حضرت حاجی محمد نوشاہ کے فرزند عالیجاہ اور خلیفہ آگاہ[1] تھے۔ صاحبِ زہد و ریاضت و ذوق و شوق اور وجد و سماع، متقی اور مہمان نواز تھے۔ رات دن جذب اور استغراق اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ میں گزار دیتے تھے۔ خوراق اور کرامات بے شمار آپ سے ظہور میں آتی تھیں۔
ایک دن آپ کو اپنی زمین سیراب کرنے کیلئے چرغِ چوب ۔۔۔۔
حضرت حاجی محمد نوشاہ کے فرزند عالیجاہ اور خلیفہ آگاہ[1] تھے۔ صاحبِ زہد و ریاضت و ذوق و شوق اور وجد و سماع، متقی اور مہمان نواز تھے۔ رات دن جذب اور استغراق اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ میں گزار دیتے تھے۔ خوراق اور کرامات بے شمار آپ سے ظہور میں آتی تھیں۔
ایک دن آپ کو اپنی زمین سیراب کرنے کیلئے چرغِ چوب کی ضرورت پڑگئی جو آپ نے ایک زمیندار بھیرو نام سے ایک دن کے لیے مستعار مانگی۔ وُہ بہانہ کر کے ٹال گیا کہ میرا کنواں خراب ہوجاتا ہے۔ آپ نے فرمایا: خراب ہی ہوجائے گا۔ چنانچہ اُسی روز اس کی عمارتِ چاہ گِر گئی۔ جتنی بار تعمیر کی، قائم نہ رہی۔ نیز تذکرہ نوشاہی میں ہے کہ ایک روز حافظ صاحب پر حالتِ جذب و استغراق طاری تھی اپنے خسر کے گھر بیٹھے ہوئے تھے۔ گھر کے سامنے ایک زمیندار کی لڑکی چرخہ کات رہی تھی اور ساتھ ساتھ کچھ گا بھی رہی تھی اس کے سرور نے آپ پر حالتِ وجد طاری کردی۔ لڑکی کے خاموش ہونے پر فرمایا: اے لڑکی ایک بار پھر اسی طرح نغمہ سرائی کر۔ لڑکی شرم کے مارے چپ رہی اور اٹھ کر گھر کے اندر چلی گئی۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اس کے پیٹ میں سخت درد اٹھا، اس کی حالت نزع تک پہنچ گئی۔ علاج معالجہ سے کچھ افاقہ نہ ہُوا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر اس کے والدین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معذرت چاہی۔ آپ نے فرمایا: اسے میرے رُو برو لاؤ۔ جب لڑکی آپ کے سامنے حاضر ہوئی، فرمایا: اے لڑکی! پھر اسی طرح نغمہ گا اِن شاء اللہ اچھی ہوجائے گی۔ چنانچہ اس نے وہی نغمہ اُسی انداز میں گایا۔ آپ کی توجہ سے اُسی وقت صحت یاب ہوگئی۔ حافظ برخوردار نے اقوال صحیح کے مطابق ۱۱۳۰ھ میں وفات پائی ؎
شیخِ برخوردار پیرِ کا مگار! حافظ عالم بگو تاریخِ او! ۱۱۳۰ھ
|
|
شد چو از دنیا بجنت یافت جا نیز فرما دوستدارِ مجتبےٰ[2] ۱۱۳۰ھ
|
[1]۔ شیخ حافظ برخوردار المخاطب بہ بہرالعشق اپنے والد بزرگوار حضرت نوشہ گنج کے بعد سجادہ نشین ہوئے اور انتیس (۲۹) سال تک مسندِ خلافت پر رونق افروز رہ کر مخلوقِ خدا کو حقیقت و معرفت کی منازل پر پہنچایا۔ ان کے مفصل حالات سید شرافت نوشاہی نے کتب ’’ارشاد الاخیار‘‘ اور کتاب ’’مقامات برخورداریہ‘‘ المعروف خلیفۂ اعظم میں لکھے ہیں اور ان کی سجادگی کے دلائل و شبات میں کتاب ’’سجادہ نشین‘‘ تصنیف کی ہے۔
[2]۔ حافظ برخوردار کا صحیح سالِ وفات ۱۰۹۳ھ ہے (اذکار نوشاہیہ ص۵۰ تصنیف شرافت)۔