حضرت شیخ حسام الدین ملتانی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 0878 | ||
یوم وصال | 0961 |
حضرت شیخ حسام الدین ملتانی (تذکرہ / سوانح)
آپ سلطان المشائخ نظام الدین دہلوی کے خلفائے باوقار میں سے تھے۔ زہد و تقویٰ اور ریاضت میں اپنے احباب میں ممتاز تھے۔ حضرت شیخ سلطان المشائخ فرمایا کرتے تھے کہ دہلی شہر شیخ حسام الدین کے ظلِ حمایت میں ہے۔
آپ ایک دن کہیں جا رہے تھے۔ راستہ میں مشغول بحق ہونے کی وجہ سے اتنی محویت طاری تھی کہ آپ کے کندھے پر سے مصلی گر پڑا، کسی شخص نے دیکھا تو چلا کر آواز دی، یا شیخ، مگر شیخ کو قطعاً کوئی خبر نہ ہوئی، آخرکار مصلی اُٹھاکر آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا میں نے کئی بار یا شیخ یا شیخ کہا، مگر آپ نے کچھ نہ سنا اور مصلی نہ اٹھایا آپ نے مسکرا کر فرمایا، بھلے آدمی میں دراصل شیخ نہیں ہوں، ایک فقیر بے نوا ہوں، اگر اس نام سے آواز دیتے تو میں سن لیتا!
ایک بار آپ حضرت پیر روشن ضمیر کی اجازت سے حج بیت اللہ کو گئے حج کی سعادت اور گنبد خضریٰ کی زیارت سے واپس آئے تو شیخ نے فرمایا اگر کوئی شخص حج کو جاتا ہے تو اسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی علیحدہ نیت کرنا چاہیے اس سے حضور کے روضہ کی زیارت کے ساتھ ساتھ حضور کی خصوصی توجہ ہوجاتی ہے حج کے دوران بھی اگرچہ روضہ اطہر کی حاضری ہوجاتی ہے مگر حضور کی شرف زیارت کے فوائد سے محرومی رہتی ہے۔ شیخ حسام الدین نے یہ بات سنی تو اسی وقت دوبارہ حضور نبی کریم صاحبِ کوثر و تسنیم کے روضے کی زیارت کی نیت کی اور روانہ ہوئے اور بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے۔
معارج الولایت کے مؤلف نے آپ کی وفات ۷۳۵ھ لکھی ہے۔ آپ کا مزار پر انوار موضع پٹن گجرات (کاٹھیہ واڑ) ہے۔ جن دنوں سلطان محمد تغلق نے دہلی کو چھوڑ کر دیوگری کو آباد کیا اور دہلی کے تمام لوگوں کو اس شہر میں رہنے کی سہولتیں دیں تو شیخ حسام الدین بھی دہلی سے گجرات چلے آئے تھے اور وہاں ہی قیام پذیر ہوئے۔
چوں حسام الدین ملتانی ولی
رفت مثل گل بگلزار جہاں
رحلتش اشرف ولی حق بگو
۷۳۵ھ
ہم حسام الدین ملتانی بخواں
۷۳۵ھ
آپ بھی خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلفاء میں سے تھے، قدیم طرز کے بزرگوں کے طریقہ کار پر گامزن تھے، زہد و درویشی پارسائی اور بزرگی میں اپنے ہم عصر بزرگوں میں ممتاز اور سر بلند تھے، آپ متاہل تھے، آپ کے بارے میں شیخ نظام الدین اولیاء فرمایا کرتے تھے کہ شہر دہلی شیخ حسام الدین کی نگرانی میں ہے۔
لوگوں سے مروی ہے کہ آپ ایک دن کہیں جا رہے تھے اور جا نماز آپ کے کندھے پر سے گرگئی اور انہیں اس کی خبر نہ ہوئی، جب کچھ دور آگے تک نکل گئے تو پیچھے سے ایک آدمی نے شیخ شیخ کی متعدد آوازیں دیں، چونکہ آپ اپنے کو شیخ نہیں سمجھتے تھے اس لیے اس آواز پر پلٹ کر نہیں دیکھا، آخر کار وہ شخص پیچھے دوڑتا ہوا آیا اور قریب آکر عرض کرنے لگا کہ میں نے آپ کو متعدد بار آواز دی کہ شیخ اپنی جا نماز لیتے جائیے مگر آپ نے اس پر کوئی توجہ ہی نہ دی، آپ نے فرمایا بھائی میں شیخ نہیں ہوں بلکہ ادھ مرا مُلا فقیر ہوں۔ لوگوں میں یہ بھی مشہور ہے کہ شریعت کی کتابوں میں ہدایہ اور بزوری اور تصوف میں قوت القلوب اور احیاءُ العلوم آپ کے اکثر زیر مطالعہ رہا کرتی تھیں۔
منقول ہے کہ شیخ حسام الدین خانہ کعبہ کی زیارت کرنے کے بعد دہلی میں آکر اپنے شیخ خواجہ نظام الدین اولیاء نے فرمایا کہ جو شخص خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے جائے تو وہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی جداگانہ نیت کرے، خانہ کعبہ کی زیارت کے ضمن میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہ کرے اپنے شیخ کی یہ بات سنتے ہی حسام الدین فوراً روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی نیت سے واپس لوٹ گئے۔
