آپ حضرت شاہ سلیمان قادری کے اکابر خلیفوں سے تھے۔ آپ مادرزادولی اللہ، صاحب جذب اور صحو و سُکر اور محبت و عشق اور شوق و ذوق اور زہد و ریاضت تھے۔ ولایت کے بادشاہ اور صاحبِ خوارق و کرامات تھے۔ طریقہ نوشاہیہ قادریہ کے امام اور پیشوا تھے۔ فقر میں مقاماتِ بلد اور شانِ ارجمند رکھتے تھے۔
آپ کے والد بزرگوار حاجی علماءالدین بڑے عابد بزرگ تھے۔ سات(۷) حج کیے ہوئے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ بی بی جیونی موضع گھوگا نوالی میں سکونت رکھتی تھیں۔ جب آپ بی بی جیونی کے شکم میں تھے تو آپ کے والد ماجد کو بیت اللہ شریف جانے کا اتفاق ہوا۔ رخصت کے وقت اپنی اہلیہ صاحبہ کو تاکید کی کہ جو فرزند تمہارے پیٹ میں ہے، یہ مقتدائے زمانہ اور فرد یگانہ ہونے والا ہے۔ جب یہ متولد ہو تو اس کی تربیت و پرورش میں پوری پوری کوشش کرنا۔ ان کے بعد حضرت شاہ سلیمان اپنے مسکن(بھلوال) سے چل کر بی بی صاحبہ کے پاس تشریف لائے اور بشارتیں دیں۔ پیدا ہونے والے بچّے کی تربیت کے متعلق بہت تاکیدیں کیں۔ جب آپ پیدا ہوئے تو پھر حضرت شاہ سلیمان تشریف لائے، حضرت نو شاہ کو گود میں لیا اور بڑی مہربانیاں کیں اور اپنے خرقہ سے ایک ٹکڑا الگ کر کے آپ کو پہنا دیا اور خود واپس چلے گئے۔
جب حضرت نوشاہ نو ماہ کی عمر کو پہنچے، ایک دن جُھولے میں سوئے ہوئے تھے۔ آپ کی والدہ صاحبہ آٹا خمیر کر رہی تھیں۔ اچانک ایک ہمسایہ عورت جو بی بی صاحبہ کی ارادت مندوں سے تھی، آئی اور جُھولا کے پاس جاکر آپ کے چہرہ مبارک سے کپڑا اٹھایا اور اپنی گود میں لینا چاہا، دیکھا تو ایک سیاہ سانپ سر سے پاؤں تک حضرت نو شاہ عالیجاہ سے لپٹا ہوا ہے، وُہ ڈر کے پیچھے ہٹی اور چلّائی۔ جب بی بی جیونی نے اس کی چیخ سُنی، بچّے کے پاس جا کر دیکھا تو کوئی سانپ نہیں تھا، حیران ہوگئیں۔ اسی اثناء میں گوشہ سے آواز آئی کہ یہ عورت ناپاک حالت میں چاہتی تھی کہ ہاتھ ہمارے جسم کو لگائے اس لیے اس کام سے اس کو باز رکھا، حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
جب حضرت نوشہ صاحب پانچ برس کے ہُوئے تو آپ کے والد بزرگوار سفرِ حج سے واپس تشریف لائے آپ کو ایک حافظ و قادری کے پاس قرآن پڑھنے کے لیے بٹھادیا۔ آپ نے چند ماہ میں قرآن مجید حفظ کرلیا۔ ایک سال کے بعد آپ کے چھوٹے بھائی شیخ اسمٰعیل پیدا ہوئے۔
جب حضرت نوشاہ سترہ سال کی عمر کو پہنچے تو دنیا کو ترک کر کے اور اپنے اقارب کے میل ملاپ سے کنارہ کش ہو کر ساندل[1] بار میں جہاں بڑا جنگل تھا، چلے گئے۔
آپ کے والدین بڑی تلاش کے بعد وہاں پہنچے اور بڑی مشکل سے آپ کو اپنے پاس لائے اور موضع نوشہرہ میں ایک بزرگ گھرانہ میں آپ کی شادی کردی۔ آپ نے موضع نوشہرہ میں رہائش اختیار کرلی۔ چھ(۶) سال تک ساری رات دریا کے کنارے پر کھڑے ہو کر یادِ الٰہی میں گزارتے رہے اور سارا دن نوشہرہ کی مسجد میں تلاوتِ قرآن کریم میں مشغول رہا کرتے۔
