حضرت شیخ بختیار
حضرت شیخ بختیار (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ بختیار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ بختیار حضرت احمد عبدالحق ردولوی کے مرید تھے آپ ابتدائی زندگی میں ایک سوداگر کے غلام تھے مگر جوہر شناس تھے وہ سوداگر آپ کو مختلف علاقوں میں جواہرات خریدنے کے لیے بھیجا کرتا تھا۔ ایک بار شیخ بختیار اسی سلسلہ میں حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہ کے شہر میں آئے ہر روز صبح و شام حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوکر کھڑے رہتے۔ چھ ماہ تک اسی طرح صبح و شام آتے رہے کھڑے ہوتے رہے مگر حضرت احمد عبدالحق نے کبھی توجہ نہ کی اور نہ ہی پوچھا تم کون ہو اور کیوں آتے ہو ایک روز نگاہ کی تو شیخ بختیار پر مستی طاری ہوگئی شیخ بختیار مستی کے عالم میں بڑی گستاخانہ باتیں کرتے وہ حضرت احمد عبدالحق کو کہتے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا صاحب کرامت بنایا ہے تو اپنا فیض تقسیم کیوں نہیں کرتے اور ان اسرار و معارف پر نجیل بن کر کیوں بیٹھے رہتے ہو۔ ان کی یہ باتیں اہل خانقاہ کو اچھی نہ لگتیں مگر آپ برداشت کرتے کچھ عرصہ کے بعد آپ نے اس پر ایک نگاہ اور ڈالی تو آپ کو صاحب ہوش بنادیا۔
اب شیخ بختیار حضرت احمد ردولوی کے مرید ہوئے اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خانقاہ ک خدمت میں لگ گئے حضرت احمد عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا جب تک اپنے مالک سے اجازت لے کر اس کی ملازمت اور غلامی سے نجات نہیں پاؤ گے خانقاہ میں نہیں رہ سکتے چنانچہ شیخ بختیار واپس اپنے مالک کے پاس دہلی گئے اس نے شیخ کی حالت دیکھی تو انہیں آزاد کردیا اور تمام فرائض سے سبکدوش کردیا۔ آپ واپس آئے تو ہمہ تن خدمت خلق میں مشغول ہوگئے ایک دن حضرت شیخ احمد عبدالحق نے فرمایا بختیار! اس خانقاہ کے صحن میں ایک کنواں کھودنا چاہیئے یہ بات سنتے ہی بختیار نے کدال اٹھائی اور کنواں کھودنا شروع کردیا کئی دن کھودتے رہے آخر کنویں سے پانی نکل آیا۔ کنواں تیار ہوگیا تو آپ نے فرمایا کنویں کی ٹھنڈی مٹی سے ایک چبوترا(صفہ) بنانا چاہیے جس پر درویش بیٹھا کریں شیخ بختیار نے ساری مٹی سے ایک چبوترا بنادیا۔ ایک دن حضرت شیخ احمد عبدالحق نے فرمایا بختیار یہ کنواں باہر سے مٹی لاکر پُر کردوشیخ بختیار باہر سے مٹی لا لا کر کنواں پُر کرتے گئے کنواں پُر ہوگیا اس عرصہ کے دوران شیخ بختیار نے کبھی نہ پوچھا کہ ایسا کیوں کرنا ہے ان کی اس ادا پر حضرت احمد رودلوی نے فیضان کے دروازے کھول دیے اور آپ بلند مقامات پر جاپہنچے۔
ایک دن حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہ اپنے حجرے کے دروازے پر تشریف فر تھے۔ شیخ بختیار بھی پاس ہی کھڑے تھے آپ نے شیخ بختیار سے پوچھا تم کوئی غیر معمولی چیز دیکھ رہے ہو دیکھا کہ سارا حجرہ سونے کا بنا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا بختیار! اپنی ضرورت کے لیے سونا اٹھالو عرض کی حضور اب تو آپ کی غلامی ہی میرا سونا ہے مجھے اس سونے کی ضرورت نہیں ہے۔
تذکرہ چشتیہ کے مولّف نے شیخ بختیار کی وفات ۹۱۰ھ ہجری لکھی ہے کہتے ہیں شیخ بختیار قدس سرہ نے سو سال سے زیادہ عمر پائی تھی۔
شاہ اہل جنت شیخ بختیار
چوں بہ نجت خود بجنت یافت جا
ہادی فیض است سال وصل او
۹۱۰ھ
نیز یار حق ولی مقتدار
۹۱۰ھ
---------------------
