرہے ہیں اور اپنے سر کا بوجھ سمجھ کر ہم کواپنے پاس سے نکالنا چاہتے ہیں اس کے بعد پیرومرشد نے ان دونوں بزرگوں کی جانب متوجہ ہوکر فرمایا، ہم نے مشائخین کے چند اقوال جمع کئے ہیں وہ سنئے، چنانچہ پیرومرشد میری جانب متوجہ ہوئے، میں نے چنداقوال سنائے تھے کہ ان دونوں مغربی بزرگوں میں گرمی کے آثار پیدا ہوئے اور ان پر ذوق و وجد کی حالت طاری ہوگئی اس کے بعد ہمیشہ کے لیے یہ بزرگ شیخ کی خدمت میں رہے، آخر کار دونوں نے پیرومرشد سے بیعت کی، اللہ ان پر اور تمام صالحین پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
پیرومرشد متوکل تھے جن کو حصول رزق کے اسباب بغیر کسی واسطہ کے حاصل ہوتے تھے، اکثر مقصد براری کے پیش نظر دیکھا گیا کہ پانی کنویں کہ تہہ میں ہے اور پیا سے ہرن اس کی جانب حسرت سے دیکھ رہے ہیں کہ یکایک وہ تہ نشین پانی چڑھ کر کنویں کے منہ پر سے بہنے لگا جس سے ہرن وغیرہ خوب اچھی طرح پی کر لوٹ گئے اور وہ بہتا ہوا پانی ہم لوگوں نے بھی پیا ہے۔
شیخ عبدالوہاب کہتے ہیں کہ پیرومرشد ارشاد فرماتے تھے کہ حلال مال کبھی برباد نہیں اور اگر گم ہوجائے تو پھر مل جاتا ہے، اپنا ایک واقعہ مثال کے طور پر ذکر کرتے تھے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سمندر میں کشتی پر سوار تھے کہ اچانک ایک سخت طوفان آیا جس کی وجہ سے ہماری کشتی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی، ہم میں سے کئی اشخاص ایک ایک تختہ کے سہارے ساحل پر پہنچے، ہمارے ساتھ جوکتابیں تھیں، بالکل بھیگ گئی تھیں اور چونکہ ہم پیدل سفر کرنے والے تھے اس لیے ہم نے ان کتابوں کو وہیں سرزمین عرب میں دفن کرکے ان پر ایک علامت، کھدی اور ہم لوگ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں ہم کو سخت پیاس لگی جیسا کہ مشہور ہے کہ سرزمین عرب میں پانی کا قحط ہے اب وہ منظر ہمارے سامنے آگیا ساتھیوں نے کہا کہ اب دعا کا وقت ہے میں نے کہا میں دعا کرتا ہوں آپ لوگ آمین کہیں چنانچہ دعا کی برکت سے اتنی بارش ہوئی کہ ہم لوگ خوب سیراب ہوئے اور اپنے اپنے مشکیزے بھرلیے، چند دنوں کے بعد معظمہ پہنچ گئے، خانہ کعبہ کا طواف و عمرہ کیا اور صفاومروہ کے درمیان سعی کی، اسی اثناء میں چند دیہاتی عربوں نے ہمارے پاس آکر کہا ’’ہمارے پاس چند کتابیں ہیں اگر چاہیں تو قیمتاً لے سکتے ہیں چنانچہ ہم نے دیکھا کہ وہ ہماری ہی کتابیں تھیں جو ہم دفن کرکے آئے تھے، غرضیکہ ہم نے منہ مانگے دام دے کر وہ کتابیں خرید لیں، بھیگ کر سوکھنے کی وجہ سے ان کتابوں کے اوراق باہم چپک گئے تھے ہم نے ان کو پھر بھگو کر ایک ایک ورق اس طرح الگ کیا کہ ان میں کا کوئی حرف تک ضائع نہیں ہوا اور پھر وہ سب قابل استفادہ ہوگئیں۔
