حضرت شیخ حسام الدین
حضرت شیخ حسام الدین (تذکرہ / سوانح)
آپ مانک پور میں مقیم تھے اور شیخ نورالدین قطب عالم کے مرید و خلیفہ اور اپنے وقت کے بڑے بزرگوں میں سے تھے، علمِ شریعت اور طریقت کے ماہر عالم تھے۔ آپ کے ملفوظات کو آپ کے مریدوں نے جمع کرکے ’’رفیق العارفین‘‘ نام رکھا ہے اس میں آپ فرماتے ہیں کہ مریدوں کی اپنے مشائخ سے متعلق مثال ہے جیسے کپڑے میں پیوند، اور صادق و پختہ کار مرید کی مثال اس پیوند کی طرح ہے جو کپڑے کے دھلنے کے ساتھ خود بھی دُھل کر پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جو فیض پیر کو ملتا ہے اس سے مرید بھی بہرہ ور ہوتا ہے اور جو مرید اپنے پیر کے حکم پر عمل نہیں کرتا وہ رسمی مرید ہے۔ یعنی اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سفید کپڑے میں سیاہ پیوند، اگرچہ شیخ کا فیض اس کے عاصی مرید پر بھی ہوتا ہے، لیکن اس کو اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا منقاد اور فرمانبردار ہونے کی حیثیت میں ہوتا۔ یہ دولت کوئی معمولی نہیں۔
فرمایا کہ ایک مجلس میں چند اشخاص بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک ایک مینڈک پھُدکتا ہوا اس مجلس کے نزدیک آیا، یہ دیکھ کر ایک دانا شخص اس مجلس سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کو بھاگتا دیکھ کر لوگ (اس کی بزدلی پر) ہنسنے لگے اور اس سے دریافت کیا کہ تم مینڈک سے کیوں ڈرتے ہو؟
اس دانا نے کہا کہ مینڈک سے نہیں ڈرتا، البتہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ اس کے پیچھے کوئی سانپ آرہا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی درویش کمزور ہو اور اس کا سلسلہ نہایت مضبوط ہو۔ تو اس سے ڈرنا چاہیے کیونکہ اس کو رنجیدہ کرنے سے اس کے سلسلہ کے تمام مشائخ کبیدہ خاطرہ اور رنجیدہ دل ہوجائیں گے۔
ملفوظاتِ حسامُ الدین
فرمایا کہ اپنے سر پر صافہ باندھنے اور خود رکھنے سے گریہ و زاری کرتے رہنا زیادہ بہتر ہے جیسا کہ ایک اونٹ کو چوہے نے جنگل میں چرتا ہوا دیکھ کر کہا کہ اے اُونٹ تم کسی کے ہو رہو۔ اونٹ نے جواب دیا۔ میں تمہارا ہوگیا۔ ایک دن اونٹ ایک درخت کے ہرے ہرے پتے کھانے لگا تو اس کی نکیل درخت کی شاخ میں پھنس گئی اور اونٹ عاجز ہوگیا۔ اس نے اس برے وقت میں چوہے کو یاد کیا۔ چنانچہ وہ چوہا اپنے دوسرے چوہوں کے ساتھ آیا۔ سب نے مل کر درخت میں پھنسی ہوئی رسی کُتردی، اس طرح اونٹ نے نجات پائی۔
یقین میداں کہ شیرانِ شکاری
دریں راہ خواسنتد ازمور یاری
فرماتے ہیں کہ سالک ذکر کرتے کرتے عاشق بن جاتا ہے اور فکر کرتے کرتے عارف بن جاتا ہے۔
فرمایا کہ اللہ کے انعامات اچانک ہوتے ہیں اور دل سے آگاہ ہوجاتا ہے اس لیے سالک کو ہمیشہ منتظر رہنا چاہیئے کہ پردہ غیب سے کیا ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ فِراق کہاں ہے؟ یا وہ خود ہے یا اس کا نور یا اس کے عکس۔
فرمایا کہ ایک درویش دوسرے درویش کے پاس گیا اور اس کو اپنے گھر لے گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مہمان درویش نے کہا۔ یا اللہ! تو میزبان درویش نے اپنی بیوی کے منہ پر اپنی آستین رکھ دی اور اس کو مستور و محجوب کردیا۔ بیوی نے اپنے شوہر سے دریافت کیا کہ اس میں کیا راز ہے؟ جب وہ آیا تھا اس وقت آپ نے مجھے پردے میں رہنے کا حکم نہ دیا اور اب آپ میرے اوپر خود ہی پردہ کررہے ہیں تو اس درویش نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب یہ آیا تھا تو اس وقت یہ اپنا تھا اور اس کو اپنی کوئی خبر نہ تھی، اور اب جبکہ اس نے یا اللہ کہا ہے تو بیگانہ ہوچکا ہے اور اب بے خودی کے عالم سے نکل کر خودی میں آچکا ہے (اس لیے اب اس سے پردہ کرنا شرعاً واجب ہے)
فرمایا کہ خلافت ملنے کے بعد میں مسلسل سات برس تک فقرو فاقہ کی حالت میں رہا۔ جب شدید بھوک لگتی تو پانی پی کر صبر و شکر کرکے پھر ذکر میں مشغول ہوجایا کرتا تھا۔ چنانچہ ایک روز میرا ایک بیٹا بھوک سے نڈھال ہوکر میرے پاس آکر رونے لگا۔ اس وقت میری زَبان سے یہ نکلا ع
اے عجباچوں توئی ہمچومنی رانہ بس
