حضرت شیخ حمزہ دہرسوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ شیخ الاسلام بہاؤالدین زکریا کی اولاد میں سے تھے، اور آپ کا سلسلہ میر سید محمد گیسودراز تک پہنچتا ہے۔ آپ بڑے بابرکت، صاحبِ نعمت و کرامت اور دائم العبادت بزرگ تھے، اوقات کے بہت پابند تھے، آپ کی عمر بھی بہت طویل تھی، سلطان بہلول کے زمانہ سے اسلام شاہ کے دَور سلطنت تک زندہ رہے، اوائل عمر میں آپ نے کسی سلطان کے ہاں ملازمت بھی کی تھی، کہتے ہیں کہ ایک رات اس کے محل کی آپ نگرانی کررہے تھے کہ اچانک آپ کے دل میں خیال آیا کہ مجھے اس کا کام کرنا چاہیے جو میری حفاظت کرتا ہونہ اس کا جس کی میں حفاظت کروں، اس خیال کے آنے کے بعد آپ خواجہ معین الدین کے پاس اجمیر چلے گئے اور وہاں جاتے ہی ایک دیوانے سے ملاقات ہوگئی جس کا نام بھی معین الدین ہی تھا چنانچہ آپ نے انہی سے فیض حاصل کیا اور علاوہ ازیں شیخ احمد مجدی کی صحبت سے بھی فیضیاب ہوئے تھے اور اس کے بعد اجمیر سے اپنے وطن دھرسو واپس تشریف لائے جو نارنول سے صرف تین میل کے فاصلہ پرواقع ہے اورپھر مستقل وہیں رہنے لگے، آپ کے والد محترم اور دیگر رشتہ دار نرھر میں رہتے تھے لیکن آپ دھر سو میں اس لیے مقیم ہوئے کہ یہاں کے اکثر سادات عملاً ٹھیک نہ رہے تھے اور اپنے اسلاف کی وضع قطع سے کوسوں دور جاپڑے تھے، آپ ان کی تربیت کرنے کی غرض سے یہاں گئے، چنانچہ آپ نے انھیں ابتداً علم سے روشناس کرانے کے لیے عربی اورفارسی زبان کے دو استادوں کا تقرر کیا، طالب علموں اور فقیروں سے محبت کیا کرتے تھے اور غیب سے اللہ تعالیٰ آپ کے تمام تر اخراجات پورے فرما دیا کرتے تھے چنانچہ آپ کو جتنا کچھ غیب سے ملتا تھا وہ تمام ہی خرچ فرمادیا کرتے تھے اس میں سے کچھ بچایا نہ کرتے تھے اپنے اہل و عیال کو بھی اس میں سے بقدر حصہ دیتے تھے، آپ نے جس دن سے خلوت نشینی اختیار کی اس دن کے بعد نہ خود اور نہ ہی کسی اپنے خادم کو کسی اہل دنیا کی طرف بھیجا۔
آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ ہمیشہ جمعہ کی نماز کے لیے دھر سو سے نار نول آتے، راستے میں لکڑیوں کو جمع کرتے چلے آتے اور جہاں کوئی فقیر مل جاتا تو ان میں سے کچھ لکڑیاں اس کو دے دیا کرتے تھے۔
دُنیا آگ ہے:
آپ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا آگ کی مانند ہے، اس آگ کو اتنا لیا جائے کہ جس کے ذریعہ کچھ پکار کرسکیں اور سردیوں میں گرم رہیں، یہ آگ جب زیادہ ہوجاتی ہے تو جلا کر راکھ کردیتی ہے، آپ کا ایک مرید کہا کرتا تھا کہ آپ نے ایک دن مجھے ایک ریگستان کی جانب بھیجا چنانچہ میں آپ کے ارشاد کے مطابق وہاں چلاگیا مگر ریگزاروں میں تو کوئی چیز کھانے اور پینے کی ہوا نہیں کرتی اس لیے میں بھوک اور پیاس سے سخت پریشان ہوگیا، میں نے اپنے دل ہی دل میں کہا کہ پیر اپنے مریدوں کو وہاں بھیجا