شیخ حاجی نظر بد خشانی جو اپنے زمانے کے کامل بزرگ تھے جنہوں نے ماوراء النہر شام اور مصر کے علماء سے تحصیل علوم کے بعد وہاں کے مشائخین سے ریاضت و مجاہدہ کی تلقین حاصل کی تھی اور حج کے بعد مکہ معظمہ میں بڑے بڑے کام کرنے کے بعد ایک بڑی بزرگ شخصیت کے مالک تھے ظاہر و باطن میں نفس کی تکمیل کرچکے تھے اہل اللہ کہلاتے تھے مجھ فقیر عبدالوہاب کی بھی ان سے ملاقات ہوئی اور میرے خیال میں وہ ولی اللہ تھے یہ بھی میرے پیرومرشد شیخ علی کی محبت و اعتقاد میں غرق اکثر و بیشتر آپ کے پاس خاص طور سے آیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ پیرومرشد کا ایک خصوصی آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آج شیخ جوان نظر آرہے ہیں اور عجیب و غریب کیفیت طاری ہے آپ کو بلارہے ہیں تعمیل حکم کے پیش نظر احقر حاضر خدمت ہوا، دیکھا کہ شیخ اپنی قدیم ہیت میں ہیں لیکن سکر و بے خودی کے کچھ آثار موجود ہیں مجھے دیکھ کر فرمایا مرحبا خوش رہو اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ آج ہم پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی کچھ چیزیں خلاف عادت ظاہر ہوئیں تاکہ حاضرین کو زیادہ یقین ہوجائے اور تم کو بھی اس حالت کا مشاہدہ کرانا تھا، اس کے بعد ارشاد فرمایا، عبدالوہاب! تمہارا شمار اہل یقین میں سے ہے تم کو کسی خرق عادت کام دکھانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد اسی حالت میں واپس لوٹ آیا۔
سلطان محمود گجراتی اکثروبیشتر حضرت شیخ کی خدمت میں حاضری دیا کرتا تھا لیکن چونکہ غیر مسنون لباس پہنا کرتا تھا اس لیے پیرومرشد شیخ علی اس کی طرف نظر اُٹھا کر نہ دیکھتے اور اس کی جانب متوجہ نہ ہوتے، ایک دن جبکہ وہ صالحین جیسا لباس زیب تن کرکے آیا تو آپ نے اس کی جانب رضا مندی سے دیکھا جس پر سلطان محمود گجراتی نے التماس کی کہ آج پیرومرشد غریب خانہ پر رونق افزا ہوں تاکہ ہم سب لوگ آپ کی روش کی مطابق عمل پیرا ہوسکیں۔
کہتے ہیں کہ سلطان محمود گجراتی کو پانی کے سلسلہ میں بہت وسوسہ آتا تھا اور کسی طرح بھی یہ کیفیت رذیلہ اس کے دل سے نہ نکلتی تھی، چنانچہ حضرت شیخ نے ایک طشت منگواکر اس میں تین مرتبہ پانی ٹوپی دھوئی اور ہر دفعہ پانی پھینک دیا، چوتھی مرتبہ اس طشت میں اپنی بھر کر فرمایا کہ بابا محمود! یہ پانی بلحاظ شریعت اسلامی بالکل پاک و صاف ہے اس میں کسی قسم کا شک و شبہ کرنا وسوسہ ہے اور وسوسہ شیطانی کام ہے، اب یہ پانی پی لو اور کوئی وسوسہ و شک دل میں نہ لاؤ، چنانچہ پیرومرشد کے حکم پر سلطان محمود گجراتی نے وہ پانی پی لیا جس کےپیتے ہی سلطان کے دل سے وسوسہ اور شک بالکل دور ہوگیا اور پھر کبھی اس مرض میں مبتلا نہیں ہوا۔