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرادئیے
اصل مُراد حاضری اس پاک در کی ہے
(حدائقِ بخشش)
خیرالمجالس میں شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلی سے منقول ہے کہ ایک روز مولانا حسام الدین ملتانی، مولانا جمال الدین نصرت خانی اور مولانا شرف الدین تینوں بزرگ خواجہ نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے، خواجہ نظام الدین اولیاء نے مولانا حسام الدین کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ جو شخص دن کو روزہ رکھے اور تمام رات عبادت میں گزار دے تو وہ بیوہ عورتوں کا سا ہے اتنا کام تو ہر بیوہ عورت کرسکتی ہے، اگر مخلوق خدا کے کاموں میں مشغول رہ کر عبادت کی جائے تو اسی کو واقعتاً ذکر اللہ اور عبادت کہتے ہیں۔ اور اسی کا نام شغل ہے، مولانا حسام الدین اور آپ کے دیگر دو ساتھی انتظار کرتے رہے کہ آپ اس بیان کو ختم کریں (تاکہ اور باتیں کی جاسکیں) مگر آپ نے اسی بیان کو اس قدر تفصیل سے بیان کیا کہ اگر اس کو اسی تفصیل سے بیان کروں تو اس کے بیان کرنے میں قریباً چھ ماہ کا عرصہ صرف ہوجائے۔
ایک بار پھر یہی تینوں مذکورہ بالا دوست شیخ کی خدمت میں تشریف لے گئے اسی اثناء میں سلطان علاؤالدین کا خاص منشی محمد کاتب بھی پردہ اٹھاکر آ ٹپکا اور بیٹھ گیا شیخ نے فرمایا کہاں تھے؟ اس نے عرض کیا محل سرائے شاہی میں، اور سلطان نے آپ کی خدمت میں پچاس ہزار روپے ہدیہ بھیجا ہے، اس پر شیخ نظام الدین نے مولانا حسام الدین کی جانب متوجہ ہوکر فرمایا کہ شاہی انعام اچھا ہے یا تم سے ایفائے عہد اچھا ہے؟ تمام اہل مجلس نے عرض کیا کہ وعدہ پورا کرنا اچھا ہے، تب خواجہ نظام الدین نے فرمایا کہ صوفیاء کے شغل کی بنیاد چھ چیزوں پر ہے، اولاً۔ یہ کہ تنہائی اختیار کی جائے اور خواہشات نفسانی کی بھی حالت میں اتباع کرکے غضب خداوندی کا مورد نہ بننا چاہیے، ثانیاً۔ یہ کہ دائماً اور ہمیشہ باوضوء رہے اور جب نیند کا طبیعت پر شدید حملہ اور غلبہ ہو تو فوراً سوجائے اور جب بیدار ہو تو فوراً وضو کرے، ثالثاً یہ کہ ہمیشہ روزہ سے رہے، رابعاً۔ غلط بات نہ کہے اور خاموش رہے، خامساً۔ یہ کہ اپنے پیر کی طرف اپنے دل کو مائل کرے، دائماً اللہ کے ذکر میں مصروف رہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مرید اپنے پیر سے قلبی تعلق قائم کرے، سادساً۔ یہ کہ اپنے دل سے غیر اللہ کو نکال دے۔
سچ ہے انسان کو کچھ کھو کے ملا کرتا ہے
آپ کھو کے تجھے پائے گا جو یا تیرا
(ذوقِ نعت)
جب شیخ حسام الدین کو خلافت کا منصب عنایت کیا گیا تو آپ نے اپنے مُرشد سے مزید پند و نصائح کی درخواست کی، خواجہ نظام الدین اولیاء نے آستین چڑھاکر اور اپنی شہادت کی انگلی سے شیخ حسام الدین کو اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، کہ ترکِ دنیا، ترکِ دنیا، ترک دنیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ مریدوں کی کھیپ جمع کرنے کی تمنا اور کوشش نہ کرنا، مولانا نے عرض کیا کہ اگر ارشاد ہو تو دریا کے کنارے جنگل میں سکونت اختیار کرلوں؟ شہر کے کنوؤں کے پانی سے وضو میں اطمینان نہیں ہوتا ، شیخ نے فرمایا کہ شہر ہی میں رہو اور اس طرح رہو کہ گویا تم بھی دوسرے شہریوں کی مانند ایک شہری ہو، اگر تم شہر سے نکل کر دریا کے کنارے پر سکونت اختیار کرلو گے تو لوگ تمہارے گھر جائیں گے اور جب تمہیں وہاں نہ پائیں گے تو آپس میں یوں کہیں گے کہ فلاں بزرگ یہاں سے دوسری جگہ تشریف لے گئے ہیں پھر تمہارے پاس آکر تمہاری عبادت میں حائل ہوں گے۔
