شیخ بہاء الدین سہروردی لاہوری
شیخ بہاء الدین سہروردی لاہوری (تذکرہ / سوانح)
شیخ بہاء الدین سہروردی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ
آپ حضرت حاجی جمال کمبوہ سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند تھے جو حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے، آپ کا پر لطف واقعہ بیان کیا جاتا ہے واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک دفعہ حضرت شیخ الا سلام ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک سوالی حاضر ہوا اور عرض کی کہ جتنے انبیا ءکرام اس دنیا میں مبعو ث ہوئے ہیں مجھے اتنی ہی اشر فیاں عنایت فرمائی جائیں یعنی ایک لاکھ چو بیس ہزار جتنی کہ انبیاء کی تعداد ہے۔ آپ سوچ میں پڑگئے، اس وقت مجلس میں سے حاجی کمبوہ رحمتہ اللہ علیہ کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ سائل کو ساتھ لیکر گھر تشریف لائے اور اس سے کہا کہ ایک ایک نبی کا نام لیتے جاؤ اور اشر فیاں لیتے جاؤ،وہ تذ بذب میں پڑگیا اور آخر کار جتنے انبیاء کے نام اس نے لیئے اتنی ہی اشر فیاں حاجی صاحب نے اس کو دے دیں، حضرت شیخ الا سلام ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ بہت محفوظ ہوئے اور اس کے خاندان کےلیئے اچھے دل و دماغ کی دعا فرمائی،حضرت شیخ بہاء الدین رحمتہ اللہ علیہ انہی حاجی جمال کمبوہ رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند تھے۔
حاجی جمال نے تقریباً ایک سو تیرہ سال کی عمر میں وفات پائی، آخری عمر میں حضرت شاہ رکن عالم ملتانی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق دہلی کے اطراف میں چلے گئے تاکہ اپنی قوم کے غیر مسلم افراد میں تبلیغ کےفرائض سر انجام دیں۔
لاہور میں آمد:
آپ اپنے والد مکرم کی وفات کے بعد ملتان سے لاہور تشریف لے آئےاور مستقل طور پر یہاں ہی آباد ہوگئے، شہنشاہ اکبر کے زمانہ کے مشہور معروف شہباز خان انہی شیخ بہاء الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد سے تھے اور قطب المشا ئخ سماء الحق والدین سہروردی ان کے حقیقی بھائی شیخ فخر الدین عرف شیخ احمد ملتانی کے فرزند ارجمند اور آپ کے بھتیجے تھے انہی شیخ سماء الحق کا سلطان بہلول لودھی بہت معتقد تھا، مولانا جمالی مصنف،سیر العا رفین،انہی شیخ سماء الحق کی اولاد میں سے تھے، شیخ سماء الدین کے والد حضرت سید صد ر الدین محمد المعروف سید راجو قتال رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے مگر خرقہ خلافت حضرت شیخ الا سلام اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کیا تھا۔
شہنشاہ اکبر کے عہد کے نامور امیر عمدۃ الملک شہر اللہ نواب نظام الدین شہباز خان آپ کی ہی اولاد سے تھے، وہ لاہوری کمبو ؤں میں ایک ممتاز شخصیت کے مالک تھے، نواب شا ہنواز خان اورنگ آبادی مصنف،مآثر الامرا،لکھتے ہیں کہ آپ کا سلسلہ نسب چھ پشتوں کے بعد حاجی جمال رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچا ہے جو حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے۔