شیخ عبدالوہاب متقی نے شیخ علی کے مختصر حالات پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام اتحاف النقی فی فضل شیخ علی متقی رکھا ہے، اس کتاب میں لکھا ہے کہ آقائی پیرومرشد شیخ علی نے 975ھ میں وفات پائی، اس سے ایک سال پہلے یعنی 974ھ میں مکہ معظمہ میں آپ کے انتقال کی خبر پھیلی تو مکہ معظمہ کے تمام بڑے بڑے عالم فاضل، پرہیز گار و شیخ جُوق در جُوق آپ کے مکان پر آئے لیکن یہاں آکر دیکھا تو آپ بڑے خوش و خرم اور تندرست ہیں بڑے حیران ہوئے، حضرت شیخ نے تبسم فرماتے ہوئے سب سے تکرار توبہ کا حکم فرمایا اور شفاعت کرنے کا وعدہ فرمایا، اس کے بعد فرمایا کہ ہمارے جیسے ایک شخص پر موت طاری ہوئی اور بعدالموت کے حالات دیکھ کر اس نے دربار الٰہی میں عرض کیا مجھے دوبار دنیا میں بھیج دیجئے چنانچہ اللہ نے اس کو دنیا میں لوٹا دیا، اب امید ہے کہ وہ کبھی موت کے خوف سے غفلت نہیں کرے گا، جس طرح یہ فقیر اپنی موت سے غافل نہیں ہے، حضرت شیخ مرض موت میں ارشاد فرماتے تھے کہ میں قطب ہوں اور سکرات موت کی شدتیں مقام قطبیت کے لیے ضروری ہیں اور یہ رفع درجات کا ایک ذریعہ ہیں تم مجھ پر سکرات کے شدائد دیکھ کر اپنے اعتقاد میں کمی نہ کرنا، اس کے بعد اس فقیر سے فرمایا کہ میرے دفن کرنے کے بعد میری روح ایک مقام پر پہنچ جائے گی اور میری صورت مفقود ہوجائے گی لیکن مایوس نہ ہونا اور میری صورت کا تصور پیش نظر رکھنا اور میری قبر کے پاس دعا و ذکر اور تلاوت قرآن کریم جاری رکھنا تاکہ ایک خاص نسبت وہاں سے حاصل کر سکو اس کے بعد تم جہاں جی چاہئے چلے جانا اور خوش و خرم رہنا۔
شیخ کی وفات سے دو ماہ قبل جنات کے دوگروہ آپ کے پاس آمدورفت کرنے لگے، ایک گروہ بطریق اعتقاد و محبت، ارادت و الفت آپ کی خدمت میں حاضری دیتا اور دینی فوائد حاصل کرتا، نیز تجدید توجہ، اخوت اور رشد وہدایت حاصل کرتا، اور آپ کی پابوسی کرتا، اور دوسرا گروہ ان جنات کا تھا جو آپ سے بغض و عداوت رکھتے اور آپ کا انکار کرتے تھے اور کبھی عیسائیوں فاسقوں اور بدکار لوگوں کی صورتوں میں آتے اور گفتگو نہیں کرتے بلکہ پیرومرشد ان کے نام خط لکھ کر ان کو دیدیا کرتے تھے، ان خطوط میں سے دو خط مجھ فقیر (عبدالوہاب) کے پاس موجود ہیں۔
پہلا خط: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ حمدو ثنا کے بعد منجاب کمترین خلق خدا علی بن حسام الدین متقی بنام بزرگ جن کے سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی، تم عرصہ سے ہمارے پاس آرہے ہو لیکن کچھ گفتگو نہیں کرتے تاکہ معلوم ہوجائے کہ تمہارا مقصد کیا ہے، میرے ساتھیوں میں سے ایک شخص عبدالوہاب ہے اگرچاہو تو اس کے پاس جاکر اپنا مطلب بیان کرو تاکہ ہم تمہاری امداد کرسکیں، اے اللہ ہم پر حق واضح کر اور حق کی پیروی کی قوت دے اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا اور اس سے محفوظ ہونے کی قوت عطا فرما، یہ خط تمہاری جماعت کے اراکین کے نام ہے۔