آپ بھی شیخ احمد عبدالحق کے مرید اور مخصوص محرم اسرار اور واقف احوال تھے، آپ سفر و حضر میں شیخ کے ساتھ رہا کرتے تھے، شیخ احمد عبدالحق کی جتنی ان پر خصوصی نظر تھی دوسرے مرید اس نظر عنایت سے محروم تھے، آپ ایک تاجر کے غلام تھے جب وہ تاجر اپنے جواہرات کی تجارت کے لیے رودلی آیا تو آپ بھی اس کے ہمرا تھے، یہاں آکر آپ نے شیخ احمدعبدالحق کو دیکھا اور دیکھتے ہی معتقد ہوگئے، پھر تو روزانہ شیخ کی خدمت میں آتے اور باادب کھڑے رہتے، چھ ماہ اسی طرح گزرگئے اور شیخ احمد نے آپ کی طرف کوئی التفات نہیں کیا اور یہاں تک نہیں پوچھا کہ تم کون ہو کہاں سے آئے مجھ سے کیا کام ہے؟ چھ ماہ کے بعد شیخ نے آپ کی طرف دیکھا تو شیخ کی ایک ہی نظر سے آپ بے ہوش ہوگئے اور اس بے ہوشی میں شیخ سے گستاخانہ کہنے لگے کہ شیخ احمدعبدالحق تم اتنی نعمتوں سے نوازے گئے ہو اور اللہ کے بندوں کو اس سے محروم رکھتے ہو، شیخ نے ان کو اس بات کے کہنے سے روکا مگر وہ اپنی مستی میں بار بار یہی کہتے رہے، بالاخر شیخ نے پانی منگواکر شیخ بختیار کو پلایا تو وہ ہوش میں آئے۔ اس کے بعد شیخ احمد عبدالحق نے فرمایا کہ بختیار! اپنے آقا اور مولیٰ کے پاس چلے جاؤ، اس کو راضی رکھو اور اس کے کام میں مشغول رہو، بختیار نے شیخ کی بات کو تسلیم کیا اور جونپور چلے گئے جہاں ان کا مولیٰ رہتا تھا، ان کے آقا نے جب ان کی حالت کو اس طرح دیکھا تو انھیں آزاد کردیا، بختیار کے اندر عشق و محبت کی ایسی آگ لگی جو انہیں ایک لمحہ بھی قرار سے نہ رہنے دیتی تھی، کہتے ہیں کہ شیخ شرف الدین پانی پتی نے خفیہ خفیہ شیخ احمد عبدالحق سے بختیار کی سفارش کہ اور کہا کہ جیسا آپ کو اس دنیا میں بختیار پہچانتا ہے ویسا کوئی نہیں پہچانتا، مگر بختیار بے چارہ مال و اسباب عزت و جاہ کو چھوڑ کر جونپور سے ردولی آگیا اور صدق دل سے شیخ کی خدمت کرنے لگا۔
ایک روز شیخ احمد عبدالحق نے بختیار سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ خانقاہ کے صحن میں ایک کنواں کھودا جائے، بختیار شیخ کی اتنی بات سننے کے بعد فوراً زمین کھودنے کے اوزار لے آئے اور کنواں کھود کر شیخ کی خدمت میں پانی نکال لائے، شیخ نے وہ پانی دیکھ کر اللہ اکبر کہا اور اس پانی پر کچھ پڑھ کر لوگوں میں تقسیم کردیا، پھر شیخ نے فرمایا کہ اے بختیار! اس کنویں کو باہر کی مٹی سے بھردو اور کنویں سے جو مٹی نکلی ہے اس کا ایک چبوترہ بنادو، چنانچہ بختیار نے ایسا ہی کیا اور یہ دریافت نہیں کیا کہ کنویں کو کھودنے اور پھر ختم کردینے سے مقصد کیا تھا۔
سونے سے بھرا کمرہ: ایک روز شیخ احمد اپنے کمرے میں بیٹھے تھے اور بختیار ان کے سامنے کھڑے تھے، شیخ نے فرمایا بختیار کیا دیکھتے ہو؟ بختیار فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے پورے کمرے کو سونے سے بھرا ہوا پایا، اس کے بعد شیخ نے فرمایا کہ بختیار اگر ضرورت ہوتواس سے کچھ لے لو میں نے عرض کیا کہ حضرت مجھے اس اس کی ضرورت نہیں رہی، شیخ نے فرمایا، اچھا اب دیکھو، اس کے بعد مجھے کمرہ اپنی اصلی حالت پر نظر آنے لگا۔
ایک روز شیخ احمد نے اپنے بیٹے عارِف کو کہا کہ بختیار کو بلا لاؤ، شیخ عارِف نے بختیار کے مکان پر آواز دی، اتفاق سے اس وقت بختیار اپنی بیوی کے پاس سورہے تھے اور اپنی عورت سے مجامعت میں مشغول تھے، شیخ کا پیغام سنتے ہی بختیار نے کپڑے پہنے اور بھاگتے ہوئے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ شیخ بختیار کے اندر بے انتہا شہوت تھی اور اس کو پورا کرنے کے لیے وہ بے طاقت و مجبور محض کے درجہ تک پہنچے ہوئے تھے ممکن ہے ایسی حالت میں شیخ نے امتحان لیا ہو کہ دیکھیں وہ اپنی خواہش کی اتباع کرتا ہے یا ہماری۔
ایک روز بختیار اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں تجارت کی غرض سے جانا چاہتا ہوں، اجازت دیدیجئے، شیخ نے فرمایا خوشی سے جاؤ لیکن اس بات کا خیال رکھنا کہ دریا کے دوسرے کنارے تک نہ جانا اس لیے کہ ہماری ولایت دریا کے اس کنارے تک ہے۔
کہتے ہیں کہ شیخ بختیار ان پڑھ تھے لیکن اپنے مُرشِد کی برکت اور صحبت کے فیض سے ان میں یہ بات اللہ نے پیدا کردی تھی کہ ہر بات ان کی قرآن و حدیث کے مطابق ہوتی تھی۔
اخبار الاخیار