کنویں کا پانی اس میں علماء کا اختلاف ہے اگرچہ شرعیت میں بڑی گنجائش ہے اس کے بعد مولانا حسام الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عرض کیا کہ پہلے لوگوں کی طرف سے کچھ ہدئیے وغیرہ آجاتے تھے جن سے گھر والوں کی ضرورت اور مہمانوں کی خاطر مدارت کردیا کرتا تھا اب کئی روز سے یہ سلسلہ منقطع ہے کیا میں قرض لے سکتا ہوں خواجہ صاحب نے فرمایا اگر تم تدبیر کے تابع ہوگئے تو درویشی کیسے کرو گے درویش کی شان تو یہ ہے کہ جو پاس ہو اسے بھی خرچ کردے اور اگر اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو تو صبر کرے اور ناامیدی کو قریب نہ آنے دے تدابیر سے اپنے آپ کو الگ رکھے پھر فرمایا درویش کو ہر جائی نہ ہونا چاہیے ہر جائی کی دو اقسام ہیں نمبر ایک صوری نمبر دو معنوی۔ صوری وہ درویش ہیں جو لوگوں کے گھروں میں جاتے ہیں اور مانگتے پھرتے ہیں۔ معنوی وہ درویش ہیں جو اپنے گھروں ہی میں بیٹھ کر اللہ عزوجل عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور دل میں یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی سے کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ صوری درویش یعنی ہرجائی ظاہراً جو لوگوں کے گھروں میں مانگتا پھرتا ہے وہ معنوی درویش سے اس لیے بہتر ہے کہ جیسا وہ ہے ویسا ہی لوگوں پر خود کو ظاہر کرتا ہے اور معنوی درویش (ہرجائی باطنی درویش) جو اپنے گھر میں بیٹھ کر اللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول رہنا لوگوں پر ظاہر کرتا ہے جبکہ اندرونی طور پر دربدر مارا مارا پھرتا ہے وہ کیوں کر بہتر ہوسکتا ہے۔ مولانا حسام الدین فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت نظام الدین سے پوچھا کہ لوگ مجھ سے کرامت کا مطالعہ کرتے ہیں آپ نے فرمایا شریعت کی پابندی ہی سب سے بڑی کرامت ہے تم اپنے کام میں مصروف رہو۔
جس سال سلطان محمد تغلق دہلی کے رہنے والوں کو ایک نیا شہر جس کا نام’’دیوگیر‘‘ تھا آباد کرنے کی غرض سے روانہ کرنا شروع کیا تو حضرت حسام الدین دیلی سے گجرات تشریف لے گئے اور گجرات میں ہی آپ کا وصال ہوا پٹن جو گجرات کا پُرانا شہر ہے دفن کیے گئے آپ کا مزار شریف پٹن میں مشہور ہے۔
اخبار الاخیار
آپ بڑے عالِم، زاہد، متقی تھے، اللہ کے ارشاد فاتقوا اللہ مااستطعتم کے پیش نظر فاتقوااللہ حق تقاتہ کے بلند مرتبہ پر پہنچے ہوئے تھے، خراجی زمین میں کاشت کرتے، اور اس کا خراج ادا کیا کرتے تھے اور آخر کار ان زمینوں پر ایک حادثہ کی وجہ سے ایسا واقعہ پیش آیا کہ زمینیں مختلط ہوگئیں اور ان کا خراجی ہونا مشتبہ ہوگیا تو اس شبہ کی وجہ سے آپ نے اس زمین کی پیداوار کو کھانا ترک کردیا اور جب شدید بھوک لگتی تو قوت لایموت کے اندازہ سے معمولی سی غذا کھالیا کرتے تھے اور اسی سختی اور تنگی کے زمانے میں آپ کی وفات ہوگئی، تقویٰ زہد اور اسلام شعار ہونے میں آپ اللہ کی نشانی تھے اور ان بزرگوں میں تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
الا ان اولِیاء اللہ لا خوف علیھم ولاھم یحزنونO الذین امنوا وکانوا یتقونO
ترجمہ: (اولیاء اللہ نہ خوفزدہ ہوں گے اور نہ ہی غمگین ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لانے کے بعد اللہ سے ڈرتے ہیں۔
شیخ علی متقی نے بھی آپ سے ابتدائی عمر میں اسلامی علوم حاصل کیے اور پاک بازی کا درس لیا۔
شیخ علی متقی فرماتے ہیں کہ ایک دن آپ نے فرمایا کہ اب طبیعت کچھ خراب سی ہے اس کا کیا سبب ہے؟ آپ کا یہ اصول تھا کہ جب باطن میں کچھ تکدر محسوس کرتے تو اپنی غذا کے متعلق تحقیق و تفتیش کرتے کہ شاید غذا میں کوئی فرق ہو، چنانچہ آپ غذا کی تحقیق کے لیے بارورچی خانے گئے اور باورچی سے دریافت کیا کہ آج کھانا کس طرح اور کہاں پکایا گیا تھا؟ باورچی نے تمام باتیں بتلانے کے بعد کہا کہ آج میں نے پڑوسی کے ہاں سے بغیر اجازت آگ لےلی تھی چنانچہ آپ اس پڑوسی کے گھر گئے جہاں سے آگ آئی تھی اور اس سے معافی مانگی اور کچھ دے کر خوش کردیا۔
