حضرت شیخ بہاءالدّین گنج شکر کشمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ حضرت شاہ ابواسحاق ختلانی عارف ربانی کے خلفاء میں سے تھے۔ شاہ ابواسحاق امیر کبیر سید علی ہمدانی کے مرید تھے۔ شیخ بہاءالدین نے جب منازل سلوک طے کرنے سے فراغت حاصل کی۔ تو حرمین الشریفین میں حاضر ہوئے اور وہاں سے سیاحت عالم اسلام کو نکلے اور کشمیر میں قیام پذیر ہوئے۔ قوت حلال کے حصول کی خاطر آپ غلّے کے دانے چنتے اور انہیں دھو کر گذر اوقات کرتے اس طرح وہ شہر کے نانبائیوں سے متعارف ہوگئے۔ کیونکہ غلّہ دھو کر ان نانبائیوں سے روٹی پکواتے تھے ایک دن ایک نانبائی کی دکان پر آئے۔ مگر دکان اس وقت بند تھی۔ ہمایوں سے پوچھا تو لوگوں نے بتایا۔ نا نبائی کا نوجوان بیٹا انتقال کرگیا ہے اور وہ اس مصیبت کے پیش نظر گھر میں صفِ ماتم پر ہے۔ آپ وہاں پہنچے۔ ایک شور محشر بپا تھا۔ اس کے لواحقین اور متعلقین گریہ و زاری کر رہے تھے۔ آپ نے لوگوں کو روک دیا۔ اور نا نبائی کو بلا کر کہنے لگے۔ تمہارا بیٹا مرا نہیں زندہ ہے۔ اسے دیکھو تو سہی! آپ لوگوں کے ساتھ اس چار پائی کے قریب آئے اور آتے ہی کہا بیٹا! یہ نیند لے وقت اچھی نہیں اٹھو! اللہ احکم الحاکمین کے حکم سے اٹھو بیٹھو! یہ آواز سنتے ہی مردہ حرکت میں آیا۔ آنکھیں کھول دیں۔ اس کرامت سے ہزاروں لوگ آپ کے عقیدت مند بن گئے۔
آپ کا آخر عمر تک خطۂ کشمیر میں رہے۔ اور مخلوق خدا کی ہدایت میں مصروف رہے آپ ۸۴۹ھ میں انتقال کرگئے اور ایک سفر کے دوران ڈاکوؤں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ آپ کا مزار وادی کشمیر میں ہے۔
بہاء الدین چو شد زین دار فانی بہاء الدین سخی اہل دل گو ۸۴۹ھ
|
|
بسالِ رحلتش آں شاۂِ عرفان دگر کن ترجمان مہتاب عرفان ۸۴۹ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)