حضرت غوث الاعظم کے کامل ترین اور بزرگ ترین خلفا سے تھے۔ علومِ ظاہری و باطنی میں اور خوارق و کرامت میں درجۂ بلند اور مقامِ ارجمند رکھتے تھے۔ اپنے عہد کے مشائخ کبار سے تھے۔ حضرت شیخ ابوالحسن قرشی سیرالاحباب میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں چار شخص ہیں جو قبور میں بھی مثل احیاء تصرف کرتے ہیں۔ اوّل معروف کرخی ۔۔۔۔
حضرت غوث الاعظم کے کامل ترین اور بزرگ ترین خلفا سے تھے۔ علومِ ظاہری و باطنی میں اور خوارق و کرامت میں درجۂ بلند اور مقامِ ارجمند رکھتے تھے۔ اپنے عہد کے مشائخ کبار سے تھے۔ حضرت شیخ ابوالحسن قرشی سیرالاحباب میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں چار شخص ہیں جو قبور میں بھی مثل احیاء تصرف کرتے ہیں۔ اوّل معروف کرخی۔ دوم شیخ سید عبدالقادر جیلانی۔ سوم شیخ عقیل منجی۔ چہارم شیخ حیات خیرانی۔ صاحبِ سفینۃ الاولیاء لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ خیران کے صلحاء میں سے ایک نے بیان کیا کہ میں یمن سے کشتی میں سوار ہوا۔ جب بحرِ ہند میں پہنچا تو سمندر میں طوفانِ عظیم برپا ہوگیا جس نے جہاز کو توڑ ڈالا۔ میں ایک تختہ پر بیٹھا ہوا لہروں کے تھپیڑے کھاتا ہُوا ایک بیابان جزیرے میں پہنچ گیا۔ جہاں دُور دُور تک آبادی کا نام و نشان نہ تھا۔ آخری بڑی تلاش کے بعد اس ویرانے میں مجھے ایک مسجد نظر آئی۔ اندر جاکر دیکھا کہ چار حسین و جمیل شخص با رعب و ہیبت وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے قریب جاکر سلام کہا۔ انہوں نے جواب دیا۔ میرا حال پوچھا۔ میں نے تمام ماجرا بیان کیا۔ دن بھر ان کے پاس رہا۔ جب رات ہوئی۔ شیخ حیات خیرانی وہاں آئے۔ اُن چار اصحاب نے اُن کا استقبال کیا۔ سلام کہا۔ وہ مسجد میں تشریف لائے۔ سب نے مل کر نمازِ عشاء ادا کی۔ پھر الگ الگ صبح تک نمازِ نوافل میں مشغول رہے۔ جب صبح طلوع ہوئی تو شیخ نے مناجات شروع کی۔ یا حبیب التائبین، یا انیس العابدین، یا قریب المتصدقین، یا محب العاشقین۔ اس کے بعد گریہ و زاری شروع کی۔ یہاں تک کہ انوار و تجلّیاتِ الٰہی کا ظہور ہونا شروع ہوگیا۔ حتّٰی کہ وُہ تمام جگہ بقعۂ نُور ہوگئی۔ پھر سب نے نمازِ صبح ادا کی۔ پھر شیخ حیات مسجد سے باہر تشریف لائے۔ ان چار شخصوں میں سے ایک نے مجھ سے کہا کہ شیخ کے پیچھےپیچھے جاؤ اپنی منزل پر پہنچ جاؤگے۔ میں اُن کے پیچھے قدم بقدم چل پڑا۔ دیکھا کہ کوہ، دریا اور بیابان و صحرا شیخ کے قدموں کے نیچے سےگزر رہے ہیں حتّٰی کہ تھوڑے ہی عرصے میں خیران پہنچ گیا۔ دیکھا کہ ابھی لوگ نمازِ پڑھنے میں مشغول ہیں۔ ۵۸۱ھ میں وفات پائی۔
قطعۂ تاریخ وفات:
چوں سفر کرد از جہانِ فنا رحلتش منبعِ حیات بگو ۵۸۱ھ
|
|
درجنا مہدیٔ زمانہ حیات ہم بخواں ’’مہدیٔ زمانہ حیات‘‘ ۵۸۱ھ
|