شیخ حیات سندھی مدنی
شیخ حیات سندھی مدنی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ حیات سندھی مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
علامہ شیخ محمد حیات بن ملا فلاریوچاچڑ گوٹھ عادل پور تحصیل گھوٹکی (سندھ ) میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
علامہ مرادی کی روایت کے مطابق آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں حاصل کی اس کے بعد علمی مرکز ٹھٹھہ کارخ کیا اور وہاں مولانا محمد معین بن محمد امین ٹھٹھوی کے پاس تعلیم حاصل کی ۔ پھر وہاں سے نقل مکانی کر کے حرمین شریفین منتقل ہوئے اور مدینہ منورہ کو اپنا وطن بنایا۔وہاں علامۃ الفھامہ ، شارح صحاح ستہ علامہ ابوالحسن کبیر ٹھٹھوی سندھی مدنی کی صحبت بابرکت کو اپنے لئے لازم قرار دیا۔ علامہ سندھی کے علاوہ شیخ عبداللہ بن سالم بصری، شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم بن حسن کردی کو رانی شافعی اور شیخ کبیر ابو الاسرار حسن بن علی عحیمی حنفی سے درسی نصاب میں تکمیل و اجازت حاصل کی۔ (سلک الدرر، ج ۴، ص)
آپ کے شاگرد رشید میر غلام علی آزاد بلگرامی لکھتے ہیں :۔
عالم ربانی ، محدث کبیر جامع العلوم مولانا شیخ محمد حیات سندھی مدنی قدس سرہ نو جوانی میں حرمین شریفین پہنچے پہلے مکہ مکرمہ میں حج کیا اس کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کے شہر مدینہ منورہ کو اپنا مسکن بنایا۔ اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ کے سبب دنیاوی اسباب سے دور رہ کر حصل علم میں لگے رہے۔ خاتم المحدثین شیخ عبداللہ بن سالم بصری سے حدیث کی سندحاصل کی۔ (سبحۃالمرجان ص۵۶)
درس و تدریس :
غلام علی آزاد رقمطراز ہے:
بعد فراغت ، حدیث نبوی کا درس تا حیات جاری رکھا۔ آپ کا یہ دستور تھا کہ روز نماز فجر سے قبل مسجد نبوی شریف میں وعظ دیا کرتے تھے۔
(سبحۃ المرجان فی آثار ھندوستان ص ۵۶ طبع جدید حیدرآباد دکن )
شیخ عبدالحئی کتانی لکھتے ہیں :
علامہ ابو الحسن کبیر سندھی کے انتقال کے بعد ان کی مسند پر محدث حجاز علامہ شیخ الحافظ محمد حیات سندھی نے مسلسل ۲۴ برس درس دیا۔ ( فھرس الفھارس والاثبات ص۲۶۴)
عرب و عجم کے لاتعداد علماء نے مولانا سندھی سے استفادہ کیا۔ (سبحۃ المرجان )
عادات و خصائل :
شیخ مرادی لکھتے ہیں :’’وہ ایک پر ہیز گار انسان تھے۔ درس و تدریس کے علاوہ عوام الناس میں نہیں بیٹھے تھے ( یعنی فضولیات میں وقت ضائع نہیں کرتے تھے)نماز پنج گانہ مسجد نبوی میں پہلی صف میں ادا کرنا آپ کا معمول تھا‘‘۔ (سلک الدرر)
تصنیف و تالیف:
مسجد نبوی (مدینہ منورہ ) میں سارا دن تدریس کے سلسلہ میں مصروف رہتے ۔ دنیا بھر کے علماء و مشائخ استفادہ کرتے ہوئے نظر آتے ۔ نماز تہجد کے بعد مسجد نبوی میں آپ کا وعظ سننے کے لئے کثیر تعداد میں علماء صوفیاء مشاہیر اور عوام الناس موجود ہوتے، اس کے علاوہ عبادت اور ورد ووظائف لہذا شب و روز مصرو فیت کی وجہ سے تصنیف و تالیف کا موقعہ بہت کم ملا لیکن اس کے باوجود بعض کتابیں تحریر فرمائی ۔ قاسمی صاحب نے تصانیف کے سلسلہ میں درج ذیل اسماء تحریر کئے ہیں ۔ ان میں اکثر آج بھی غیر مطبوعہ اور منتشر ہیں کہیں ایک جگہ پر جمع نہیں ہیں ۔ ان کی تصانیف پر کام نہیں ہو سکا ہے ہو سکتا ہے کہ بعض کتابیں ان کے نام سے منسوب کی گئی ہوں ، بہر حال یہ تحقیق طلب کام ہے۔