شیخ محمد حیات صاحبِ تذکرہ نوشاہی لکھتے ہیں کہ جن دِنوں آپ سسرال کے ہاں اقامت پذیر تھے۔ ایک شخص نے آپ سے آکر کہا: ملّا کریم الدین ساکن موضع جو کالی نے اپنے مرشد شاہ سلیمان قادری سے جو موضع بھلوال علاقہ بھیرہ میں سکونت رکھتے ہیں اُن سے فیضِ عظیم پایا ہے اور اس وقت وہ مقبولِ حق ہے۔ اگر آپ بھی اُن کی وساطت سے شاہ سلیمان قادری کی خدمت میں حاضر ہوں تو نہایت ہی فائدہ مند ہوگا۔ چنانچہ ملّا کریم الدین کے پاس پہنچے اور انہیں ساتھ لے کر حضرت شاہ سلیمان قادری کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے جُونہی انہیں دیکھا تو فرمایا: اے نوجوان خوش آمدید، بڑی انتظار کرائی۔ آؤ ہمارا گھر تمھارا ہی گھر ہے اور جو کچھ میرے پاس ہے تیری ہی امانت ہے۔ آپ اسی وقت حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے اور خدمتِ مرشد میں حاضر رہ کر عرفان و معرفت کے اعلیٰ مقام پر پہنچے۔ تکمیلِ سلوک کے بعد مرشد نے خرقۂ خلافت پہنایا اور نوشاہ گنج بخش کے خطاب سے نوازا۔ مرشد کو آپ کی ذات پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے مریدوں اور اپنے دونوں فرزندوں تاج[2] محمد اور رحیم داد کو بھی تہذیب و تکمیل کے لیے آپ کے سپرد کردیا۔
صاحبِ تذکرہ نوشاہی لکھتے ہیں کہ مشہور یہ ہے کہ حضرت نوشاہ قوم گلگو سے تعلق رکھتے ہیں مگر اصل حقیقت یہ ہے آپ قومِ گلگو سے نہ تھے بلکہ قوم کھکرو[3] (کھوکھر) سے تھے۔ اس قوم سے مشہور ہوجانے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے بزرگوں میں سے کوئی بزرگ اپنی حکومت اور سرداری کے زمانے میں اس قوم کی ایک حسین و جمیل لڑکی پر عاشق ہوگئے تھے اور اس کے عشق میں ایسے ازخودرفتہ ہوئے کہ اُسی قوم کے طور طریقے اختیار کرلیے۔ آخر یہ عشقِ مجازی عشقِ حقیقی میں تبدیل ہوگیا اور آپ زمرۂ اولیاء میں آگئے۔ اُس وقت سے لے کر اِس وقت تک آپ کے بزرگوں میں پشت بہ پشت ولایت چلی آرہی ہے۔ چنانچہ آپ کے عم بزرگوار شیخ[4] رحیم بڑے پایہ کے بزرگ اور صاحب ولایت تھے۔ اور انہوں نے اپنے بھائی علاءالدین کو بشارت دی تھی کہ میں دیکھ رہا ہُوں کہ تمھارے گھر ایسا فرزند پیدا ہوگا کہ اپنے عہد میں ظاہر و باطن کا بادشاہ ہوگا۔
نقل ہے ایک ساربان اپنی نابینا بیوی کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اس امید پر کہ شید آپ کی دُعا کی برکت سے یہ بینا ہوجائے۔ چنانچہ آپ نے ساربان کی بیوی کو اپنے سامنے بٹھا کر کہا: آنکھیں کھول اور میری طرف دیکھ۔ وہ اسی وقت بینا ہوگئی۔
