حضرت شیخ فتح علی موصلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
صاحب ہمت اور عالی قدر بزرگ تھے ورع و مجاہدہ میں مقتدر تھے اپنی ذات پر اللہ کا خوف اور کیفیت حزن طاری رکھتے تھے۔ ہمیشہ گریاں رہتے۔ مخلوق خدا سے علیحدگی کا یہ عالم تھا کہ اپنے احوال کو چھپانے کے لیے اپنے ہاتھ میں چابیوں کا ایک گچھا لٹکائے رکھتے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ آپ بہت سے صندوقوں کے مالک ہیں۔ جہاں جاتے چابیاں اپنے سامنے رکھا کرتے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ کیا ہیں ایک دن ایک صاحب دل نے پوچھا کہ ان چابیوں سے کیا کرتے ہو فرمانے لگے جس دن سے میں نے چابیاں اٹھائی ہوئی ہیں۔ چوروں کی چوری سے چھوٹ گیا ہوں۔
حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات حضرت خواجہ سری سقطی کے گھر سویا ہوا تھا۔ رات کا ایک حصہ گزرا تھا۔ تو حضرت خواجہ پاکیزہ کپڑے پہنے کندھوں پر چادر اوڑھے باہر نکلے۔ میں نے پوچھا۔ اس وقت آپ کہاں جا رہے ہیں، کہنے لگے: حضرت فتح موصلی بیمار ہیں، میں انہیں دیکھنے جا رہا ہوں، رات کو پہرہ دار پولیس نے آپ کو پکڑ لیا، اور رات کو حوالات میں بند کردیا، دوسرے دن حاکم نے حکم دیا کہ تمام حوالاتیوں کو کوڑے مارے جائیں ایک سپاہی نے خواجہ سری سقطی کو کوڑانا مارنا چاہا تو اس کا ہاتھ ہوا میں معلق ہوگیا، اور زور کے باوجود وہاں ہی اکڑ گیا، حاکم نے کہا کوڑا کیوں نہیں مارتے، سپاہی کہنے لگا، میرے سامنے ایک بوڑھا کھڑا ہے وہ مجھے روک رہا ہے، حتی کہ میرا ہاتھ بیکار ہوکر رہ گیا ہے لوگوں نے دیکھا تو فتح موصلی تھے۔ حضرت سری کو آپ کے حوالے کردیا، اور آپ سے معافی کے طلب گار ہوئے۔
ایک دن ایک عارف نے حضرت فتح موصلی سے صدق کے بارے میں دریافت کیا، آپ نے ایک لوہار کی بھڑکتی ہوئی بھٹی میں اپنا ہاتھ رکھا، اور لوہے کا اک آتشین ٹکڑا پکڑ کر باہر لائے، اور ہتھیلی پر رکھ کر فرمایا کہ صدق اس کا نام ہے۔
حضرت شیخ فتح موصلی عیدالاضحیٰ کے دن ۲۱۹ھ کو فوت ہوئے عیدالاضحیٰ کو لوگ قربانی دے رہے تھے۔ آپ نے آسمان کی طرف منہ کیا اور کہا اے اللہ! تم جانتے ہو، میرے پاس قربانی کے لیے کچھ نہیں ہے، میری جان حاضر ہے، اسے ہی قبول فرمالے۔ انگشت شہادت گلے پر رکھی اور جان، جانِ آفرین کے سپرد کردی۔
ہست تاریخ آن خدا آگاہ
سالِ ترحیل دے عیاں گردو
|
|
قطب حق یا محب حقانی ۲۱۹ گر تو سلطانِ اہل دل خوانی ۲۱۹
|
(خزینۃ الاصفیاء)
//php } ?>