حضرت شیخ فریدالدین ناگوری
حضرت شیخ فریدالدین ناگوری (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ فریدالدین ناگوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ سلطان التارکین شیخ حمید الدین صوفی کے حقیقی پوتے، مرید، خلیفہ اور جانشین تھے، آپ نے شیخ حمیدالدین ہی کے سایہ عاطفت میں تربیت و پرورش پائی، شیخ فریدالدین نے اپنے دادا شیخ حمیدالدین صوفی کے ملفوظات بنام ’’سرور الصدور‘‘ جمع کیے ہیں، سلطان محمد تغلق کے زمانے میں ناگور سے آپ دہلی تشریف لائے تھے، قطب صاحب کے مزار کے راستے میں جے منڈل کے مشرقی جانب پرانی دہلی میں آپ کا مزار ہے، آپ رہتے بھی اسی جگہ پر تھے، اسی جگہ پر چکی کا ایک پتھر پڑا ہوا ہے لوگوں میں مشہور ہے کہ شیخ فریدالدین مستی کی حالت میں اس پتھر کو اپنے گلے میں ڈال لیا کرتے تھے اور یہی پتھر گلے میں ڈالے ہوئے ناگور سے دہلی تشریف لائے تھے، واللہ اعلم بالصواب۔
یوں گُموں کے تجھ سے مل جاؤں
یوں گُما اس طرح مِلا یارب
(ذوقِ نعت)
اخبار الاخیار
آپ سلطان التارکین حضرت حمیدالدین ناگوری کے پوتے تھے۔ آپ کے والد بزرگوار شیخ عبدالعزیز صوفی حالتِ سماع میں ہی جوانی کے عالم میں واصل بحق ہوگئے تھے لہٰذا آپ کو دادا نے ظاہری و باطنی علوم میں تربیت دی۔ شیخ حمیدالدین ناگوری کے ملفوظات سرورالصدور کے نام سے جمع کیے آپ کی عمر سو سال سے زیادہ تھی اور ساری زندگی طالبانِ حق کو ہدایت فرماتے رہے۔ سلطان محمد تغلق کے عہد حکومت میں ناگور سے دہلی تشریف لے گئے اور دہلی میں ہی فوت ہوئے۔ آپ کے مزار کے پاس ایک پتھر ہے جو سنگ خراس کی جنس سے ہے۔ یہ گول پتھر ہے یہ بات مشہور ہے کہ شیخ حالت سماع میں اس پتھر کو گلے میں ڈال لیا کرتے تھے اور وجد کرتے اس پتھر کو گلے میں لٹکاکر ناگور سے دہلی پہنچے۔
شجرہ چشتیہ کے مصنف نے آپ کو سال وصال ۷۵۲ھ لکھا ہے۔ آپ کا مزار پر انوار دہلی میں زیارت گاہ عام و خواص ہے۔
چوں فریدالدین فرید دو جہاں
صورت گنج شد در خاک باد
بندۂ خاص است سالِ رحلتش
۷۵۲ھ
ہم فرید فرد عالم پاک باز
۷۵۲ھ
یاد رہے جس سال شیخ زید کا انتقال ہوا اسی سال سلطان محمد عادل تغلق بن سلطان غیاث الدین کا انتقال ہوا تھا یہ بادشاہ ماہ ربیع الاول ۷۲۵ھ میں مسند آرائے تخت ہندوستان ہوا تھا ۲۷ سال حکومت کرنے کے بعد ۲۱ محرم الحرام ۷۵۲ھ کو فوت ہوا۔ یہ بادشاہ عجیب و غریب عادات کا مالک تھا بعض اوقات تو اس کے کارنامے جامع الاضداد بن کر رہ گئے خلیفہ بغداد نے اس کے دربار میں اپنا وکیل بھیجا اس نے اس کا بڑا شاندار استقبال کیا، اور اسے شاہی خلعت سے سرفراز کیا ایک دفعہ اس نے حکم دیا کہ دہلی کو ویران کردیا جائے اور ہر شخص اس کے بسائے ہوئے شہر دولت آباد میں پہنچے اس شہر کو دارالخلافہ بنا دیا دہلی کے خورد و کلاں کو حکم دیا گیا کہ ہر ایک فرد وہلی چھوڑ کر دولت آباد پہنچے۔ اس نقل مکانی، سفر اور قحط کی وجہ سے سے بہت سے لوگ مرگئے، دولت آباد بھی اس کی منشا کے مطابق آباد نہ ہوسکا، اسی بادشاہ نے ایک لاکھ فوج تیار کی اورچین کو فتح کرنے کے لیے روانہ کی کہتے ہیں اس فوج کاایک سپاہی بھی زندہ واپس نہ آسکا، ان بربادیوں اور نقصانات کے باوجود اس کے ملک کے کئی صوبے بنگال، ملنگانہ، پنجاب اور اودھ بغاوت پر اٹھ کھڑے ہوئے، مگر اس بادشاہ نے انہیں اپنی حکمت عملی سے رام کرلیا، البتہ دکن کا علاقہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا، ایک حسن نامی شخص جو بڑا ہی اولوالعزم تھا، اٹھا اس نے دکن پر اپنی سلطنت کی بنیادیں استوار رکھیں اور اس کی اولاد نے اس خطہ پر دو سو سال حکومت کی، یہ بادشاہ حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی کا دلی دشمن تھا ساری عمر آپ کی مخالفت میں لگا رہا مگر حضرت شیخ کے استقلال و تقویٰ کے سامنے اس کی ایک نہ چلی، آخری عمر میں حضرت شیخ کا معتقد اور مرید ہوگیا۔
چوں بصد درد و غم سفر و رزید
از جہاں در جہاں محمد شاہ
سال وصلش شہہ ولایت داں
۷۵۲ھ
نیر نور زماں محمد شاہ
۷۵۲ھ