حافظ معموری جو حضرت نوشاہ کے مرید خلیفہ تھے، بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں حاضرِ خدمت تھا میرے دل میں خیال گزرا کہ روزِ حشر تمام قومیں اپنے اپنے فرقوں میں بٹ جائیں گی اور ہر گروہ کو عَلم دیئے جائیں گے او ہر فرقہ اپنے سردار کے عَلم کے نیچے ہوگا آیا یہ مسئلہ درست ہے یا نہیں۔ میں جب اُس رات سویا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قیامت برپا ہے، لوگوں کا بڑا ہجوم ہے بے شمار عَلم نظر آرہے ہیں۔ اُن میں ایک عَلم سب سے بلند دیکھا۔ آواز آئی یہ علم غوث الاعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی کا ہے۔ جب میں نے نوشاہ عالیجاہ کا علم تلاش کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت نوشاہ اُس عَلم کے نیچے اپنے یاروں کے ساتھ ایک بلند تخت پر بیٹھے ہیں۔ آپ نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا: حافظ معموری آجاؤ تمھاری جگہ بھی اسی عَلم کے نیچے ہے۔ جب صبح کو میں حاضرِ خدمت ہوا، ابھی خاموش ہی تھا کہ آپ نے متبسم ہو کر فرمایا: حافظ معموری مسئلہ یوم الحشر اور علموں(جھنڈوں) کا نصب ہونا جس طرح تم نے دیکھا اُسی طرح ظہور میں آئے گا۔
صاحبِ تذکرۂ نوشاہی بیان کرتے ہیں۔ ایک شخص جیون نامی حجام آپ کے مریدوں سے تھا۔ موضع باہو کے میں رہتا تھا۔ ایک روز اس نے عرض کیا: اگر حضرت میری کھیتی پر تشریف لائیں تو میرے لیے باعثِ عزت و برکت ہوگا۔ آپ نے اس کی التجا منظور فرمائی اور اسی وقت چل پڑے چونکہ موضع باہو کے موضع نوشہرہ سے قریباً دو کوس کے فاصلے پر تھا اور نمازِ عصر کا وقت تھا۔ خدام نے چاہا کہ پہلے نماز ادا کریں، پھر چلیں گے یارانِ طریقت یہ سُن کر خاموش ہوگئے مگر سب کے دل میں یہ خدشہ تھا کہ وہاں پہنچنے تک نماز قضا ہوجائے گی مگر جب آپ وہاں پہنچے تو سُورج ابھی تک اُسی جگہ قائم تھا۔ دیر تک وہاں آرام کیا اور نماز ادا کرنے کا خیال تک نہ تھا، سورج بھی اس سےآگے نہیں ہوتا تھا۔ اس کے بعد جیون حجام کی زمین پر جا کر نماز پڑھی۔ نماز ادا کرنے کے بعد حاضرینِ مجلس سے فرمایا: دوستو! خداوند تعالیٰ کے بندے اب بھی ایسے موجود ہیں کہ اگر وُہ چاند سورج کو یہ حکم دیں کہ وُہ ٹھہر جائیں تو وہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کریں گے۔
شیخ تاج الّدین حافظ معموری کے فرزند اور آپ کے نواسہ تھے ان کی زبانی صاحبِ تذکرۂ نوشاہی رقمطراز ہیں۔ ایک رات حضرت نوشاہی بستر پر لیٹے ہوئے فرمارہے تھے کہ یکایک ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے: نہ مارو، نہ مارو۔ آپ کے انداز سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی کو منع فرما رہے ہیں۔ صبح یارانِ طریقت نے حاضر ہوکر اس راز کو دریافت کرنا چاہا فرمایا: ابھی معلوم ہوجائے گا کہ فوراً اسی وقت شمشیر نامی شخص جو موضع پانڈو وال کا چودھری تھا حاضرِ خدمت ہُوا، آپ نے دیکھتے ہی فرمایا: کیوں چودھری رات خیریت سے گزری عرض کیا: حضور کی توجہ سے جان بچ گئی۔ آج رات میں سو رہا تھا کہ دشمنوں نے میرے قتل کا ارادہ کیا۔ تجویز یہ سوجی کہ پہلے چالیس پچاس آدمی موضع پانڈو وال پر حملہ کریں۔ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اپنے پیچھے اُٹھاکر باہر نکال لائیں۔ کچھ آدمی گھات میں چھپ کر بیٹھ جائیں جب میں اُن کے قریب پہنچوں تو وہ وُہ مجھ پر حملہ کر کے مجھے قتل کردیں۔ پس جب انہوں نےگاؤں پر حملہ کیا مَیں اور میرے ساتھی مقابلے کے لیے نکلے۔ رات بڑی تاریک تھی، ہم ادِھر اُدھر بکھر گئے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی کہ کس طرف ہو؟ دشمن جو کمیں گاہ میں چُھپے بیٹھے تھے انہوں نے آواز دی: اِدھر آجاؤ۔ میں ان کی طرف چل پڑا۔ قریب پہنچا تو معلوم ہُوا یہ میرے رفیق نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ وہ نیزوں اور تلواروں سے مُجھ پر پل پڑے۔ اس وقت حضرت نوشہ کا نام بے اختیار میری زبان پر آگیا۔ آپ سے استمداد چاہی۔ کیا دیکھتا ہُوں کہ آپ بذاتِ خود وہاں تشریف فرما ہیں۔ آپ کو دیکھتے ہی میں بیہوش ہو کر گِر پڑا۔ جب ہوش میں آیا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا اور دشمن بھاگ چکے تھے۔
نقل ہے: ایک روز موضع ساہن پال کے زمیندار آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، کم زراعتی اور اہل دیہہ کی خستہ حالی بیان کی اور عرض کیا: ان حالات میں بھی دو ہزار(۲۰۰۰) روپیہ معاملہ کا سرکاری خزانہ میں جمع کرانا ہے۔ آپ نے فرمایا: اپنے گاؤں کا معاملہ کتنا ادا کرسکتے ہو؟ عرض کیا: اگر نوسو روپے مقرر ہو جائیں تو بہ سہولت ادا ہوسکے گا۔ فرمایا: اِن شاء اللہ نوسو روپے ہی مقرر ہوجائیں گے۔ چند روز کے بعد صوبہ دار لاہور نے گاؤں کے چودھری کو بُلایا اور نوسو(۹۰۰) روپیہ گاؤں کا سالانہ معاملہ مقرر کردیا مگر چودھری نے اپنے ذاتی طمع کی وجہ سے گاؤں والوں پر ایک ہزار(۱۰۰۰) روپیہ ظاہر کیا۔ جب یہ خبر آپ کے کانوں تک پہنچی تو چودھری کو بُلا کر فرمایا کہ موضع ساہن پال کا معاملہ تو نَوسو (۹۰۰) روپیہ لوح محفوظ پر لکھا گیا ہے تو ایک ہزار روپیہ کیوں ظاہر کرتا ہے۔ چودھری سخت شرمندہ ہو کر معذرت خواہ ہوا۔