اس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص نے کھانے سے بھرا ایک دسترخوان میرے لیے بھیجا حالانکہ وہ اس سے پہلے میری طرف کوئی چیز نہیں بھیجا کرتا تھا۔ اسی طرح ایک اور آدمی نے تقریباً ایک من (چالیس سیر) ماش بھیج دئیے، اس سے مجھے بڑی ندامت ہوئی کہ اس امداد کے لیے میری زبان کیوں کھلی اور اپنے نفس کو ملامت کی۔
فرمایا کہ مجھے اکثر کتب زَبانی یاد تھیں لیکن جب شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا تو سب کچھ نسیاً منسیاً ہوگیا اور اب ایک بہترین علم کا مالک ہوں جو ان کتابوں کے علم سے بدر جہابہتر ہے جس کے ذریعہ ہر نیکی معلوم کرلیتا ہوں۔ اگر کوئی چاہے تو میں فقہ کی مشہور و معروف کتاب ’’الہدایہ‘‘ کو سلوک کی طرز پر کہہ سناؤں، پھر فرمایا کہ میرے درس و تدریس کے سلسلہ کو ترک کرنے پر والد بزرگوار کو ابتداً ناگوار ہوئی اور وہ مجھ پر ناراض ہوگئے لیکن جب اس کی اطلاع میرر مُرشِد قُطبِ عالم کو ہوئی۔ تو انھوں نے فرمایا کہ فقیر یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے تابع ہوکر رہے اور صاحب عقل کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہوش و ہواس درست رکھے، لیکن جوانمرد وہ ہے جو دونوں کام کرتا رہے۔ اس کے بعد میں نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا جو مجھے یاد نہیں رہا، کہتے وقت تو سوچ سمجھ کر کہتا تھا لیکن اب اس محاورہ کا مصداق ہوں۔
(کہ غسل کرنے والا بھی حالت پر رہا اور پانی اپنی حالت پر رہا) اور جب کہنا بھی میرے لیے مشکل ہوگیا تھا اور جب اللہ اکبر کہتا بیتاب ہوکر گرِپڑتا، کہ دیکھنے والے بھی میری حالت پر افسوس کرتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ نوجوان بڑا اچھا اور عقلمند تھا مگر افسوس کہ بے چارہ پاگل ہوگیا، اسی کیفیت میں میں نے مرشد کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا۔ مرشد مجھے خواب میں فرمایا کرتے تھے کہ کوئی رنج و فکر نہ کیا کرو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ چنانچہ میں منزل بمنزل چلتا رہا یہاں تک کہ دریا کے کنارے پر آکر کشتی پر سوار ہوگیا، اس کشتی میں میرے ساتھ ایک گدڑی والا درویش بھی بیٹھا تھا۔ جب کشتی کنارے پر لگی تو وہ گدڑی والا درویش دریا میں چھلانگ مارگیا اور ہم سب کی نظروں سے غائب ہوگیا پھر اس کا کسی کو حال معلوم نہ ہوسکا، اس کے بعد جب میں شیخ کی خدمت میں پندوہ حاضر ہوا تو دیکھا کہ شیخ کی اور اس گدڑی والے فقیر کی شکل یکساں تھی اور دونوں کی صورت میں کوئی فرق نہ تھا۔
راہ دانی کہ ملائک پی اند
در رہِ کشف زکشفے کم نیند
آپ نے فرمایا کہ میں ابتداً روزانہ صبح سویرے قرآن کریم کے پندرہ پارے پڑھتا اور اس کے بعد نماز چاشت تک تمام وظائف مکمل کرتا، قرآن کریم پڑھتے وقت تفسیر مدارک کو اپنے پاس رکھتا تھا، جب کسی لفظ کے مطلب و معنی میں اشکال ہوتا تو فوراً تفسیر اُٹھا کر دیکھ لیتا، اس طرح قرآن پڑھنے میں بڑا سرور آتا تھا۔ ایک دن غیب سے آواز آئی کہ آپ کا اس طرح پڑھنا بہت اچھا ہے یونہی پڑھتے رہا کرو۔
فرمایا کہ اگر کوئی قطب بھی بن جائے تب بھی قرآن کریم تلاوت کو ترک نہ کرے، اگر زیادہ نہ ہوسکے تو کم از کم ایک پارہ تو روزانہ پڑھ لینا چاہیے۔
فرمایا۔ درویش کے پاس چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے ان میں سے دو تو درست اور صحیح ہوں اور دو شکستہ اور ٹوٹی ہوئی، یعنی دین اور یقین درست اور پاؤں و دل شکستہ
فرمایا، لالچ بیماری ہے۔ سَوال کے لیے ہاتھ بڑھانا ایسا ہے جیسا نزع و عالم سکرات، اور خدا کے راستہ میں خرچ کرنے والے کو منع کرنا موت کے مترادف ہے۔
فرمایا کہ دنیا سایہ کی مانند ہے اور آخرت آفتاب کی مانند۔ کوئی شخص سایہ پکڑنے کی چاہے جتنی کوشش کرے وہ سایہ کو پکڑ نہیں سکتا اور جب کوئی سورج کی طرف چلتا ہے تو سایہ خود بخود اس کے برابر برابر چلتا رہتا ہے۔
فرمایاکہ اتنے شیریں اور میٹھے بھی نہ بنو کہ مکھیاں کھاجائیں۔
فرمایا سب سے (بشرطیکہ اسلام بھی اس کی اجازت دیتا ہو) مل جُل کر رہو اور کسی سے دشمنی نہ کرو۔
فرمایا کہ مرید ہونے کے بعد اپنے پرانے حریفوں کے ساتھ نشت و برخاست نہ کی جائے ممکن ہے کہ وہ تمہیں گمراہ کردیں اور تمہارے راستہ میں خلل انداز ہوں اور دہلیز پر بھی نہ بیٹھا جائے ممکن ہے کہ شیطان صفت انسان آکر راستہ سے ہٹادیں۔
اخبار الاخیار