حضرت شیخ فتح اللہ لودھی
حضرت شیخ فتح اللہ لودھی (تذکرہ / سوانح)
آپ حکیم شیخ صدرالدین کے خلیفہ تھے۔ ابتدائی عمر میں آپ دہلی کے عالموں میں سے تھے اور کئی برس تک جامع مسجد دہلی کے نیچے منار شمسی کے مدرسہ میں مسند افادیت و تعلیم پر رونق افراز رہے۔ آخر کار حکیم شیخ صدرالدین سے بیعت ہوئے اور انھیں کے واسطہ سے سلوک کی منازل کو طے کیا۔
کہتے ہیں کہ آپ نے بے انتہا ریاضت کی لیکن عالم بالا کی روح پرور ہواؤں سے اچھی طرح محفوظ نہ ہوسکے۔ اپنی اس کیفیت کی آپ نے جب اپنے شیخ سے شکایت کی تو انھوں نے فرمایا کہ پڑھنا پڑھانا چھوڑ دو اور کتابوں کی دنیا کو اپنے دل سے نکال دو، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا، البتہ چند عمدہ کتابیں اپنے پاس رکھ لیں، باب معرفت کھلنے میں جب دیر لگی تو اپنی وہ کتب جو اپنے پاس رکھی تھیں کسی کو دے دیں لوگوں نے دیکھا کہ جب آپ دریا کے کنارے بیٹھ کر کتابوں کے اوراق کو دھویا کرتے تھے تو آپ کی آنکھوں میں لگاتار آنسو جاری ہوا کرتے تھے چنانچہ بہت مدت تک آپ یوں کرتے رہے بالا آخر آپ کے دل کی تختی ماسوی اللہ سے بالکل پاک و صاف ہوگئی اور ظاہری علم کے عوض میں باطن کے علم سے نواز دیے گئے۔
شیخ قاسم اودھی آپ کے ارادتمند اپنی کتاب آداب السالکین میں لکھتے ہیں، کہ جانماز، تسبیح، کنگھا، عصا، قینچی، سوئی، لوٹا، کاسہ، نمک دان، طشت جوتا، کھڑاؤں، ان تمام چیزوں سے آپ کی ایک خاص مراد ہوا کرتی تھی چنانچہ جانماز سے اطاعت و عبادت میں ثابت قدمی۔
تسبیح سے دل جمعی، یعنی دل میں پریشان کن اور جو متفرق حالات تھے وہ سب جمع ہوگئے ہیں اور یہ تمام خطرات جمع ہوکر اب ایک خطرہ بن گیا ہے جس طرح کہ تسبیح کے تمام دانے اکٹھے ہوچکے ہیں۔
کنگھا سے شروفساد کا دور ہوجانا مراد ہے۔
عصا سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد بھروسہ مراد ہے۔
قینچی سے دنیا کی خرابیاں اور بُرے خیالات کا ختم ہوجانا مراد ہے۔
سوئی سے صورت و معنیٰ، ظاہر و باطن ایک طریقہ پر بنا لیا مراد ہے، لیکن سوئی بغیر دھاگے کے نہیں دیتے تھے، ع
سوزنن و رشتہ از پئے پیوند!
آں بددایں بدوست حاجت مند
لوٹا اور کاسہ سے یہ مراد ہوتا کہ فقیر اور درویش مال جمع نہیں کرتے بلکہ وہ ہمیشہ روٹی اور نان کے محتاج رہتے ہیں، اور جو کچھ اللہ کی طرف سے ملے اُسے فقیروں اور درویشوں کو کھِلا دو اور پِلادو۔
نمک دان و طشت اور آفتابہ سے آپ کی مراد یہ ہوتی تھی کہ بزرگوں کا درع اور تقویٰ اس کے حوالہ کردیا گیا ہے۔
جوتے اور کھڑاؤں سے ثابت قدمی اور ثبات علی الاسلام مراد ہوتا تھا، اور جب کسی کو کنگھی دیتے تو اسے کپڑے یا کاغذ میں لپیٹ کر دیا کرتے تھے، اس لیے کہ یہ بالوں کو جدا جدا کرنے والی چیز ہے (کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اس سے جُدائی اور علیحدگی پر دلالت کرنے لگیں اس لیے بند کرکے دیتے ہیں) اور اسی طرح اگر کسی کو چاقو دیتے تو اُسے بھی بند کرکے دیتے تھے اور اس کے ساتھ خربوزہ یا گوشت کا ٹکڑا بھی دیا کرتے تھے، اسی طرح لوٹا یا اس کی مثل اور کوئی چیز دیتے تو اسے پانی سے بھر کردیتے اور فرمایا کرتے کہ جب کنگھی کو کنگھی دان میں رکھا جائے تو اس کے دندانے اندر کی طرف ہونے چاہئیں کیونکہ کنگھی ہی بالوں کو جدا کرنے کے لیے بڑا آلہ ہے اس لیے جو آلہ تفریق کا سبب ہے اس کی دُوری واضح کرنے کے لیے دندانے اندر کی جانب رہنا بہتر ہے۔
اخبار الاخیار
حضرت شیخ فتح اللہ لودھی(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شیخ فتح اللہ لودھی کاملین وقت سےتھے۔
اوائل زندگی:
آپ کی شروع کی زندگی درس وتدریس میں گزری۔آپ علمائےکرام دہلی سے تھے۔
بیعت وخلافت:
آپ حضرت شیخ صدرالدین طبیب دلہاکےمریداورخلیفہ تھے۔۱؎
پیرومرشدکی ہدایت:
آپ کوباوجودبہت مجاہدوں کےکچھ حاصل نہ ہوا۔آپ کواس بات کارنج ہوا۔آپ نےاپنے پیر و مرشدسےشکایت کی۔آپ کےپیرومرشدنےآپ سے فرمایا۔
"شغل درس و تدریس چھوڑدواورساری کتابیں طلباء میں تقسیم کردو"۔
آپ نےچندخاص کتابیں رکھ لیں اورباقی کتابیں تقسیم کردیں۔لیکن پھربھی کوئی فائدہ نہ ہوا،جب ان کتابوں کوبھی علیحدہ کردیاتوآپ درجہ کمال کوپہنچے۔
وفات:
آپ نے۸۲۱ھ میں انتقال فرمایا۔۲؎
خلفاء:
آپ کے خلیفہ حسب ذیل ہیں۔
حضرت شیخ قاسم لودھی اورحضرت شیخ محمد عیسیٰ جونپوری۔
سیرت:
آپ کوسماع کابہت شوق تھا،آپ استغراق میں محورہتےتھے۔
حواشی
۱؎السالک السالکین(جلددوم)ص۲۲۴
۲؎السالک السالکین(جلددوم)ص۵۲۴
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)