آپ کا شمار مشائخ ِکبار اور بزرگ ترین اولیا اللہ میں سے ہوتا ہے۔ تاج العارفین شیخ ابوالوفاء کے مرید و خلیفہ تھے۔ حضرت غوثِ اعظم کی خدمت میں حاضر ہوکر فیوض و برکات سے حصّۂ وافر حاصل کرتے تھے۔ جس وقت حضرتِ اعظم نے ‘‘قدمی ھذا علٰی رقبۃ کل ولی اللہ’’ فرمایا تھا تو آپ پہلے شخص تھے جنہوں نے منبر پر جاکر حضرت کا قدمِ مبارک اپنی گردن پر رکھا تھا۔ ایک روز آپ حضرت غوثِ اعظم کی مجلسِ وعظ میں شریک تھے اور آپ کے نزدیک ہی بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر غلبۂ خواب طاری ہونا شروع ہُوا۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر حضرت غوث اعظم نے فرمایا: اے اہلِ مجلس خاموش ہوجاؤ اور آپ خود منبر سے نیچے تشریف لاکر اُن کے پاس باادب کھڑے ہوگئے۔ جب شیخ علی بیدار ہوئے تو حضرت نے پوچھا: کیا رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا: عرض کیا: ہاں۔ فرمایا: میں اسی لیے تو حضورِ اقدس کے احترام میں مودب کھڑا تھا۔ پوچھا کس بات کی وصیت فرمائی؟ کہا: آپ کی صحبت میں رہنے کی تاکید کی ہے۔ فرمایا: تم جو خواب میں دیکھ رہے تھے میں حالتِ بیداری میں دیکھ رہا تھا۔
حضرت غوثِ اعظم ان کی بڑی توقیر فرمایا کرتے تھے۔ ایک روز ارشاد کیا کہ اولیا اللہ میں سے جو کوئی عالمِ غیب و شہود سے بغداد میں آئے گا وُہ میرا مہمان ہے لیکن میں علی بن ہییتی کا مہمان ہوں۔
ایک روز آپ قصبۂ ہز ملک میں گئے ہوئے تھے۔ دیکھا کہ وہاں کے باشندے ایک مقتول کے سرہانے کھڑے ہیں اور ایک دوسرے کے سر پر قتل کا الزام رکھ رہے ہیں۔ آپ نے جب یہ نزاع دیکھی تو مردے سے مخاطب ہوکر کہا: بندۂ خدا خود ہی کیوں نہیں بتا دیتا کہ تیرا قاتل کون ہے؟ مردے نے فی الفور آنکھیں کھولیں اور کہا میرا قاتل فلاں ابن فلاں ہے اور پھر آنکھیں بند کرکے مرگیا۔ ۵۶۱ھ میں ایک سوبیس برس کی عمر میں وفات پائی۔ مرقد زریران میں ہے۔
علی رہنمائے خفی وجلی بگو کامل عشق ترحیلِ اد ۵۶۱ھ
|
|
علی راز دارِ علی و نبی دگر بود ‘‘مقبول دوراں علی’’ ۵۶۱ھ
|
|
|
|
|
|
|