دوسرا خط: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے انسانوں اور جنات کو صرف اپنی عبادت یعنی اپنے عرفان کے لیے پیدا کیا ہے، اللہ آپ پر رحمتیں نازل کرے، اس بات کو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے عرفان کے لیے پیدا فرمایا ہے اور تمام علماء و عقلاء اور عارفوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معرف الٰہی صرف علم و عقل اور حکمت کے ذریعہ سے حاصل ہوسکتی ہے، جوکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں سے سلسلہ گفتگو بند کرلیتا ہے یا عقل کے ذریعہ نیکی و بدی، شرارت و نفع کا علم نہیں رکھتا تو اس کو اللہ کے عرفان کی دولت نہیں ملتی اس لیے لوگوں سے میل جول میں اپنی گفتگو کے ذریعہ بھی اللہ کی معرفت کے طریقے حاصل کرو اور ہادی و رہنما شخصیتوں کی فہرست میں اپنے نام درج کراؤ، مجھ پر اللہ کا جو حق تھا وہ میں نے تم تک پہنچادیا اور میں اپنے فریضہ سے سبکدوش ہوگیا، میری اس نصیحت پر جس کا جی چاہے عمل کرے، واضح رہے کہ شیخ علی پر وفات سے پہلے ایک جذبہ طاری ہوگیا تھا ان کے تمام حرکات و سکنات میں ایک انقلاب رونما تھا، انہوں نے اپنی وفات سے تقریباً تین چار ماہ قبل ماہ صرف 975ھ کی ایک رات مجھ فقیر سے فرمایا کہ فلانے شاعر کا شعر پڑھو میں نے اپنی فراست کے ذریعہ یہ شعر پڑھا۔
ہرگز نیاید درنظر نقشے ز رویت خوبتر
شمسے ندانم یا قمر حورے ندانم یا پری
یہ شعر سنتے ہی ان کی کچھ عجیب حالت ہوگئی اور باآواز بلند فرمایا پڑھے جاؤ، پڑھے جاؤ چنانچہ خادم نے یہ شعر کئی مرتبہ دہرایا، اس اثناء میں انہوں نے بہت سی محبت آمیز باتیں کہیں اور شور انگیز نعرے لگاتے رہے اسی حالت میں ان کا ملازم آیا اور کہا کھانا حاضر ہے، آپ کا دستور تھا کہ آپ کے کھانے کو اتنا باریک کوٹا جاتا کہ اس کے سب ذرے ایک ذات ہوجاتے اور یہ پہچاننا مشکل ہوجاتا کہ اس غذا میں کون کون سی چیزیں موجود ہیں، چنانچہ آپ نے ملازم سے کہا اس کو پیس کر اتنا باریک کردو کہ اس کی تمام چیزیں ایک ذات ہوجائیں اور اس میں دوئی نہ رہے، جیسا کہ اس دوہرے میں ہے۔
سن سہیلی پرم کی مامتا
یوں مل رہئے جوں دودھ بناتا
غرضیکہ آپ پر ساری رات عجیب حالت طاری تھی، ہم بھی آپ کے ساتھ ساری رات جاگتے رہے اور آپ رات بھر محبت انگیز کلمات کہتے رہے جوکچھ ذکر کیا گیا ہے مذکورہ رسالہ سے نقل کیا گیا ہے۔
نیز مجھ فقیر حقیر (شیخ عبدالحق محدث دہلوی) سے شیخ علی کے یہی مرید شیخ عبدالوہاب کہتے تھے کہ اسی زمانہ قبل ازمرگ میں پیرو مرشد شیخ علی ذکر جہر کثرت سے کرتے تھے اور شیخ کی حالت جسمانی یہ تھی کہ نشت و برخاست اور ہلنے جلنے کی سکت نہ رکھتے تھے، ذکر کے وقت حضرت شیخ کی حالت یہ ہوجاتی کہ گویا کسی چیز کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کبھی اس کو بھگاتے بھی تھے، اسی حالت میں فرمایا کہ معلا میں قبر بنوالینا چاہئے تاکہ رخصت ہونے پہلے منزل مقرر ہو جائے، اس کے بعد فرمایا بس اللہ ہی جانتا ہے کہ کب تک زندہ رہیں گے اورکب دنیا سے رخصت ہوں گے، یہ قبرستان عام مسلمانوں کا ہے مرنے