حضرت شیخ حسام الدین سوختہ
حضرت شیخ حسام الدین سوختہ (تذکرہ / سوانح)
آپ شیخ فخرالدین ابن شیخ الاسلام معین الدین چشتی سنجری کے صاحبزادے تھے۔ محبت کی آگ میں جلے ہوئے اور الفت کے قیدی تھی، آپ خواجہ نظام الدین اولیاء کی صحبت سے فیض یافتہ تھے، آپ کا مزار سانبھر میں مغرب کی طرف اجمیر کی سمت میں ہے۔ آپ کے والد بزرگوار نے آپ کا نام اپنے گمشدہ بیٹے کے نام پر رکھا۔
خواجہ معین الدین کی دو بیویاں تھیں، ایک سید وجیہُ الدین مشہدی کی صاحبزادی، جو سید حسین خنگ سوار کے چچا تھے، جن کا مزار اجمیر کے قلعہ کے بالائی حصہ پر ہے۔ اس بیوی کا نام بی بی عصمت تھا اور دوسری کنیز تھیں، جن کا نام امۃ اللہ تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے بوڑھے ہونے تک کوئی شادی نہ کی تھی۔ ایک رات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معین الدین! تو میرے دین کا معین و مددگار ہے، مگر میری سنت چھوڑ رکھی ہے۔ اتفاق سے اسی رات قلعہ نبیلی کا حاکم، جس کا نام ملک خطاب تھا اس علاقہ کے کافروں پر حملہ آور ہوا، وہاں کے ایک راجہ کی لڑکی اس کے ہاتھ لگی۔ ملک خطاب خواجہ صاحب کا مرید بھی تھا اس نے وہ لڑکی خواجہ صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ خواجہ صاحب نے اس کو قبول فرمالیا، وکذا فی تاریخ بلاد جانی۔
نیز سید وجیہ الدین مشہدی کی ایک لڑکی تھی، جو عفت کے کمال سے آراستہ اور عصمت کے پیرایہ میں پیراستہ تھی۔ یہ لڑکی حد بلوغ کو پہنچ چکی تھی، لیکن کفو کے وجود پر موقوف تھی۔ سید صاحب نے کے ایک رات خواب میں امام جعفر صادق کو دیکھا۔ انہوں نے آپ سے فرمایا کہ اے بیٹا وجیہ الدین! مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیٹی کی شادی خواجہ معین الدین سے کرو، چونکہ سید صاحب خواجہ صاحب کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ انہوں نے خواجہ صاحب سے یہ تمام ماجرا کہہ سنایا۔ خواجہ صاحب نے فرمایا بابا وجیہ الدین میں بہت بوڑھا ہوچکا ہوں اور مرنے کے قریب ہوں، مگر چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، اس لیے تعمیل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، دونوں بیویوں سے اولاد بھی ہوئی۔ راجہ کی بیٹی سے بی بی جمال پیدا ہوئیں جو قرآن کریم کی حافظ تھیں۔ راجہ کی بیٹی کا بی بی جمال نام نہیں تھا جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے بلکہ راجہ کی نواسی بی بی جمال تھیں۔ جو خواجہ صاحب کی بیٹی تھیں، جن کی قبر بھی خواجہ صاحب کے پائیں میں ہے۔ جن کے شوہر کا نام شیخ رضی تھا ناگور کے ایک گاؤں میں مندلا حوض پر ان کی قبر ہے خواجہ صاحب کی صاحبزادی بی بی جمال سے دو بیٹے پیدا ہوئے، لیکن ان کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔
خواجہ صاحب کے تین بیٹے تھے، شیخ ابوسعید، شیخ فخرالدین، شیخ حسام الدین، ابوسعید تو سید وجیہ الدین کے نواسے تھے، باقی شیخ فخرالدین اور حسام الدین کے بارے میں اختلاف ہے، سید محمد گیسو دراز اور کچھ درویش اس طرف گئے ہیں کہ یہ دونوں بی بی عصمت و دختر سید وجیہ الدین کے بیٹے ہیں۔ ان کے علاوہ سید شمس الدین ظاہر اور کچھ درویشوں کا خیال ہے کہ یہ دونوں بی بی امۃ اللہ کے بیٹے تھے جو راجہ کی بیٹی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اخبار الاخیار
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)
حضرت خواجہ حسام الدین سوختہ(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت خواجہ حسام الدین سوختہ شاہ ملک تفرید ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی (رحمتہ اللہ علیہ)کے پوتے ہیں۔
والد:
آپ حضرت خواجہ فخرالدین ابوالخیرکےصاحب زادے ہیں۔
نام:
آپ کانام آپ کےوالدمحترم نےاپنےگم شدہ بھائی حسام الدین کےنام پررکھاتھا۔
اولاد:
آپ کے دوصاحب زادےتھے،ایک خواجہ معین الدین خرداوردوسرے شیخ قیام بابریال۔۱؎
وفات:
آپ نے۷۴۱ھ میں وصال فرمایا۔مزارفیض آثارسانبھرمیں مرجع خاص وعام ہے،آپ کاعرس ہر سال ہوتاہے۔
سیرت پاک:
آپ درویش ولریش تھے،آپ کےتصرفات باطنی درجہ کمال کو پہنچ گئےتھے،عشق الٰہی کےاسیرتھے، عبادات ومجاہدات میں بے نظیرتھے،حضرت نظام الدین اولیاء(رحمتہ اللہ علیہ)کی صحبت میں رہےتھے،صاحب کشف وکرامات تھے۔
حواشی: اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۲۵۱
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)
آپ شیخ فخرالدین بن خواجہ معین الدین حسن سنجری کے بیٹے تھے آتشِ محبت میں سوختہ اور تیر عشق کے گھائل تھے۔ آپ شیخ نظام الدین دہلی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں اکثر حاضری دیتے۔ آپ کے والد ماجد نے آپ کا نام اپنے بھائی کے نام پر رکھا تھا۔ جو زندہ ہی غائب ہوکر ابدال کی صحبت میں چلا گیا تھا، آپ کا سالِ وفات سات سو اکتالیس ہجری ہے اور آپ کا مزار قصبہ سابنرہ میں ہے جو اجمیر سے مغرب کی جانب ہے آپ کی عمر سو سال سے بھی زیادہ ہوئی۔
چون حسام الدینز دنیا رخت بست
سال وصل آن ولی متقی
عاشق اللہ صدیق آمدہ است
ہم حسام الدین سیّد جنتی