تذکرۂ نوشاہی میں لکھا ہے: حضرت نوشہ عالیجاہ کا یہ طریقہ تھا کہ اگر مسجد میں مسافر و مساکین جمع ہو جاتے تو اُن کے لیے پہلے تو اپنے گھر سے طعام مہیّا کرتے پھر تمام گاؤں والوں کے پاس جا کر اکٹھا کرتے۔ ایک روز مسمّی مستی نام رانجھ کے گھر گئے اور طعام طلب کیا۔ وہ خود گھر میں موجود نہیں تھا اُس کی بیوی بڑی کنجوس تھی۔ آٹے والا برتن ران کے نیچے چھپا کر کہا: آج گھر میں آٹا نہیں ہے آپ خاموش واپس آگئے مگر آٹے والا برتن اسی وقت اس کی ران کے ساتھ چمٹ گیا۔ بڑی کوشش کرنے کے باوجود جُدا نہ ہوا۔ اس عورت کا خاوند یہ حال دیکھ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بڑی عاجزی و انکساری سے معذرت چاہی اور خلاصی کے لیے استدعا کی۔ فرمایا: خلاصی پائے گی۔ چنانچہ آٹا اسی وقت اس عورت کی ران سے جُدا ہوگیا۔ صاحب تذکرہ نوشاہی کے قول کے مطابق حضرت نوشاہ عالیجاہ نے ۱۱۰۳ھ میں بہ عہد اورنگِ زیب عالمگیر وفات پائی۔
حضرت نوشہ شاہِ باکمال!! باز سال ارتحالِ آں جناب |
|
زیرِ فریاں یافت چوں ملکِ جناں |
|
||
|
||
|
||
|
||
|
ایضاً
ز دنیا شد چو در خلدِ معلّٰے |
|
جنابِ شاہِ نوشاہِ دل آگاہ |
[1]۔ ’’ساندال بار‘‘ نہیں بلکہ ’’گوندل بار‘‘ ہے جو گجرات کی تحصیل پھالیہ و ضلع میں سر گودھا کو محیط ہے۔ ساندل با ضلع شیخو پورہ دلائل پور ہے اور ان علاقوں میں حضرت نوشہ کا آنا ثابت نہیں۔
[2]۔ تاج محمد نہیں بلکہ تاج محمود ہے۔ (تذکرہ نوشاہیہ قلمی واز کار نوشاہیہ)۔
[3]۔ نوشاہی خاندان کے پرانے شجروں اور خطّی بیاضوں میں حضرت نوشہ گنج بخش کو علوی النسب لکھا ہے اور آپ کی تمام اولاد اسی نسب کو مستند سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس کتاب ’’نسب نامۂ سادات‘‘ خطی ورق ۷۰/۷۱ نمبر کتاب ۲۲۰۹ ذخیرہ شیرانی کتاب خانہ دانش گاہ پنجاب لاہور اور تحفۃ الفقراء میں آپ کو حلبی گیلانی سادات سے لکھا ہے نیز یہ بھی مدّنظر رہے کہ کسب سے نسب نہیں بدلتا، جیسا کہ حضرت سید امیر کلال نے برتن بنانے کا کام کیا تو ان کی سیادت میں فرق نہیں آیا۔ تذکرہ نوشاہیہ میں جو کھوکھر لکھا ہے اس سے مراد وُہ کھوکھر ہے جو سیّد عون قطب شاہ علوی بغدادی کے بیٹے سیّد زمان علی الملقب بہ کھوکھر کی اولاد سے ہیں۔ اس مسئلہ میں سیّد شرافت نوشاہی نے دو کتابیں انوار السیادت اور سیادت علویہ لکھی ہیں اور سیّد ابو الکمال برق ؔ صاحب نے لوامع البرکات فی تحقیق السادات لکھی ہے۔ محققین ان کتابوں کو ملاحظہ فرمائیں۔
[4]۔ شیخ رحیم اللہ غلط لکھا گیا ہے ان کا صحیح نام رحیم الدین ہے۔ (تذکرہ نوشاہیہ قلمی)۔
[5]۔ حضرت نوشہ گنج بخش قادری رحمہ اللہ اور دیگر نوشاہی بزرگوں کی تواریخ وفات مفتی غلام سرور مرحوم نے غلط لکھی ہیں۔ حضرت نوشہ قدس سرہٗ کی خانقاہ کے موجود الوقت سجادہ نشین سیّد شریف احمد شرافت نوشاہی جو جیّد عالم، بلند پایہ مصنف اور محقق بزرگ ہیں، نے اپنی جملہ تصانیف میں خاندانی قلمی کتب کے حوالوں سے حضرت نوشہ کا سالِ وصال یہ لکھا ہے: حضرت نوشاہِ عالی جاہ کی وفات بروز سہ شنبہ ۸؍ ربیع الاول ۱۰۶۴ھ مطابق ۱۷۔ جنوری ۱۶۵۴ء بہ عہدِ شاہ جہان بادشاہ ہوئی۔ آپ کا روضۂ اطہر بمقام ساہن پال شریف (ضلع گجرات) گاؤں سے نصف میل شمال کی طرف مرجع خلائق ہے۔ مادۂ تاریخ ’’فیض قدسی‘‘ ہے۔ (اذکار نوشاہیہ مولفہ شرافتؔ نوشاہی ۳۳)