سے پہلے لوگوں پر جگہ تنگ مناسب نہیں ہے، انتقال کے بعد لوگ جہاں چاہیں دفن کردیں، نیز شیخ ان دنوں مقام قطبیت کے خاص لباس میں آراستہ تھے، وفات سے قبل حضرت شیخ نے فرمایا تھا کہ جب تک میری، انگُشتِ شہادت متحرک رہے اس وقت تک یقین رکھنا کہ میں زندہ ہوں اور جس وقت میری انگُشتِ شہادت حرکت نہ کرے بلکہ بے حس و حرکت ہوجائے تو سمجھ لینا کہ میری موت واقع ہوچکی ہے، چنانچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ کے انتقال کے بعد جبکہ آپ کے جسم میں کسی قسم کی گرمی تک باقی نہ رہی تھی، آپ کی انگُشتِ شہادت برابر حرکت کر رہی تھی۔
پیرومرشد شیخ علی نے صبح سویرے 2؍جمادی الثانی 975ھ میں اس طرح وصال کیا کہ آپ کا سرمبارک مجھ فقیر (عبدالوہاب) کے زانو پر تھا اور آپ کے لبوں پر ذکرِ الٰہی جاری تھا۔
آپ کی تایخ وفات قضی نحبہ ہے بعض لوگوں نے شیخ مکہ اور متابعت نبی بھی نکالی ہے، آپ 885ھ میں پیدا ہوئے تھے، پیرومرشد شیخ علی کی ایک کرامت یہ ہے، کہ آپ کی وفات کے بارہ چودہ سال بعد آپ کے بھتیجے کے ایک بیٹے سیدی احمد کا انتقال ہوا چنانچہ مکہ معظمہ کے رسم و رواج کے مطابق لوگوں نے کہاں کہ سیدی احمد کو کسی ولی مشہور بزرگ کی قبر میں پہلے اس طرح رکھا جائے جس طرح امام عبداللہ یافعی کو حضرت فضیل بن عیاض کی قبر میں رکھا گیا تھا، چنانچہ ان کی میّت کو شیخ علی کی قبر میں رکھنے کی تجویز منظور کی گئی، جب شیخ علی کی قبر کھودی گئی تو دیکھا کہ آپ کا جسم آپ کے کفن میں جوں کا توں اپنی اصلی خشک حالت میں موجود ہے حالانکہ مکہ معظمہ کی زمین کی یہ حالت ہے کہ تین چار ماہ کی قلیل مدت میں میت بالکل مٹی ہوجاتی ہے اور اس کے جسم کا کوئی اثر نظر نہیں آتا ہے۔
سرکارِ مدینہﷺ کی سنت پہ جو چلتے ہیں
اللہ کہ وہ بندے زندہ ہیں مزاروں میں
میں مصنف کتاب اپنے قیام مکہ کے زمانے میں ہمیشہ شیخ عبدالوہاب سے ملتا رہتا تھا اور ان کے ساتھ شیخ علی کے مزار پر جایا کرتا تھا، ایک روز میں تنہا شیخ علی کے مزار پر گیا اور اپنی حالت ان سے بیان کرکے بشارت کا طلب گار ہوا، چنانچہ ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ حضرت شیخ مقام حنفی میں ایک تخت پر بیٹھے ہیں، اور میں ان کے سامنے کھڑا ہوا کہہ رہا ہوں کہ میں آپ کے خلیفہ شیخ عبدالوہاب سے ملتا جلتا ہوں آپ براہ کرم ان سے سفارش کر دیجیے کہ وہ میری جانب متوجہ ہوکر مجھ پر زیادہ سے زیادہ مہربانیاں کریں (اور یہی جملے میں نے آپ کے مزار پر کہے تھے) چنانچہ شیخ علی نے فرمایا، ان شاء اللہ آپ کا مطلب پورا ہوجائے گا، آپ مطمئن رہیں، والسلام
ممالک مغربیہ کے مشہور شیخ شیخ احمد بر رزق کی کتاب اصول طریقت کی شیخ علی نے تشریح کی ہے اور ان کے پورے متن کو اپنی کتاب میں لکھا ہے چنانچہ اس عبارت کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