کرتے ہیں جہاں پانی کے بجائے دودھ ملا کرتا ہے، اور ایک میرر مُرشِد ہیں کہ جنھوں نے مجھے ایسی جگہ بھیجا ہے جہاں پانی تک میسر نہیں، اسی دَوران بہت دُور ایک گڈریا نظر آیا جو اپنی بکریاں چرا رہا تھا، میں نے اُس کے پاس پہنچ کر کہا کہ تم اپنی مشک سے چند قطرے پانی کے میرے منہ میں ٹپکا دو میں پیاس سے مر رہا ہوں، اس نے کہا کہ اس میں پانی نہیں، بلکہ دودھ ہے اور تھوڑا سا دودھ مجھے دیدیا، اس کے بعد میں آگے روانہ ہوا اور پیاس نے مجھے پھر بےتاب کردیا، چنانچہ اس ریگزار میں اچانک میری نظر ایک نشیبی مقام پر پڑی جہاں میٹھے اور ٹھنڈ سے پانی کا ایک چشمہ تھا، اس سے میں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اس کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ گویا مجھے ازسرنو زندگی مل گئی ہے آپ کی وفات 957ھ میں ہوئی، 25؍ ربیع الثانی کو مغرب کی دورکعت پڑھ چکے تھے کہ تیسری رکعت میں جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ رحمۃ اللہ علیہ
اخبار الاخیار
حضرت شیخ حمزہ دھرسوی(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شیخ حمزہ صاحب کرامت بزرگ تھے۔
خاندانی حالات:
آپ حضرت شیخ بہاءالدین زکریاملتانی رحمتہ اللہ علیہ کی اولادسے ہیں۔آپ کاسلسلہ نسب حضرت سید محمدگیسودرازرحمتہ اللہ علیہ سےملتاہے،آپ کےوالدین نرہرمیں تھے۔
ملازمت:
آپ شاہی لشکرمیں ملازم تھے۔
کایاپلٹ:
ایک رات کاواقعہ ہےکہ آپ شاہی محل کاپہرہ دےرہےتھے۔یکایک آپ کے دل میں خیال آیاکہ "کسی ایسے شخص کی خدمت کرنی چاہیے،جومیری حفاظت کرےنہ ایسے کی جس کی میں حفاظت کروں۔"اس خیال کاآناتھاکہ آپ ملازمت چھوڑ کرتلاش حق میں چل نکلے۔
اجمیرمیں آمد:
آپ اجمیرآئےاورحضرت خواجہ غریب نوازکےمزارکی زیارت سےمشرف ہوئے،اجمیرمیں رہنے لگے۔
حضرت شیخ احمدمجدشیبانی رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت سے بھی مستفیدہوئے۔
اجمیرمیں ایک مجذوب سے ملاقات ہوئی،ان کانام باین تھا،ان سےبھی نعمت وبرکت پائی۔
واپسی:
اجمیرسےواپس اپنےوطن نرہرآئے،کچھ دنوں نرہرمیں رہے۔
دھرسومیں قیام:
نرہرسےسکونت ترک کرکےآپ دھرسوتشریف لائےاوروہیں مستقل سکونت اختیارکی۔ آپ کے دھرسومیں رہنےکی وجہ یہ تھی کہ وہاں جوسیدرہتےتھے،ان کی اخلاقی حالت خراب تھی۔آپ ان لوگوں کوسدھارناچاہتےتھے۔آپ نےان کی تعلیم وتربیت کامعقول انتظام فرمایا۔
وفات:
آپ نے ۲۵ربیع الثانی ۹۵۷ھ کووفات پائی۔۱؎مزاردھرسومیں ہے۔
سیرت:
آپ عبادات ومجاہدات میں مشغول رہتےتھے۔خاندان سادات کی بہت عزت کرتےتھے۔ہر طرح سے ان کی امدادکرتےتھے،آپ کےپاس جونذرانےآتے،آپ سب خرچ کردیتے تھے۔ بیوی بچوں کےحصہ میں جوآتا،وہ ان کودیتے،حصے سے زیادہ نہ دیتے،دنیاسےکنارہ کش ہوکر عزلت میں دن گزارتےتھے،کسی دنیادارکےگھرنہ جاتےتھے۔
فرمان:
آپ فرماتےہیں کہ۔