شرارفتؔ صاحب نے محققانہ انداز میں اس امر کی بھی تحقیق کی ہے کہ مفتی صاحب سے یہ غلطی کیوں ہوئی۔ لکھتے ہیں:
’’مفتی غلام سرور لاہوری (متوفیٰ ۱۳۰۷ھ) نے کتاب خزینۃ الاصفیا جلد اول میں جو ۱۲۸۰ھ میں تصنیف کی ہے، تحریر کیا ہے کہ حضرت نوشہ گنج بخش کی وفات ۱۱۰۳ھ میں ہُوئی اور اس پر حوالہ ’’تذکرہ نوشاہیہ‘‘ کا دیا ہے حالانکہ اس میں بہ تصریح ۱۰۶۴ھ لکھا ہے، جیسا کہ اوپر درج ہوچکا ہے۔ (حقیقت یہ ہے کہ ) مفتی صاحب کو حوالہ سمجھنے میں غلطی لگ گئی ہے، جس کے وجوہات یہ ہیں:
حضرت مرزا احمد بیگ لاہوری نے ’’مقامات حاجی بادشاہ‘‘ الموسوم بہ رسالہ ’’الاعجاز‘‘ حضرت نوشہ صاحب کے حالات و کرامات میں لکھا، جو بعد میں بنام ’’رسالہ احمد بیگ‘‘ مشہور ہوگیا۔ یہ رسالہ حضرت نوشاہ عالم کی وفات سے تینتالیس(۴۳) سال کے بعد کی تصنیف ہےاور خاندانِ نوشاہی کے تذکروں میں اس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
حضرت سیّد حافظ محمد حیات ربّانی کو ۱۱۴۶ھ میں رسالہ احمد بیگ کا ایک نامکمل نسخہ ملا، جس کے متعلق لکھتے ہیں، ’’اکثر عباراتش ازلبیاری کہنگی ریختہ بود‘‘۔ یعنی بہت پُرانا ہونے کی وجہ سے اس کی اکثر عبارتیں مٹ چکی تھیں، انہوں نے اس کی اصل عبارتوں کو بدستور رہنے دیا اور اپنی طرف سے مزید حالات اضافہ کرکے ’’تذکرۂ نوشاہیہ‘‘ مرتب کیا۔
اب ثابت ہوتا ہے کہ مفتی غلام سرور لاہوری کو ’’تذکرہ نوشاہیہ‘‘ (قلمی) کی عبارتوں میں اشتباہ و التباس واقع ہوگیا ہے۔ وہ یہ تحقیق نہیں کرسکے کہ اس میں ’’رسالہ احمد بیگ‘‘ کی کون سی عبارت ہے اور تذکرہ کی کون سی۔ چنانچہ ایک جگہ مرزا احمد بیگ لکھتے ہیں: ’’ہنگامِ نوشتنِ رسالہ کہ بعد از وصال حضرت شاہ چہل وسہ سال گزشتہ بود‘‘۔ (یعنی رسالہ تصنیف کرنے کے دوران میں جب کہ حضرت نوشہ صاحب کی وفات کو تینتالیس(۴۳) سال گزر چکے تھے) مفتی صاحب نے اس عبارت کو سیّد حافظ محمد حیات صاحب کی عبارت سمجھا اور چونکہ ’’تذکرہ نوشاہیہ‘‘ کے دیباچہ میں اس کا سالِ تصنیف ۱۱۴۶ھ تحریر تھا۔ اس سے تینتالیس(۴۳) سال تفریق کرکے ۱۱۰۳ھ کو حضرتِ نوشاہِ عالی جاہ کا سنِ وفات قرار دے دیا۔ حالانکہ وُہ عبارت مرزا احمد بیگ کی تھی، جس سے ثابت ہوتا تھا کہ حضرت نوشہ صاحب کی وفات یعنی ۱۰۶۴ھ سے تینتالیس(۴۳) سال بعد یہ رسالہ تصنیف ہُوا، جس سے ۱۱۰۷ھ میں متعیّن ہوتا تھا۔