شیخ احمد بر رزق نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے اصول طریقت پانچ ہیں، پوشیدہ و علانیہ اللہ کا خوف و تقویٰ، متام اقوال و افعال میں سُنت نبوی کی پیروی ذات و اقبال مندی دونوں حالتوں میں مخلوق الٰہی سے علیحدہ رہنا، کثرت وقلب اور افلاس و دولت مندی کے زمانے میں راضی برضاء الٰہی رہنا، علانیہ اور خفیہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں رجوع رہنا، اس کی تشریح یہ ہے کہ رجوع و استقامت کی بدولت تقویٰ حاصل ہوتا ہے، خوش اخلاقی اور تحفظ کی وجہ سے سُنت نبوی کی پیروی نصیب ہوتی ہے۔ توکل و صبر کی بدولت خلوت نصیب ہوتی ہے، قناعت اور اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کردینے کے بعد راضی برضاء الٰہی کی دولت ہاتھ آتی ہے، تکالیف میں اللہ کے حضور التجا میں اور خوشیوں میں اللہ کے شکر و حمد کی وجہ سے رجوع الی اللہ ہونا حاصل ہوتا ہے اور یہ سب پانچ اصول ہیں، یعنی بُلند ہمتی، حرمات الٰہی کی حفاظت، حسن خدمت، پکا اِرادہ اور نعمتوں کی عظمت، کیونکہ بلند ہمتی کی وجہ سے مرتبے بلند ہوتے ہیں اور جو احکام الٰہی کی حرکت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرتا ہے اور جوکوئی حسن خدمت سے کام لیتا ہے تو اس کی کرامتیں زیادہ ہوتی ہیں اور جو پکا ارادہ رکھتا ہے تو اس کی ہدایت و رہنمائی عام ہوجاتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی عظمت کرتا ہے تو لوگ اس کو اپنی آنکھوں پر بٹھاتے اور اس کے احسانات کے گن گاتے ہیں، اور لطف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مزید نعمتوں سے مالا مال کرتا ہے۔
معاملات کے بھی پانچ اصول ہیں: احکام الٰہی پر عمل کرنے کے لیے علم حاصل کرنا، بصیرت حاصل کرنے کے لیے مشائخ کی خدمت میں رہنا، حفاظت کے لیے تاویلیں چھوڑ دینا، حضوری کی خاطر پابندی سے وظائف پڑھنا، اپنے نفس کو ہر معاملہ میں ذلیل و کمتر کرنا تاکہ خواہشات نفسانی سے آزاد ہوکر سلامتی حاصل ہوجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، وان تعدل کل عدل لا یوخذ منھا
اور ارشاد ہے وما ابری نفسی ان النفس لامارہ بالسوء الا مارحم ربی
نفس کی بیماریوں کا جن چیزوں سے علاج کیا جاتا ہے اس کے بھی پانچ اصول ہیں کم کھانا، مصیبتوں کے وقت اللہ سے التجا کرنا، فتنہ و فساد کے مواقع اور شرارت کے مقام سے دور ہٹ جانا، خلوت و جلوت میں ہمیشہ استغافر اور درود و سلام پڑھتے رہنا، اس شخص کو ساتھی بنانا جو احکام الٰہی پر خود گامزن ہوا اور دوسروں کو بھی آگاہ کرتا ہو۔
شیخ ابوالحسن شاذلی کا بیان ہے کہ میرے حبیب کی وصیت ہے کہ جہاں ثواب کی امید ہے وہاں جاؤ، جہاں گناہ نہ ہوسکنے کا یقین ہو وہاں بیٹھو، اس کے ساتھ رہو جو اطاعت الٰہی کی تلقین کرتا رہتا ہو، اپنے نفس کی اس وقت تعریف کرو جب کہ یقین زیادہ ہو، حسب ضرورت تھوڑا سا کہو۔
اس کے ماسوا شیخ ابوالحسن شاذلی نے یہ بھی فرمایا ہے۔
