حضرت شیخ امیر کاتب اتقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
امیر کاتب العمید بن امیر عمرو بن[1]امیر غازی اتفاقی: آپ کا مولد قصبہ اتقان تھا جو ملک ترکستان میں نہر سیحون کے پار کی طرف واقع ہے۔کنیت ابو حنیفہ اور قوام الدین لقب رکھتے تھے۔بعض نے کہا ہے کہ نام آپ کا لطف اللہ تھا۔ماہِ شوال۶۸۵ھ میں پیدا ہوئے۔احمد بن اسعد خرلفینی شاگرد حمید الدین علی ضریر بخاری تلمیذ شمس الائمہ کردری اور اپنے ملک کے دیگر علما ء کرام و فضلائے عظام سے متعدد علوم حاصل کئے اور نیشا پور میں جاکر مصنف کتاب کافی سے فخر الاسلام کا اصول پڑھا یہاں تک کہ علمائے حنفیہ کے سردار اور فقہ و حدیث،لغت عربی وغیرہ میں اعلیٰ درجہ کے لائق فائق ہوئے آپ ہلیلہ سیز اور اور لہسن خام اکثر کھایا کرتے تھے۔۷۱۶ھ میں جبکہ آپ حجاز کے سفر میں تھے تو کتاب منتخب سنامی کی شرح تبیین نام تصنیف کرنی شروع کی اور لیلۃ البراءۃ میں اس کو ختم کیا۔۷۲۰ھ میں مشق میں تشریف لائے۔یہاں آپ کو ایک دن امیر نائب سلطنت کے ساتھ نماز مغرب پڑھنے کا اتفاق ہوا۔امام نماز نے رفع الیدین کیا۔آپ نے اس کو کہا کہ امامِ اعظم کے مذہب کے رُو سے آپ کی نماز باطل ہوئی۔رفقہ رفتہ یہ خبر قاضی تقی الدین سبکی شافعی المذہب کو پہنچی،انہوں نے آپ کی تردید کی پس آپ نے ایک مستقل رسالہ رفع الیدین کے بطلان میں لکھا اور اس کو مکحول نسفی کی روایت سے جنہوں نے امامِ اعظم سے بطلان رفع الیدین کی روایت کی ہے،مستند کیا۔اس بات سے آپ اور امیر مزکور کے درمیان شکر رنجی ہو گئی اس لیے آپ مصر کو چلے گئے جہاں ماہِ محرم ۷۲۱ھ میں پہنچے اور لوگوں کی درخواست پر آپ نے ہدایہ کی شرح مسمیٰ بہ غایۃ البیان ونادرۃ الاقران تصنیف کی اور دیباچہ میں لکھا کہ میں ہدایہ کی روایت کو پانچ طریق سے صاحبِ ہدایہ تک پہنچاتا ہوں۔علاوہ اس کے ایک رسالہ شہر میں دو جگہ جمعہ کے پڑھنے کے عدم جواز میں تصنیف کیا پھر مسر سے بغداد میں واپس آئے اور یہاں مدت تک مشہد امام ابو حنیفہ کے مدرف مقرر رہے اور قضاء و افتاء کا کام کرتے رہے۔۷۴۷ھ میں پھر دمشق میں تشریف لائے اور زہبی کی وفت پر ظاہر یہ میں مدرسہ دار الحدیث کے مدرس مقرر ہوئے اور شافعیوں سے ہمیشہ مشاجرات معارضات رکھا کرتے تھے پھر ۷۵۱ھ کو مصر میں گئے جہاں امیر صرغتمش نے آپ کی بڑی تعظیم و تکریم کی اور ۷۵۷ھ میں اپنے مدرسہ صر عتمشیہ کا جو آپ کی خاطر اس نے بنوایا تھا،مدرس مقرر کیا۔آپ نے اپنی عمر کا اندازہ کیا کہ میں اب ایک سال سے زیادہ زندگیانی نہ کروں گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ۱۱؍ماہِ شوال ۷۵۸ھ میں آپ نے وفات پائی’’عالی مرتبہ‘‘ تاریخ وفات ہے۔
آپ میں کوئی کسی طرح کا عیب نہ تھا بجز اس کے کہ آپ بڑے معتصب و خود پسند تھے چنانچہ اپنی کتاب تبیین کے آخر میں لکھتے ہیں کہ اگر اسلاف میری زندگانی میں ہوتے تو البتہ مجھ کو مصنف ٹھہراتے چنانچہ امام ابو حنیفہ اجتہدت اور امام ابو یوسف نار البیان اوقدت اور امام محمد احسنت اور امام زفراتقنت اور حسن امعنت اور ابو حفص انعمت فی مانظرت اور ابو منصور حققت اور طحطاوی صدقت اور کرخی بورک فی ما نطقت اور جصاس احکمت اور ابو زید اصبت اور شمس الائمہ و جدت ما طلبت اور فخر الاسلام مہرت اور نجم الدین نسفی بہرت اور صاحبِ ہدایہ غواص البحر عبرت اور صاحبِ محیط فقت فی ما اعلنت اور متنبی انت من الفصحاء کا خطاب دیتے۔
1۔ امیر عمر’’دستور الاعلام‘‘(مرتب)
حدائق الحنفیہ