مرزا احمد بیگ صاحبِ رسالہ اور سیّد حافظ محمّد حیات صاحبِ تذکرہ کا طریقہ ہے کہ وہ حضرت نوشہ صاحب کا نام نامی اپنی اکثر عبارتوں میں بوجہ ادب کے ’’حضرت شاہ صاحب‘‘ یا ’’حضرت شاہ جیو‘‘ لکھا کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کو یہ عبارت نظر پڑی کہ حضرت شاہ جیو کی وفات ۱۰۶۴ھ میں ہُوئی تو انہوں نے شاہ جیو سے حضرت شاہ سلیمان نوری کو مراد لیا، جو حضرت نوشہ صاحب کے پیرِ طریقت تھے اور ۱۰۶۴ھ اُن کا سالِ وفات درج کردیا۔ غالباً اُس کے بھی کسی مادہ تاریخ کے اعداد شمار کرنے میں غلطی لگ گئی تو اُن کی وفات ۱۰۶۵ھ لکھ دی۔ حالانکہ ’’تذکرہ نوشاہیہ‘‘ میں ان کی تاریخ درج ہی نہیں۔ خاندان کے دُوسرے تذکروں ’’روضتہ الزکیہ‘‘ وغیرہ میں اُن کی تاریخ وفات ۱۰۱۲ھ لکھی ہے، جو اس شعر سے ظاہر ہوتی ہے
شاہ سلیمان رفت در دار البقا
’’غیب‘‘ تاریخش سنِ ہجری بجا
۱۰۱۳ھ
مفتی صاحب اگر غور کرتے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ ’’تذکرہ نوشاہیہ‘‘ کے مصنّف حضرت نوشہ صاحب کو ’’حضرت شاہ جیو‘‘ لکھا کرتے ہیں اور اُن کے پیشوا حضرت شاہ سلیمان کو ’’حضرت شاہِ شاباں‘‘۔۔۔۔۔
’’تذکرہ نوشاہیہ‘‘ میں صرف حضرت نوشہ گنج بخش اور آپ کے دونوں بزرگان (شاہ عصمت اللہ و حافظ جمال اللہ) کی تاریخیں ہی درج ہیں۔ ان تینوں کے سوا کسی بزرگ کی تاریخ اس میں تحریر نہیں۔ مفتی صاحب نے حضرت نوشہ صاحب کے فرزندوں اور خلیفوں کے حالات تو ’’تذکرہ نوشاہیہ‘‘ میں سے نقل کیے اور تاریخیں محض اپنے قیساس اور تخمین سے درج کردیں اور ان کو مستند بنانے کے واسطے ’’تذکرہ نوشاہیہ‘‘ کا حوالہ دے دیا، حالانکہ تذکرہ میں ان تاریخوں کا نام تک نہیں۔ کما لا یحفیٰ علیٰ ارباب العلم والتحقیق۔ مقولہ ہے ذلۃ العالِمِ ذلۃ العالَمِ۔ یعنی عالم کی لغزش سارے جہان کی لغزش کا موجب ہوتی ہے۔ یہی امر یہاں واقع ہوا۔ مفتی صاحب کے بعد جس مورّخ نے کوئی کتاب لکھی، چونکہ نوشاہی خاندان کے مستند معتبر تذکرے بوجہ قلمی اور نایاب ہونے کے اُس کی نظر سے نہ گزرے اس نے خزینۃ الاصفیا کو ہی اپنا ماخذ اور چراغِ راہ بنایا اور اسی کی مندرجہ تاریخوں کو اپنی کتاب میں بلا تحقیق درج کردیا‘ اور انہیں کے اعتماد پر ’’تذکرہ نوشاہیہ‘‘ کا حوالہ بھی بغیر ملاحظہ کیے دے دیا‘‘ (اذکار نوشاہیہ از صفحہ ۳۵ تا ۳۹)
حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ اور اُن کے سلسلہ عالیہ کے جملہ بزرگوں، خلیفوں او لاد و احفاد نیز آج تک کے نوشاہی فقرا کے حالات کے لیے ’’شریف التواریخ‘‘ (۳۔جلد) مولّفہ جناب شرافتؔ صاحب، جو تقریباً سات ہزار صفحات پر مشتمل اور ہنوز غیر مطبوعہ ہے، بحرِ زخّار کی حیثیت رکھتی ہے، جناب شرافت صاحب نے سلسلہ نوشاہیہ کی جو گراں قدر علمی خدمات سر انجام دی ہیں، ان کی تفصیل کے لیے کتاب ’’احوال و آثار سیّد شرافت نوشاہی‘‘ مولّفہ محمد اقبال مجددی دیکھنی چاہیے۔