جو کوئی تمہیں دنیا داری کی طرف متوجہ کرے تو وہ فریبی ہے، جو تمہیں اچھے کام کرنے کو کہے وہ متقی ہے اور جس نے تم کو اللہ تعالیٰ کی راہ بتائی تو گویا اس نے تم کو یقیناً نصیحت کی تقویٰ کو اپنا وطن بناؤ کہ پھر نفس کا ہر مرض، عیوب، گناہ اور عام چیزوں کا خوف تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
اور میں کہتا ہوں کہ عام چیزوں کا خوف، گناہوں پر اصرار اور عیوب پر خوش ہونا یہ تینوں چیزیں بلاؤں، مصیبتوں اور مُشکِلات آنے کی جڑیں ہیں، نیز اس زمانہ کے فقیر ان پانچ چیزوں میں گرفتار ہیں۔ (1) علم پر اپنی جہالت کو مقدم رکھتے ہیں (2) اپنی بکواس پر غرور و ناز کرتے ہیں (3) احکام شریعت کی تعمیل نہ کرنے پر دلیر ہیں (4) اپنی روش پر مغرور ہیں (5) بغیر شرائط کے آمدنی و فتوح کی جلدی کرتے ہیں اس لیے وہ ان پانچ باتوں میں گرفتار ہیں۔ (1) بدعت کو سنت پر ترجیح دینا (2) حق چھوڑ کر باطل پر عمل کرنا (3) ہر چیز میں خواہشات پر عمل کرنا (4) حقائق کے مقابلے میں ناکارہ چیزوں کی طلب (5) قول و فعل میں تضاد کا پیدا ہونا۔ اسی سبب سے ان کو عبادت میں وسوسہ آتا ہے فطرت الٰہی سے دور ہوجاتے ہیں، ہر وقت گانے سنتے ہیں، اہل دنیا کے اجتماع کو پسند کرتے ہیں حتیٰ کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی مجلس گرم رکھتے ہیں اور اپنے استدلال میں اہل تصوف کے اقوال و افعال کو پیش کرتے ہیں لیکن اگر حقیقت پر نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے جواز کے لیے کچھ اور اسباب ہیں، مثال کے طور پر سماع اس وقت جائز ہے جبکہ سالک مغلوب الحال یا کامل ہو یا یہ کہ سماع سے شرح صدر پیدا ہو لیکن ا س میں شرط یہ ہے کہ اپنے موقع اور محل پر ہو۔
وسوسہ کا سبب سنت سے ناواقفیت ہے یا وہ ایک خیال ہے جو عقل میں موجود رہتا ہے، اللہ تعالیٰ سے دور بھاگنا، لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا خصوصاً عالم بد عمل اور جاہل صوفی کے لیے کمسنوں کی صحبت میں رہنا یہ وہ چیزیں ہیں جو دنیا و آخرت میں باعث شرم و عار ہیں۔
سدیدی ابو مدین کا بیان ہے جو تمہارے طریقے کے مخالف ہو اس کے ساتھ نہ رہو اگرچہ وہ سات سالہ بچہ ہی ہو کیونکہ ایسا بچہ کسی ایک حالت پر قائم نہیں رہتا اس کو جو کچھ سکھایا جاتا ہے وہ یا تو اس کو یاد نہیں کرتا یا پھر وہ اسے بھول جاتا ہے، طوائف زادوں اور گانا بجانے والوں سے ہمیشہ بالکل الگ رہو اور یاد رکھو کہ جو کوئی خود کو اللہ والا کہلائے اور اس کی حالت یہ ہے کہ احکام الٰہی کی نافرمانی کرتا ہو، تصنع کرتا ہو، حریص و لالچی ہو، بندوں میں پھوٹ ڈالتا ہو اور امور شریعت کو پوری طرح بجا نہ لاتا ہو تو ایسا شخص جھوٹا، لپاٹیا، بہروپیا ہے۔
