داؤد نام، سیّد فتح اللہ بن سیّد مبارک باپ کا نام تھا۔ سلسلۂ نسب امام موسیٰ کاظم تک منتہی ہوتا ہے۔ آپ کے والد عرب سے آکر ہندوستان میں پہلے ہیبت پور (پٹی) میں پھر قصبۂ چونی وال (چونیاں) سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ آپ اسی مقام پر اپنے والد کی وفات کے چار ماہ بعد پیدا ہوئے۔ سنِ رشد کو پہنچے تو حضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی کے شاگرد مولانا اسماعیل لاہوری کی خدمت میں آکر علومِ ظاہری کی تکمیل کی پھر حضرت سیّد حامد گنج بخش گیلانی اوچی کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے اور سلسلۂ قادریہ کی تکمیل کے بعد خرقہ و خلافت سے ممتاز ہوئے اپنے زمانے کے صاحبِ حال و قال اور جامع شریعت و طریقت بزرگ گزرے ہیں۔ زہدو تقویٰ اور عبادت و ریاضت میں بھی بلند مقامات پر فائز تھے۔ تمام رات کبھی قیام، کبھی سجود، کبھی رکوع اور کبھی قعدہ میں گزرجاتی تھی۔ کثرتِ ریاضت و مجاہدہ سے آپ کی نسبتِ خاص حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم سے پیدا ہوگئی تھی، چنانچہ حضرت غوثیہ کی روح سے آپ کو اویسی کا رتبۂ عالی حاصل تھا۔
صاحبِ اخبار الاخیار لکھتے ہیں کہ آپ مجلس میں اس طرح مضطرب و بے چین بیٹھتے کہ جیسے کسی نے کوئی چیز گُم کردی ہو یا کسی کو اپنے محبوب کے آنے کا انتظار ہو۔ پھر ذوق و شوق کی حالت طاری ہوجاتی اور حقائق و معارف بیان کرنے شروع کرتے۔ اس مقام پر آپ کا کلام بڑا دقیق و بلند ہوتا۔ فرماتے: عراق کی جانب سے جو ہوا آرہی ہے اس میں خوشبوئے محبوب ہے اور میرا دل اس کی طرف کھینچا جارہا ہے۔ نیز اخبار الاخیار میں بہ بھی درج ہے کہ حضرت شیخ قطب[1] عالم فرماتے ہیں کہ جب شیخ داؤد کی خدمت میں حاضر ہُوا تو آپ کے طریقِ وعظ و نصیحت سے میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ شاید شیخ داؤد طریقۂ مہدویہ[2] رکھتے ہیں ابھی میرے دل میں یہ خیال آیا ہی تھا کہ شیخ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: مہدویہ طریقہ ضلالت و گمراہی کا ہے۔ بطریقِ متعارف اور بسندِ صحیح سیّد عالمﷺ تک ثابت نہیں ہے۔ اسی زمانے جب مخدوم الملک عبداللہ سلطان پوری اپنے زمانۂ اقتدار میں بعض مسائل کے اختلاف کی بنا پر بعض اکابر علماء و صلحاء کے درپے آزار تھے۔ آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور سلیم شاہ کا فرمان بھجواکر طلب کرایا۔ چنانچہ آپ دوخادموں کے ساتھ روانہ ہوئے۔ گوالیار سے باہر ملاقات ہوئی مخدوم الملک شیخ کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر بہت متاثر ہوئے اور عزت و احترام کے ساتھ واپس کیا۔ دورانِ گفتگو شیخ نے مخدوم الملک سے اپنی طلبی کا سبب پوچھا۔ مخدوم الملک نے جواب دیا: ہم نے سُنا ہے کہ وقتِ ذکر آپ کے مرید‘‘یا داؤد’’ کہتے ہیں۔ شیخ نے فرمایا: یہ اشتباءصرف سماعی ہے وہ یا ودود یا ودود کہتے ہوں گے۔ مخدوم الملک یہ جواب سن کر خاموش رہا۔ ۹۸۲ھ میں وفات پائی۔ مزار بمقام شیر گڑھ زیارت گاہ خلق اللہ ہے۔
حضرتِ داؤد شیخِ باکمال |
|
شد چو از دنیا بجنت یافت جا |
|
[1]۔ حضرت سیّد موسیٰ پاک شہید مراد ہیں جن سے صاحبِ اخبارالاخیار بیعت تھے اور خلافت پائی ۔
