حضرت شیخ امیر سید قاسم تبریزی سہروردی
حضرت شیخ امیر سید قاسم تبریزی سہروردی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ امیر سید قاسم تبریزی سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ شروع میں شیخ صدر الدین اردبیلی ؒ سے عقیدہ رکھتے تھے۔اس کے بعد شیخ صدر الدین علی یمنی سے کہ وہ شیخ اوحد الدین کرمانی علیہ الرحمۃما کے مریدوں میں تھے،پہنچے ان کی ارادت کی نسبت کو میں نے ان کے بعض معتقدین کے خط سے دیکھا ہے۔سو وہاں شیخ صدر الدین علی یمنی مذکور ہے،شیخ صدر الدین اردبیلی نہیں۔ایسا سننے میں آیا ہے کہ سید علیہ الرحمۃ شیخ صدر الدین یمنی کو بہت پسند کرتے تھےاور عقیدت کا اظہار کیا کرتے تھے۔حاصل کلام یہ کہ اہل زمانہ قبول و انکار میں دو گروہ ہیں اور ان سے دو اثر باقی رہ گئے ہیں۔ایک تو دیوان اشعار،جو کہ حقائق و اسرار پر مشتمل ہے کہ جس سے کشف عرفان ذوق و جدان کے آثار ظاہر ی ہیں۔دوسری وہ جماعت ہے کہ اپنے آپ کو ان کی طرف نسبت کرتے ہیں اور ان کے مرید سمجھتے ہیں۔اس فقیر نے ان میں سے بعض کو دیکھا ہے۔بعض کا حال سنا ہے۔ان میں سے اکثر تو دین و اسلام کی رسی سے خارج تھے۔اباحت اور شروع سنت کی سستی کے دائرہ میں داخل تھے۔ہوسکتا ہے کہ اس کا منشا یہ ہے کہ توحید کا مشرب سید علیہ الرحمۃ پر غالب ہو،اور تمام امور میں مبد پر نظر رکھتے ہوں۔اعراض و اعتراض کے بساط کو بالکل طے کر چکے ہوں اور ذاتی کرم کے باعث ج "فتوحات"و نذریں آتی تھیں۔وہ صرف لنگر پر صرف ہوتی ہوں۔نفس و ہوی کے بندوں کو وہ باتیں وہاں حاصل ہوتی ہوں،کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ایک جماعت طبعیت کے مالک جمع ہوئی ہو۔ان کی معارف کی بھی باتیں سنی ہوں۔لیکن نفس و ہوی کی وجہ سے اس میں تصرف کردیا ہو،اور ان کو اپنی خواہش نفسانی کے اشغال اور مخالفت ہوا کے اعراض کا مقدمہ بنا لیا۔اباحت اور شریعت و سنت کی سستی کے جنگل میں جا پڑے ہوں،لیکن وہ خود ان سب سے پاک ہوں۔میں نے ان کے ایک درویش کو دیکھا تھا۔بوڑھا تھا،لیکن عبادات و ظائف بجالایا کرتا تھا۔ہمیشہ ذکر کرتا تھا۔میں نے اس سے سید ؒ کا حال دریافت کیا۔اس نے کہا ، میں ان کی خدمت میں دو دفعہ گیا ہوں۔ایک دفعہ ہرات میں اور ایک دفعہ بلخ میں۔ہر دفعہ چند دن ان کی خدمت میں رہتا تھا۔کہا کہ اپنے ملک کو چلا جا اور ان کے درمیا ن مت رہو۔کیونکہ تم ان کی صحبت نشان دےگی۔بعض عزیز فرماتے ہیں کہ جب میں نے سمر قند میں سعیدؒ سے ملاقات کی ۔معارف کے بیان کے درمیان حضرت صدیق اکبر ؓ سے بہت کچھ بیان کرتے تھے،اور جتنی دفعہ صدیق اکبرؓ کہتے تھے،رقت ہوتی تھی،اور بڑے بڑے آنسوؤں کے سفید قطرے ان کی آنکھ سے گرا کرتے تھے۔ان کے مرید کہا کرتے کہ اب وہ ابو بکری مقام میں ہیں۔ایک اور عزیز جو ان کی خدمت میں پہنچے کہتے تھے کہ میں نے ان کی ذاتی کرم کے برابر کسی کو نہیں دیکھا۔ایک شخص خر جروجام کے رہنے والے نے قبول و انکار میں غالباًتعصب سے خالی تھا۔ان سے بعض کرامات کہ اس گروہ کی ہوتی ہیں۔بیان کرتا تھا،ایک عزیز جس کی باتوں پر سب کو اعتبار ہے۔بعض معتبر مسافر سے نقل کرتا ہے کہ جام کی مزار مقدس سے مشہد مقدس طوس علی ساکنہ السلام کی زیارت کا قصد کرتے ہوئےقافلہ روانہ ہوا۔راستہ میں خرجرد کی طرف روشنائی معلوم ہوئی کہ زمین سے اونچی ہو کر آسمان تک پہنچتی ہے،لوگ تعجب میں رہے کہ یہ کیسی روشنی ہے۔رات ہی کو خرجرد میں پہنچے ۔