منتخب التو اریخ ،میں لکھا ہے کہ شہر اللہ کمبوہ لاہوری کو اکبر نے شہباز خان کا خطاب عطا کرکے میر بخشی مقر ر کیا تھا،طبقات اکبری،کا مصنف آپ کا اکا برا مراء میں شمار کرتا ہے، حنفی مسلک کے بزرگ تھے، اکبر بادشاہ جس نے دین الہیٰ جاری کرکے لا مذ ہیبت اختیار کرلی تھی انہیں نواب شہباز خان اکثر اوقات بادشاہ کو بر سر دربار ٹوکا تھا، آپ نہایت صاف گو انسان تھے،ستر برس کی عمر میں وفات پائی تو حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے جوار میں جگہ پائی۔
انہی کے متعلق ایک اور واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ اکبر بادشاہ اور نواب صاحب باغ میں ٹہل رہے تھے کہ عصر کا وقت ہو گیا چو نکہ اکبر نے ان کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا اس لئیے نماز ادا کرنے کے لئیے وہ اپنے ہاتھ کو آسانی سے چھڑا بھی نہ سکتے تھے کہ کہیں شہنشا ہ ناراض نہ ہوجائے،جو نہی آپ نے دیکھا کہ نماز کا وقت ہو رہا ہے آپ نے جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور وہیں نماز شروع کردی، علامہ ابو الفضل لکھتے ہیں کہ شہنشاہ اکبر بیگمات اور شہزاد گان کے علاوہ جن امرائے کبار سے عام طور پر ہم نشین ہوتے تھے ان میں شہباز خاں کمبوہ کے علاوہ شیخ عبد النبی صدر الصد ور، حکیم عین الملک،راجہ ٹو رڈ مل اور راجہ مان سنگھ شامل ہیں۔
لاہوری کمبوؤں میں شیخ عنایت اللہ کمبوہ اور ملا محمد صالح کمبوہ کے نام اکثر آتے ہیں جن کا اجما لا،تذکرہ اس جگہ نا مناسب نہیں ہوگا۔
شیخ عنایت اللہ کمبوہ لاہور المتو فی ۱۶۶۴ء شیخ صاحب موصوف شا ہجہان اور اور نگز یب عالمگیر کے عہد میں میر منشی کے عہد ہ پر فائز تھے، اپنی ذاتی قا بلیت سے سلطنت مغلیہ کے اعلیٰ عہد یدار بنے، بطو ر منشی گیری دربار کی بہترین خدمات انجام دیں، نہایت فصیح اور شستہ فارسی لکھتے تھے، آپ نے شا ہجہانی عہد کے تاریخ ،تاریخ دلکشا،کے نام سے لکھی نیز ،بہا ر دانش ،بھی لکھی جس میں تریا چر تر یعنی عو رتوں کے مکرو فریب کی داستا نیں رقم ہیں ، یہ کتب فصا حت و بلا غت میں نہایت اہم ہے۔اس کے علاوہ آپ نے ایک اور کتاب،انشائے اشرف الصحائف،بھی تحریر کی جس میں دو رقعہ جات ایسے ہیں جن میں کوئی حرف نقطے والا استعمال نہیں کیا گیا ،پہلے رقعہ میں ایک لاہوری عالم کےلئیے صد ر الصد ور سے عطائے وظیفہ و جاگیر کی سفارش کی گئی تھی اور دوسرے رقعہ میں بادشاہ کی فتو حات کا تذکرہ ہے جس میں شہنشا ہ کی تعریف بھی کی گئی ہے۔
وفات:
شیخ صاحب کی وفات ۱۶۶۴ء میں ہوئی اور لاہور میں دفن ہوئے، آپ کی قبر پر ملا محمد صالح کمبوہ نے جو آپ کے بھا نجے اور داماد بھی تھے ہزار روپیہ خرچ کرکے مقبرہ بنوایا جو کہ آج تک موجود ہے،یہ مقبرہ ایمپر س روڈ لاہور پر میتھو ڈسٹ چرچ اور ریلوے ہیڈ کو اٹر ز آفس کے درمیان واقع ہے، انگریزوں کے عہد میں آپ کی قبر کو مٹا دیا گیا اور گنبد کی عمارت پر عیسا ئیو ں نے قبضہ کرلیا اور یہ مزار آج تک چرچ کے قبضہ میں ہے۔
آخری عمر میں آپ نے شاہی ملا زمت چھو ڑ کر دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اور یاد الہیٰ میں مصروف رہنے لگے تھے اس میں زمانہ میں آپ نے مذہب کا مطالعہ کثرت سے کیا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)