"دنیاآگ کےمثل ہے،یہ اتنی ہی کافی ہے کہ جس سے کوئی چیزپکاکرکھالیں اورسردی میں گرم ہوجائیں،جب زیادہ ہوجاتی ہےتوجلاکرہلاک کردیتی ہے"۔
حواشی
۱؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)صفحہ ۳۸۳
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)
آپ حضرت شیخ الاسلام زکریا ملتانی قدس سرہ کی اولاد سے تھے نسبت طریقت میر سید گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ سے تھا بڑے عظیم اور باکرامت بزرگ تھے معمور الاوقات اور دائم العبادت تھے سلطان بہلول کے زمانہ اقتدار سے اسلام شاہ کے دور حکومت تک زندہ رہے ابتدائی زندگی میں بادشاہ کی ملازمت کرتے تھے آپ کو قلعہ کی نگرانی دے رکھی تھی ایک رات پہرہ دیتے ہوئے دل میں خیال آیا مجھے اس کی ملازمت کرنا چاہیے جو میرا محافظ بن سکے یہ خیال اتنا پختہ ہوا کہ چند روز بعد اجمیر شریف چلے گئے وہاں ایک دیوانہ مجذوب حمزہ نامی ملا اس سے روحانی فیض ملا بعد میں شیخ احمد مجد شیبانی سے بیعت ہونے اور منازل سلوک طے کرنے لگے اپنے وطن واپس آئے۔ ملازمت ترک کی قصبہ دہر سو جو نارنول سے تین میل کے فاصلہ پر ہے قیام کرلیا۔ دہر سو کے سادات جاہل تھے اور شرافت کی زندگی سے دُور جا چکے تھے آپ نے ان لوگوں کو ظاہری اور باطنی علوم سے آگاہ کیا لوگوں سے نذرانے آتے آپ ان سادات پر خرچ کر دیتے تھے زیادہ فتوحات آنے لگیں تو فقرا و مساکین میں بانٹنے لگے اپنے اہل و عیال کو بھی اتنا ہی حصہ دیتے جتنا عام لوگوں کو نصیب ہوتا تھا۔
اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ حمزہ قدس سرہ نے اپنے ایک مرید خاص کو ریگستان کے علاقہ میں کسی کام کے لیے بھیجا وہ ریگستان میں پیاسہ مرنے لگا اس نے دل میں خیال کیا کہ پہلے بزرگ اپنے مریدوں کا اتنا خیال رکھاتے تھے تو پانی کی بجائے دودھ ملا کرتا تھا۔ میں آج پانی کے قطرے کو ترس ترس کر مررہا ہوں دور سے ایک چرواہا بھیڑ بکریاں ہانکتے نظر آیا جب پاس پہنچا تو دیکھا کہ اس کی بغل میں ایک مشکیزہ ہے جس میں پانی موجود ہے مرید نے کہا میں پیاسہ ہوں اس مشکیزے سے مجھے تھوڑا سا پانی پلادو اس نے کہا اس ریگستان میں پانی کہاں اس میں دودھ ہے اگر چاہو تو پلادوں جتنا پی سکتا تھا پیا کچھ دور چلا تو پیاس نے دوبارہ آلیا بڑا پریشان ہوا سامنے ایک جگہ نظر پڑی میٹھے پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا پاس گیا سیراب ہوکر پیا اور خیال کیا یہ تمام حضرت شیخ حمزہ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت سے ہے۔
صاحب اخبار الاخیار نے لکھا ہے حضرت حمزہ پچیس ربیع الثانی ۹۵۷ھ کو نماز مغرب پڑھ رہے تھے دو رکعت پڑھ لیں تیسری میں سجدہ ریز ہوئے تو واصل بحق ہوگئے۔
مقیم روضہ خلد بریں شُد
جو قطب اولیا مخدوم حمزہ
بگو افضل ولی تاریخ ترحیل
۹۵۷ھ
دگر اہل صفا مخدوم حمزہ
۹۵۷ھ