دیکھا تو وہ روشنی سیدؒ کے لنگر کی طرف سے ہے۔علیہ الرحمۃ جب لنگر میں آئے اور ان کی زیارت کا قصد کیا۔ایسا مشاہدہ ہوا کہ وہ ایک نور ہے۔اس گھر سے جہاں آپ کا مزار منور ہے،چمکتا ہے۔بعض درویشوں سے ایسا سنا گیااور میں نے دریافت بھی کیا ہے کہ ان کی مزر کی طرف توجہ کرنا،ہوری جمیعت کا باعث ہے۔واللہ اعلم مخدومی خواجہ ناصر الدین عبید اللہ ان کے ارشاد کے سایہ کو خدائے تعالیٰ بڑھائے فرماتے ہیں کہ سید قاسم نے حضرت خواجہ بہاؤالدین علیہ الرحمۃ کو ابیور کے اطراف میں دیکھتا تھااور ان کی صحبت میں رہتے تھے۔ان کے طریقہ کے معتقد تھے۔۔اس سے سمجھایا جاتا تھا کہ اپنے آپ کو اس طریق پر رکھتے ہیں۔دوم یہ کہ سید علیہ الرحمۃ کہتے تھے کہ جہاں میں پہنچتا تھا۔مخذوبوں کے حال کی بابت پوچھتا تھا،اور اپنے آپ کو ان کی صحبت میں پہچانتا تھا۔جب میں روم میں پہنچا تو لوگوں نے کہا،یہاں ایک مخذوب ہے۔لوگ ان کو مولانا جامی کہتے ہیں۔جب میں ان کے سامنے گیا تو میں نے ان کو پہچان لیا۔کیونکہ میں شروع تحصیل علم میں ان کو تبریز میں دیکھتا تھا۔میں نے رومی زبان میں کہا کہ تم کو کیا ہوگیا؟کہنے لگا،ہر صبح کہ میں اٹھتا تھا۔ایک مردتھا۔تفرقہ میں پڑھا ہوا۔مجھے ایک شخص اس کی طرف کھینچتا تھا اور دوسرا اس طرف۔ایک صبح جو اٹھا تو مجھے ایک ایسی چیز نے پکڑ لیا کہ سب سے چھوٹ گیا۔فرماتے ہیں کہ یہ بات میں نے چند دفعہ سید سے سنی تھی۔جتنی دفعہ سنتا تھا،وہ بدل جاتا تھا،اور اس کے آنسو کے قطرے ٹپکا کرتے تھے۔معلوم ہوتا ہےکہ وہ بات اس وقت میں کہ اس عزیز نے فرمائی تھی ۔ان میں اس نے بہت اثر کیا تھا۔
اپنے بعض رسائل میں لکھتے ہیں کہ ۷۲۹ھ میں شہر ہرات میں نئی خانقاہ میں مولانا ظہیر الدین خلوتی رحمتہ اللہ علیہ کے پڑوس میں نئی خانقاہ میں ہم رہتے تھے۔دفتہً صبح کے وقت مولانا اپنی خلوت سے روتے ہوئے باہر نکلے"اور میری خلوت کی طرف آئے اور فریاد کرنے لگے کہ خدا کے لیے تھا کہ کون کہتا ہے"ونحن اقرب الیہ من حبل الورید یعنی ہم انسان کی طرف اس کی شاہ رگ سے زیادہ نزدیک ہیں۔ساٹھ سال گزرگئے ہیں کہ مجھے دوڑاتے ہیں"اور اب تک میں نہیں پہنچا۔فقرا میں سے ایک عزیز حاضر تھا۔اس نے کہا"یہ تو وہی حکایت ماوراء النہر کے مجنوں کی ہے کہ لوگوں کے گھویں جاتا اور اگر چہ وہاں کھا لیتا"لیکن جب باہر نکلتا"اور اس سے لوگ پوچھتے کہ تم نے کچھ کھا یا ہے"تو برا بھلا کہتا کہ چیز کہا تھی۔میں نےتو کچھ نہیں کھایا۔ایک دن ایک امیر زادہ اس کو مکان میں لے گیا"اور بہت سی نعمتیں طرح طرح اس کے سامنے رکھیں۔جب دیوانہ اپنی مرضی کے مطابق کھا چکا تو امیر زادہ نے تلوار کھینچی کہ اور کھا۔دیوانہ نےتلوار کے خوف سے کچھ اور جس قدر کھا سکتا تھا"اور کہا کہ اگر مار ڈالتا ہے تو مارڈال"لیکن اب کھانے کی گنجائش نہیں۔جب دیوانہ باہر نکلا"تو اس سے لوگوں نے پوچھا کہ کچھ کھا یا۔کہا" کھانے بہت تھے"لیکن تلوار کے خوف سے کون کچھ کھا سکتا ہے۔۸۸۳ھ میں بادشاہ قوت کو ہرات کی جامع مسجد میں ایک شخص نے زخم لگایا۔ایسا معلوم ہوا کہ سید کے لنگر خانہ میں اس کا گھر متصل موجود ہے۔اس وہم سے کہ شاید معاملہ سید کی واقفی میں ہوا ہے۔ان کی شہر ہرات سے نکال کر عذر کیا۔تب وہ بلخ و سمرقند کی طرف چلے گئے۔وہاں سے لوٹے۔خرجرو میں متوطن ہوئے"اور ۸۳۷ھ میں دنیا سے رحلت کر گئے۔ان کی قبر بھی وہیں ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)