نیز شیخ علی متقی فرماتے ہیں کہ آپ کی مجلس سے جاتے وقت ایک آدمی دانستہ طور پر اپنے سامان میں آپ کا جوتا بھی لے گیا جب اسے معلوم ہوا تو وہ آپ کا جوتا واپس لایا تو آپ نے کہا کہ یہ میرا نہیں ہے مگر اس آدمی نے کہا کہ یہ آپ ہی کا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اچھا اگر آپ مجھے دینا چاہتے ہیں تو اس کی قیمت مجھ سےلے کر جوتا مجھے دیدو مگر وہ اس بات کو مانتا نہ تھا، بالاخر آپ نے اصرار کر کے جوتے کی قیمت اس کو دیدی اور جوتا رکھ لیا اس کے بعد فرمایا کہ میں نے اپنی تمام مملوکہ اشیاء سے حق ملکیت ختم کررکھا ہے تاکہ اگر کوئی شخص میری چیز استعمال کرے تو وہ اس کے لیے ناجائز نہ ہو۔
آپ شیخ بہاؤالدین ملتانی کے مقبرے کے سائے کے نیچے کبھی کھڑے نہ ہوتے تھے اور فرماتے تھےکہ یہ بیت المال کی رقم سے بنایا گیا ہے اور مسلمانوں کا حق اس پر خرچ ہوا ہے اب میرے لیے جائز نہیں کہ میں اس کے سایہ کے نیچے کھڑا ہوں (سبحان اللہ! ایسے ہوتے ہیں اللہ والے) کتنی دقیق نظر تھی اور ابتائے شریعت کی بھی حدکردی)
آپ کے ایک صاحبزادے تھے جن کا نام شیخ بایزید تھا، جو نہایت متقی اور مشائخ صفت بزرگ تھے۔
آپ اگر کسی کو مسجد میں گاتے ہوئے دیکھتے تومنع فرما دیتے، آپ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے بڑےپابند تھے اور دوسروں کو بھی اس پر پابندی سے عمل کرنے کا حکم دیا کرتے تھے اور آپ کے صاحبزادے شیخ بایزید کی تو یہ کیفیت تھی کہ مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر روتے رہتے تھے، ایک دفعہ شیخ بایزید کو کسی نے ایک روپیہ تحفتاً دیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ کیا چیز ہے اور اس کا کیا کیا جائے گا اس دن کے بعد آپ کو معلوم ہوا کہ روپیہ ایک نقدی سکہ ہے جولوگوں کے لین دین بیع و شراء وغیرہ کاروبار میں کام آتا ہے۔ اللہ اکبر
تمنا مال و دولت کی نحوست جاہ و عِزت کی
مجھے آفاتِ دنیا سے بچالو یا رسولﷺ
اخبار الاخیار
زاہدِ روحانی عابد سبحانی مولانا حسام الملۃ والدین ملتانی سلطان المشائخ کے ممتاز و اولغرم خلیفہ ہیں جو علم و تقوی اور ورع و زہد میں ایک کامل آیت تھے۔ آپ کو علم فقہ میں انتہا درجہ کی مہارت تھی۔ ہدایہ کی دونوں جلد حفظ تھیں اور ان کے تمام مطالب نوک زبان تھے۔ علم سلوک میں قوت القلوب اور احیاء العلوم دونوں جامع جلدیں از بر تھیں اور باوجود ان تمام بزرگیوں اور فضائل کے زائر الحر میں اور صاحب نصیبین تھے۔
مولانا حسام الدین کی عظمت و بزرگی اور ان پر سلطان
المشائخ کی عنایات اور مہربانیاں
مولانا حسام الدین زہد و ورع کی مجسم تصویر اور اتقا و پرہیز گاری کی مجسم تصویر تھے۔ آپ کا طریقہ بالکل طریقۂ سلف تھا اور آپ کا معاملہ بالکل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسا معاملہ تھا آپ اعلیٰ درجہ کے یاروں میں مشہور اور بزرگوں کے گروہ میں معروف تھے۔ سلطان المشائخ نے آپ کے بارہ میں فرمایا ہے کہ شہر دہلی مولانا حسام الدین کی حمایت میں ہے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ یہ بزرگ بازار میں چلے جاتے تھے کہ آپ کے کندھے مبارک سے مصَلّا گر پڑا اور اس انتہا درجہ کے باطنی شغل سے جو آپ کو حاصل تھا مصلّا گرنے کی مطلق خبر نہیں ہوئی۔ جب تھوڑی دور چلے تو ایک شخص نے عقب سے آواز دی کہ شیخ آپ کا مصلا گر پڑا ہے اگرچہ چند مرتبے شیخ کہہ کے آواز دی مگر چونکہ آپ اپنے تئیں شیخ نہ جانتے تھے اس لیے آپ نے اس نام کو اپنے میں راہ نہ دی یہاں تک کہ آواز دینے والے نے مصلا زمین سے اُٹھایا اور مولانا کے پیچھے دوڑا اور آپ سے مل کر عرض کیا حضرت میں نے کئی مرتبے آواز دی کہ آپ کا مصلا گر پڑا ہے اسے لیتے جائیے مگر حضور نے نہیں سنا۔ فرمایا۔ عزیز من! میں شیخ نہیں ہوں نہ یہ مرتبہ رکھتا ہوں یہی وجہ ہے کہ مجھے بالکل خیا نہیں گزرا کہ تو مجھے آواز دے رہا ہے۔ الغرض اس بزرگ اور فخر خاندان و قوم کو ناموری اور شہرت سے یہاں تک احتراز تھا کہ شیخ کے نام سے نہیں بولتے تھے۔ منقول ہے کہ جب یہ بزرگ خانہ کعبہ کی زیارت سے فارغ ہوکر لوٹے اور اس شہر میں تشریف لائے تو جمعہ کا روز تھا آپ سید ہے کیلوکھری کی جامع مسجد میں پہنچے اور سلطان المشائخ کا اول اول قاعدہ تھا کہ صبح کی نماز کے بعد کیلوکھری کی جامع مسجد کی طرف جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے جانے کا اہتمام فرماتے اور وہاں پہنچ کر مشغول بحق ہوتے۔ کیلوکھری میں آپ کے قیولہ اور وضو کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا نہایت صاف مکان لوگوں نے بنا دیا تھا۔ مولانا حسام الدین وہاں چاشت کے وقت پہنچے اور دل میں ٹھان لیا کہ میں اب تو مسجد کے کسی گوشہ میں چھپ کر بیٹھ جاؤں اور نماز کے بعد سلطان المشائخ کی قدم بوسی حاصل کروں چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ چونکہ سلطان المشائخ کو نور باطن سے معلوم ہوگیا تھا کہ مولانا حسام الدین ابھی مکہ معظمہ سے آئے ہیں اور اسی مسجد کے کسی گوشہ میں بیٹھے ہوئے ہیں جاؤ انہیں ڈھونڈ کر لے آؤ۔ خواجہ ابو بکر مصلی دار نے مسجد کے کونے کونے میں ٹٹولنا شروع کیا۔ ایک گوشہ میں دیکھتے ہیں کہ مولانا حسام الدین بیٹھے ہوئے مشغول ہیں۔ سلام کیا اور کہا آپ کو سلطان المشائخ بلا رہے ہیں۔ یہ سن کر مولانا متحیر ہوئے اور دل میں کہا اگرچہ میں چھپ کر اس گوشہ میں آکر بیٹھا لیکن چونکہ سلطان المشائخ مکاشف عالم ہیں ان سے چھپ نہ سکا۔ الغرض مولانا نے سلطان المشائخ کی سعادت قدم بوسی حاصل کی اور آپ کی عنایتوں اور مہربانیوں کے ساتھ مخصوص و ممتاز ہوئے۔ ازاں بعد سلطان المشائخ نے فرمایا کہ جو شخص خانہ کعبہ کی زیارت سے مشرف ہونا چاہیے اسے جناب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی علیحدہ نیت کرنا اور اسی نیت سے جانا چاہیے۔ تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت خاص کا مستحق ہو۔ کسی کے طفیل میں زیارت نہ کرے۔ مولانا حسام الدین سلطان المشائخ کی یہ بات سنتے ہی فوراً تاڑ گئے کہ سلطان المشائخ نے یہ بات خدا وندی الہام سے فرمائی ہے آپ نے اسی وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی نیت مصمم کرلی اور زیارت کے لیے دوبارہ مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔ زہے عنایت پیر جو مرید کی ترقی درجات پر مبذول ہوا اور زہے خوب اعتقاد مرید کہ پیر کے حکم قبول کرنے اور اس کے فرمان کے جاری کرنے میں جان تک دریغ نہ کرے۔
مولانا حسام الدین ملتانی، مولانا شمس الدین یحییٰ اور مولانا
علاؤ الدین نیلی قدس اسرارہم العزیز کی باہمی ملاقات
واضح ہو کہ ایک دفعہ مولانا شمس الدین یحییٰ اور مولانا علاؤ الدین نیلی رحمۃ اللہ علیہما ایک ساتھ ملک اودھ سے سلطان المشائخ کی خدمت میں آئے سلطان المشائخ کا قاعدہ تھا کہ جب اودھ کے یار آپ کے پاس حاضر ہوتے تھے تو آپ کی سعادت قدم بوسی حاصل کرنے کے بعد انہیں حکم ہوتا تھا کہ شیخ الاسلام قطب الدین بختیار نور اللہ تربتہ کی زیارت کو جاؤ اور جب یہ دولت و سعادت حاصل کر چکو تو شہر میں آکر یارانِ شہر سے ملاقات کرو۔ اس قاعدہ اور حکم کے مطابق مولانا شمس الدین اور مولانا علاؤ الدین شیخ الاسلام قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کو گئے اور جب وہاں سے لوٹ کر شہر میں آئے تو بعض عزیزوں سے ملاقات کی۔ یکے بعد دیگرے مولانا حسام الدین ملتانی کی بھی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن اتفاق سے اس وقت مولانا گھر میں تشریف نہ رکھتے تھے انہوں نے دیکھا کہ ایک نہایت مختصر سا درویشانہ چھپر کچھ پرانا پڑا ہے اور یہی آپ کی سکونت کا مقام ہے چنانچہ خواجہ سنائی کہتے ہیں۔
داشت لقمان یک گزیچے تنگ |
|
چون گلو گاہ نائے و سینہ چنگ |