[2]۔ اس طریقہ کے بانی سید محمد مہدی جونپوری تھے۔ ۸۴۷ھ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام یوسف تھا۔ ایک مجذوب دانیال کے مرید تھے۔ حالت استغراق و جذب و سکر میں ‘‘انا مہدی کا نعرہ’’ کا نعرہ لگایا۔ جب ہوش میں آئے تو توبہ کرلی۔ لیکن متقدمین اور جہلأنے انہیں مہدیٔ موعود ہی بنا دیا اور ایک نیا فرقہ پیدا ہوگیا۔ بعض کا کہنا ہے کہ انہوں نے اگرچہ اپنے آپ کو مہدی کہا ہے مگر اس سے مہدیٔ موعود مراد نہیں تھا بلکہ ہادی و رہنما اور مصلح مراد تھا۔ انہوں نے اصلاحی تحریک بھی شروع کی کیونکہ اس وقت ہندوستان میں سخت بدامنی اور طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی۔ کوئی حکومت احکامِ شرع کے اجرا و قیام کی ذمہ داری نہ لیتی تھی۔ علمائے حق کم اور علمائے دنیا اور جاہل صوفیاء زیادہ تھے۔ آپ نے احیائے شریعت کا غلغلہ بلند کیا۔ ان کے شدید مخالف بھی معترف ہیں کہ علومِ اسمیہ کے ساتھ زیدو درویشی اور عبادت و تقویٰ میں بھی لاجواب تھے۔ اصلاحی سلسلے میں اربابِ اقتدار سے ٹکر بھی لی۔ جب مخالفت کا بہت زور ہوا تو گجرات چلے گئے لیکن علمأ نے یہاں بھی مخالفت کی۔ یہاں سے حجاز کا رُخ کیا وہاں سے ایران پہنچے۔ سلطان اسماعیل صفوی کا زمانہ تھا اس نے بھی وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا۔ دوبارہ ہندوستان کا رُخ کیا۔ ابھی راستے ہی میں تھے کہ فراہ کے مقام پر ۹۱۱ھ میں وفات پاگئے۔ ان کے معتقدین شیخ عبداللہ نیازی اور شیخ علائی نے طریقۂ مہدویت کو فروغ دینا چاہا اور مخدوم الملک نے دبانا چاہا۔ سلیم شاہ نے مخدوم الملک کے کہنے پر شیخ علائی کو دربار میں بلایا اور علماء کو جمع کیا جس میں سید رفیع الدین محدث اور میاں ابوالفتح تھا نیسری بھی شریک ہوئے۔ مہدویت پر بڑا مباحثہ ہُوا بادشاہ نے معاملہ کو ٹالنا چاہا مگر شیخ علائی اس ادعا سے باز نہ آئے۔ اس پاداش میں کوڑوں سے پٹوائے گئے۔ بیمار تھے تیسرے کوڑے ہی میں رُوح پرواز کر گئی۔ لاش کو ہاتھی کے پاؤں کے ساتھ باندھ کر فوج میں تشہیر کی گئی اور حکم دیا گیا کہ دفن نہ کی جائے۔ ان کے بعد شیخ عبداللہ نیازی کی باری آئی ۔ دربار میں بلائے گئے شیخ نہایت آزادی و بیباکی سے آئے۔ بادشاہ کو سلام کیا۔ سلیم شاہ نے مخدوم الملک سے پُوچھا علائی کا مرشد یہی ہے۔ انھوں نے کہا: ہاں۔ انھیں بھی کوڑوں سے پٹوایا گیا۔ سخت جان تھے بچ گئے۔ ۹۰؍برس کی عمر میں ۱۰۰۰ھ میں وفات پائی۔ اُس زمانے کے دیگر علمأ و مشائخ نے بھی سید محمد جونپوری کے وعوائے مہدویت کے رد و قبول میں بہت کچھ لکھا۔ مگر یہ تحریک کسی نہ کسی صورت میں چلتی رہی۔ مولانا شیخ جمال الدین معروف بہ شیخ بہلول جو اصحاب سلوک و طریقت سے تھے اور شیخ داؤد چونی وال شیر گڑھی کے حلقۂ ارادت میں داخل تھے اور علومِ متداولہ میں سید رفیع الدین محدث شیرازی کے شاگرد تھے سید محمد مہدی جونپوری کے دعوائے مہدویت کے قائل نہ تھے مگر ان کی ولایت کے ضرور معترف تھے۔ بعض علماء نے اُن کے دعوائے مہدویت کے رد و قبول میں بین بین طریقہ اختیار کیا اور ان کے احوال و مقامات کو جذب و سکر قرار دے کر خاموش ہوگئے مگر معاملہ جُوں کا توں رہا۔ شیخ مبارک ناگوری بھی آزاد خیال اور آزاد مشرب ہونے کے باعث طریقہ مہدویت کے مؤید تھے۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ مہدویت موقوف علیہ ایمان و اسلام نہیں ہے تعین علامت مہدی میں سخت اختلاف واقع ہوا ہے۔ اموی و عباسی خانہ جنگی سے لے کر آج تک یہ عقیدہ سیاسی و جماعتی تغلب کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے۔ اپنے حصول مقاصد کے لیے کئی فرقوں نے تعینِ ذات مہدی کے لیے حدیثیں بھی وضع کیں۔