شیخ کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مرید میں پانچ چیزیں پیدا کرے، علم صحیح، ذوق صریح، بلند ہمتی، ہر حالت میں خوش رہنا اور بصیرت نافذہ۔ اس کے برعکس جس شخص میں حسب ذیل پانچ چیزیں ہوں گی تو وہ ہرگز شیخ نہیں بن سکتا جہالت، مسلمانوں کی بے حرمتی، لغو اور بے ہودہ کاموں میں مشغول ہونا، خواہشات کی پیروی، بد اخلاقی۔
مرید کو اپنے بھائیوں اور اپنے مرشد کے ساتھ حسب ذیل پانچ امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، تعمیل احکام بموجب اسلام، ممنوعات اسلامیہ سے پرہیز کرنا، اگرچہ اس میں ہلاکت ہو، حاضر اور غائب، زندگی وموت کی حالت میں عزت کرنا، ادائیگی حقوق کی فکر کرنا اور ہر معاملہ میں نصیحت پر عمل کرنا، اللہ کا شکر ہے کہ اصول مکمل طور پر لکھے گئے ہیں، انہیں دن میں ایک دومرتبہ ضرور پڑھ لیا کرو اور ایسا ہی عمل کیا کرو تاکہ یہ تمہارے دل پر منقش ہوجائیں، اللہ کی یاد کرتے رہو اللہ ہم کو اور تم کو اپنی خوشنودی کے مواقع فراہم کرے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
نیز سیدی ابو مدین کا بیان ہے کہ طریقت کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے، غیر غلط باتوں کو چھوڑ کر اللہ کی حفاظت میں آکر متقی بن جاؤ، سنت نبوی کی اس طرح تعمیل کرو کہ صحیح احادیث ہی پر کار فرماہو، مخلوق سے اس طرح الگ رہو کہ کوئی تم پر تہمت نہ لگا سکے، نیز کوئی تم کو محسن کا لقب بھی نہ دے مگر ان معاملات کی حد تک جن کے کرنے کا اللہ عزوجل اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ وہ ضرور کرو ہرحالت میں صبر و شکر کرتے ہوئے اسلامی کام کرتے رہو، اللہ کی جانب رجوع رہو جس طرح رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تم اپنی موجودہ حالت و کیفیت کے ساتھ اس طرح متقی بنو کہ برائیوں سے دور رہ کر اچھائیاں کرو، مخلوق الٰہی سے خوش اخلاق رہو اور ایثار کو کام میں لاتے رہو، حاکم کے اسلامی حکم کی تعمیل کرو، نماز پڑھو، قربانی کرو، روزے رکھو اور افطار کرو، سفر میں نماز قصر پڑھو اللہ تعالیٰ تم پر کشادگی کرے گا اور دین و دنیا میں تم کو فلاح و بہبود ہوگی، صلوٰۃ التسبیح پڑھو منباحات پر عمل کرو، جماعت کے ساتھ ذکر کرو، نہ اس حیثیت سے کہ افضل ہے کہ اس لیے کہ اس صورت میں نفس کے لیے سہولت ہے، مردوں اور زندہ لوگوں زیارت کیا کرو لیکن اس کو واجب اور سنت مت سمجھو، مومن آدمی سے برکت طلب کرو بشرطیکہ وہ سنت کے خلاف کوئی کام نہ کرتا ہو، اس کا اقتدار کرو جس کا عمل درست ہو، اصل بھلائی یہ ہے کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرو اور اپنی حاجت برآری کے لیے اسی کے دربار میں گڑ گڑاؤ، مجھ فقیر کے نزدیک ہر حاجت کے لیے یہی کنجی ہے اور سارے مقاصد پورے ہوتے ہیں، لوگوں کے فتنہ و فساد سے حفاظت ہوتی ہے طریقت کے بنیادی اصول بحمداللہ نہایت وضاحت کے ساتھ ختم ہوئے، درود و سلام ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر۔
اخبار الاخیار