(لقمان علیہ السلام کا گھر نہایت تنگ تھا جیسے نے کا گلا اور چنگ کا ہوتا ہے ایک فضول شخص نے ان سے کہا کہ یہ چھ بالشت اور تین قدم کیا گھر ہے لقمان نے بادل سرد اور چشم گریان کہا کہ شخص فانی ہے واسطے یہ گھر بہت کافی ہے۔)
یہ حضرت اس گھر کو دیکھ کر ابھی حیرت و تعجب ہی میں تھے کہ سامنے سے مولانا حسام الدین نمودار ہوئے دونوں بزرگوں نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور سلام علیک کے بعد مصافحہ و معانقہ سے پیش آئے اس وقت مولانا کی یہ حالت تھی کہ ایک سبز کُرتا نہایت میلا کچیلا پہنے ہوئے تھے اور ایک دست مبارک میں تو تھوڑی سی کھچڑی دستار میں بندھی ہوئی تھی اور دوسرے میں قدرے ایندھن تھا ان دونوں بزرگوں نے آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر باہم کہا کہ حقیقت یہ ہے سلف صالحین کا طریقہ یہی ہے او رمسلمانی اس کا نام ہے۔ الغرض باہم ملاقات کرنے کے بعد مولانا شمس الدین یحییٰ نے عرض کیا کہ حضرت! یہ ایندھن مجھے دے دیجیے اور مولانا علاؤ الدین نیلی نے التماس کی کہ لکڑیاں اور پٹلیا مجھے عنایت کیجیے۔ تاکہ حضور کی منزل گاہ میں پہنچادیں اور اس سعادت سے کچھ حصہ حاصل کریں۔ مولانا حسام الدین نے فرمایا عزیزانِ من! تم دونوں محض مجرد ہو کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتے ہو مگر میں نے شرعی بوجھ قبول کرلیا ہے اور جب یہ ہے تو بارکشی میرا ہی حق ہے یہ فرما کر مولانا حسام الدین گھر میں تشریف لے گئے۔ اور کھچڑی و ایندھن دے کر اس کے پکانے کا حکم فرمایا اور ایک پھٹا ہوا نہایت پُرانا بوریا ہاتھ میں لے کر باہر آئے ان بزرگوں کو بیٹھنے کا ارشاد کیا اور خود بھی بیٹھ گئے۔ مولانا شمس الدین یحییٰ نے ایک تہ بند اور مولانا علاؤ الدین نے ایک تنکہ چاندی نذر کی اور مشائخ کی حکایت سلف کے فضائل و مآثر بیان کرنے میں مشغول ہوئے۔ اسی اثناء میں نماز چاشت کا وقت ہوگیا سب نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد مولانا حسام الدین ایک مختصر سے طباق میں کھچڑی اور اس پر قدرے گھی رکھ کر لائے اور درویشانہ طریق پر عزیزوں کے سامنے پیش کیا جب تینوں صاحب کھانا کھا کر فارغ ہوگئے تو مولانا حسام الدین نے وہ چاندی کا تنکہ جو مولانا علاؤ الدین نے پیش کیا تھا مولانا شمس الدین کو عطا کیا اور جو تہ بند مولانا شمس الدین نے پیش کیا تھا وہ مولانا علاؤ الدین کے آگے رکھا اور نہایت معذرت کی۔ الغرض جب یہ دونوں بزرگ سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے عزیز ان شہر کی زیارت و ملاقات کی کیفیت دریافت کی ان دونوں عزیزوں نے نمبر وار تمام یاروں کی کیفیت بیان کرنی شروع کی جب مولانا حسام الدین کی ملاقات کا ذکر کیا تو سلطان المشائخ نے رغبت کے کانوں سے سُنا آپ ان کا حال سنتے جاتے اور آنکھوں سے آنسو بہاتے جاتے تھے۔ اسی اثناء میں سلطان المشائخ نے اقبال خادم کو بلا کر فرمایا کہ تھوڑی سی چاندی لے آ اقبال نے فوراً حکم کی تعمیل کی پھر فرمایا کہ جاؤ کپڑا بھی لے آؤ۔ جب کپڑا بھی آگیا تو آپ اپنا مُصَلّا جس پر تشریف رکھتے تھے چاندی کے پاس رکھ دیا اور خواجہ رضی کو جو آپ کے قاصد خاص تھے اور تیز رفتاری میں ہوا کا مقابلہ کرتے تھے طلب فرما کر حکم کیا یہ مصلا یہ کپڑا یہ چاندی مولانا حسام الدین کے پاس لے جا۔ خواجہ رضی یہ بھاری نعمت اور گراں بہا خلعت مولانا کی خدمت میں لے کر پہنچے تو آپ نے فرمایا۔ خواجہ ..... یہ مہربانی میرے حق میں کس وجہ سے ہوئی ہے میں تو اپنا یہ مرتبہ نہیں دیکھتا خواجہ رضی نے عرض کیا کہ مخدوم مجھے معلوم نہیں وما علی الرسول الا لبلاغ۔ یعنی قاصد پر تو پیغام پہنچا دینا ہے اور بس مولانا نے فرمایا کہ اچھا جس وقت سلطان المشائخ نے یہ بخشش مجھے مرحمت فرمائی تھی اس وقت آپ کے پاس کون کون بیٹھا تھا خواجہ رضی نے کہا۔ مولانا شمس الدین یحییٰ۔ مولانا علاؤ الدین نیلی اور چند اور عزیز یہ سن کر مولانا حسام الدین کو یقین ہوگیا کہ ان ہی لوگوں نے سلطان المشائخ سے کہا ہوگا۔ ازاں بعد آپ نے خواجہ رضی کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ یہ عزیز درویشوں کے تجس احوال کے لیے آتے اور میرے بھید ٹٹولتے ہیں۔ ان لوگوں کو کیا منصب ہے کہ فقیروں کے حال کا تجسس کریں۔ الغرض جب مولانا حسام الدین اپنے قاعدہ کے مطابق سلطان المشائخ کی خدمت میں آئے تو سعادت قدم بوسی حاصل کرنے کے بعد مولانا شمس الدین یحییٰ اور مولانا علاؤ الدین نیلی سے ملاقات کی اور کہا۔ عزیزو! تم نے یہ کیا کیا کہ سلطان المشائخ کے حضور میں میرا احوال عرض کیا۔ میں کون ہوں کہ سلطان المشائخ کی خدمت میں ذکر کیا جاؤں ہم فقرا کے گروہ پر واجب ہے کہ ایک دوسرے کے ستر حال اور پردہ پوشی میں کوشش کریں۔ مجھے جیسے ہزاروں آدمی اس درگاہ کے غلام ہیں جن کے حال سے کوئی بھی اطلاع نہیں رکھتا اور نہیں جانتا کہ ان پر کیا گزر رہی ہے۔ یہ بات کہ سلطان المشائخ مکاشفِ عالم ہیں یہ اور قضیہ ہے اور اس کا دوسرا حکم ہے۔ شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے۔
تاچہ مرغم کم حکایت پیش عنقا کردہ اند
تاچہ مورم کم سخن پیش سلیمان کردہ اند
جب مولانا حسام الدین اپنی گفتگو کا سلسلہ ختم کر چکے تو ان بزرگوں نے آپ کے جواب میں کہا۔ مولانا۔ جب ہم آپ کی خدمت سے لوٹ کر سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے ہم سے فرمایا تم نے کن کن عزیزوں کو دیکھا اور انہوں نے تم سے کس طرح ملاقات کی۔ بھلا ہم سے یہ کب ہوسکتا تھا کہ عزیزوں کی ملاقات کی کیفیت میں کچھ چھپا سکتے۔ ہمیں بجز اس کے اور کچھ بن ہی نہیں پڑا کہ جو کچھ ہو صاف صاف بیان کردیں لہذا ہم اس میں معذور ہیں معاف فرمائیے۔
مولانا حسام الدین ملتانی کا حضرت سلطان المشائخ
نظام الحق والدین قدس سرہ سے خلافت پانا
ثقات سے منقول ہے کہ جس روز شیخ نصیر الدین محمود اور شیخ قطب الدین منور قدس اللہ سرہما العزیز نے خلافت کا معزز تمغہ پایا اس کے دوسرے روز مولانا حسام الدین کی طلبی کا سلطان المشائخ کی خدمت سے حکم صادر ہوا۔ مولانا حسام الدین نے فرمایا کہ جب میں سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے انتہا درجہ کی عظمت و مہابت سے میرے جسم سے پسینہ جاری ہوگیا۔ لوگوں نے سلطان المشائخ کی نظرِ مبارک میں مجھے خلافت نامہ اور خلعتِ خاص عنایت کیا۔ اس وقت میں نے نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا کہ مخدوم نے اس بیچارہ ضعیف کے حق میں بے حد شفقت و مہربانی فرمائی کہ کمترین کو دولت خلافت سے مالا مال کردیا۔ اب اس ناچیز غلام کو کوئی وصیت کیجیے اورارشاد فرمائیے کہ میں کیا کروں۔ سلطان المشائخ نے اپنا دستِ مبارک آستین سے نکال کر شہادت کی انگلی سے میری طرف اشارہ کر کے دو دفعہ فرمایا کہ دنیا کو ترک کر دنیا کو ترک کر۔ اور فرمایا کہ مریدوں کی کثرت میں کوشش نہ کر۔ اس کے بعد مولانا نے عرضکیا کہ اگر حکم ہو تو شہر میں نہ رہوں بلکہ جاری پانی کے کنارے سکونت اختیار کروں کیونکہ شہر میں کنوؤں کا پانی ملتا ہے۔ اور اس سے وضو کر کے دل مطمئن نہیں ہوتا سلطان المشائخ نے فرمایا۔ نہیں شہر میں ہی رہو۔ کن کاحد من الناس اور اس طرح رہو جیسے اور لوگ رہتے ہیں۔ نفس چاہتا ہے کہ تمہیں آسائش و آرام کے مقام سے اٹھا کر ایک ایسے مقام میں پُہنچائے جہاں تمہارے اوقات متفرق و پریشان ہوجائیں۔ یہ ضروری بات ہے کہ جب تم شہر سے نکل کر بہتے پانی کے کنارہ سکونت اختیار کرو گے تو مسافر و شہری تمہارا پتہ تلاش کر کے وہاں پہنچیں گے اور یہ مشہور ہوجائے گا کہ فلاں درویش نے فلاں جگہ سکونت کے لیے اختیار کی ہے۔ لوگ جوق جوق وہاں پہنچیں گے اور تمہارے وقت کے مزاحم ہوں گے۔ اور کنوؤں کے پانی میں اگرچہ علماء کا ختلاف ہے مگر اس کے باب میں شرعی وسعت بہت ہے۔ اس کے بعد مولانا حسام الدین نے عرض کیا کہ ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ مجھے کافی مقدار فتوح پہنچتی ہے اس میں سے کچھ تو میں اپنے بال بچوں کا حصہ اٹھا رکھتا ہوں اور کچھ مسافروں کے لیے مقرر کرتا ہوں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دنوں گزر جاتے ہیں اور کوئی چیز مجھے نہیں پہنچتی۔ بال بچے فاقہ کشی کی وجہ سے مزاحمت کرتے ہیں۔ مسافر محروم جاتے ہیں۔ فرمائیے ایسے وقت لوں کہ نہیں۔ سلطان المشائخ نے فرمایا قرض کرنا دو حال سے خالی نہیں یا تو تم اپنے لیے قرض لو گے یا مسافروں کے لیے اور مسافر بھی دو حال سے باہر نہیں یا غریب الدیار ہوں گے جو دور دراز سے آئیں گے یا شہری کہ روزانہ آمد و رفت کریں۔ جو لوگ مسافر ہیں اور دور دراز سے آتے ہیں ان کی نیت سے قرض لینا جائز ہے اگر سہل ہو کیونکہ مسافر تمہیں معذور نہ رکھیں گے اور شہری لوگ جو گاہ بگاہ آمد و رفت کرتے ہیں ان کے لیے تکلف کی کچھ حاجت نہیں جو موجود ہو پیش کردو نہ ہو تو قرض نہ لو۔ اور جو تم خاص اپنے لیے قرضہ کرو گے تو اس کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جب فتوح تم کو پہنچے گی خرچ کرو گے۔ دوسری یہ کہ فتوح نہ پہنچنے کی حالت میں قرض کرو گے اور دونوں حالتوں میں تمہارا مطلب حاصل ہوگا اور جب یہ ہوگا تو درویشی کس طرح کر سکو گے۔ حقیقت میں درویش تو وہ ہے کہ جب پاس ہو صرف کر ڈالے نہ ہو تو صبر کرے۔ نا کامیابی و نامرادی کے ساتھ موافقت کرے اور اپنے تئیں تدبیر میں نہ ڈالے ازاں بعد فرمایا کہ درویش کو ہر بابی نہ ہونا چاہیے اور ہر بابی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک صوری دوسری معنوی۔ صوری با بی تو وہ درویش ہیں جو دربدر مارے مارے پھرتے ہیں اور کچھ نہ کچھ مانگ تانگ کر حاصل کر لیتے ہیں۔ اور معنوی ہر بابی وہ درویش ہیں جو بظاہر تو گھر کے کونے میں مشغول ہیں مگر دل میں خیال کرتے ہیں کہ زید سے ہمیں پہنچے گا یا عمرو سے ملے گا بلحاظ تجربہ صوری ہر بابی۔ معنوی ہر بابی سے بہتر ہے۔ کیونکہ صوری ہر بابی جیسا کہ ہے ویسا ہی اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے مگر معنوی ہر بابی بظاہر اپنے تئیں مشغولانِ حق کے طریق پر ظاہر کرتا ہے اور باطن میں دربدر مارا پھرتا ہے۔ نعوذ باللہ کہ کسی شخص کا ایسا معاملہ ہو۔ آمدیم بر سرِ حکایت۔
منقول ہے کہ ایک دن قاضی محی الدین کاشانی رحمۃ اللہ علیہ نے سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کیا کہ بندہ نے خوب میں دیکھا ہے کہ سلطان المشائخ سوار ہوئے تشریف لے جا رہے ہیں اور یارو عزیز مخدوم کے برابر سوار ہوئے چلے جارہے ہیں ان میں سے ایک مولانا حسام الدین ملتانی بھی ہیں۔ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے مریدوں میں ایک عزیز تھا اس نے خواب میں دیکھا کہ شیخ شیوخ العالم ایک کشتی میں سوار ہیں اور چھ یار بھی آپ کے ساتھ موجود ہیں۔ جن میں ایک یہ ضعیف بھی تھا۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ مولانا حسام الدین کی یہ بہت بڑی عظمت و کرامت کی دلیل ہے کہ سلطان المشائخ نے ان کی حکایت میں اپنی نظیر بیان کی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مولانا حسام الدین نے سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کیا کہ مخدوم! خلق طالب کرامت ہے۔ فرمایا۔ الکرماتہ ہی الاستقامتہ علی باب الغیب۔ یعنی دروازہ خدا وندی پر استقامت کرنا ہی کرامت ہے۔ تم اپنے کام میں ثابت قدم اور مستقیم رہو۔ کرامت کے طالب نہ بنو۔ انجام کار جس سال میں شہر کی مخلوق کو دیوگیر میں سے نکالا گیا۔ گجرات میں تشریف لے گئے اور وہیں آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کا مرقدِ پاک آج ان شہروں کی خلق کا حاجت روا ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
(سِیَرالاولیاء)