٭ شرح علی الترغیب والترھیب للمنذری ۲جلدیں
٭ تحفۃ المحبین شرح الربعین للنووی
(مدینہ منورہ میں مکتبہ شیخ الاسلام عارف حکمت کی لائبریری میں قاسمی صاحب نے قلمی صورت میں مطالعہ کیا ہے)
٭ مختصر الزواجرلا بن حجر مکی
٭ شرح الاربعین حدیث امن جمع الملا علی القاری
٭ الایقاف علیٰ سبب الاختلاف ناشر مکتبہ سلفیہ لاہور
٭ رسالہ رد بدعت تعزیہ (مولانا معین ٹھٹوی کے رسالہ کارد )
٭ ارشاد النقاد الی تیسیر الجتھاد
٭ فتح الغفور فی النھی عن عشق المردان والنسوان (لڑکوں اور لڑکیوں سے عشق کرنے کے رد میں ، مولوی وفائی نے اس رسالہ سے اقتباس درج کیا ہے)
٭ تحریم الدخان (تمباکو حرام ہے ) مطبوعہ درگاہ مشوری شریف لاڑکانہ
٭ کراھیۃ الاخضاب بالسواد (سیاہ خضاب کی کراھت )
٭ الجنۃ فی عقیدۃ اھل السنۃ
٭ اتخاذ الماتم من الماثم
٭ رد الرسالۃ الشیخ معین السندی فی مسئلۃ الفدک رارث الانبیاء (معین ٹھٹوی کارد )
٭ رد قرۃ العیز علی البکاء علی الحین رضی اللہ عنہ (اعازادری کا رد )
٭ العطیۃ العلیۃ فی مسئلۃ الافضلۃ
٭ رد مواھب سید البشر فی حدیث الخلفاء الاثنیٰ عشر
٭ رسالۃ فی حرمۃ اخذ الاجرۃ علی القرآن
٭ مواھب الحکم شرح الحکم الھدایۃ کا مخطوطہ دارالکتب مصریہ قاہرہ میں زیر نمبر ۵ ۲۴۶۸ب میں موجود ہے ۔ (مکہ مکرمہ کے عجیمی علماء ص ۴۷)
٭ موقظ الھمم شرح الحکم العطائیہ
٭ تحفۃ الانام فی العمل بحدیث النبی علیہ الصلوۃ والسلام
تلامذہ :
علامہ محمد حیات سندھی مدنی سے عربستان ، مصر ، شام ، مراکش ، ہندوستان اور پاکستان سے سیکڑوں علماء و مشائخ اور حجاج کرام نے فیض حاصل کیا۔ ان میں بعض اہم نام درج ذیل ہیں :
٭ علامہ ابو الحسن صغیر ھوی محدث مدنی موٗلف : ’’انباء الانباء فی حیاۃ الانبیاء ‘‘
٭ علامہ محمد قائم سندھی (متوفی ۱۱۵۷ھ مدفون مدینہ منورہ ، تذکرہ علماء ہند ص )
٭ شیخ احمد بن عبدالرحمن سندھی
٭ علامہ سید غلام علی آزاد بلگرامی (متوفی ۱۲۰۰ ھ مدفون انڈیا)
٭ شیخ محمد سعید بن محمد امین سفر المدنی متوفی ۱۱۹۴ھ
٭ شیخ عبدالقادر بن خلیل بن عبداللہ رومی مدنی حنفی کرک
٭ شیخ سید عبدالقادر بن احمد بن عبدالقادر
٭ شیخ عبدالکریم بن عبدالرحیم الداغستانی متوفی ۱۱۹۸ھ
٭ شیخ سید علی بن ابراھیم بن جمعۃ العیسی کیلانی حلبی حنفی
٭ شیخ علی بن صادق الداغستانی حنفی ۱۱۹۹ھ
٭ شیخ عبدالکریم بن احمد الشراباتی
٭ شیخ علی بن عبدالرحمن استنبولی
٭ شیخ علی بن محمد الزھری الشروانی حنفی مدنی ۱۲۰۰ھ
٭ مفتی محمد بن عبداللہ الخلیفتی حنفی فقیہ مدنی ۱۱۷۱ھ
٭ شیخ علیم اللہ بن عبدالرشید حنفی لاھوری مدفون دمشق (شام )
٭ شیخ خیر الدین بن محمد ازاھد بن حسین محمد حنفی نقشبندی ۱۲۰۶ھ مدفون سورت (بھارت)
٭ سلسلہ فاخریہ کے سر خیل علامہ سید محمد فاخر زائر الہ آبادی متوفی ۱۱۶۴ھ مدفون برہان پور (انڈیا) کے تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے تذکار اولیاء ص ۳۱ مطبوعہ کراچی
٭ شیخ محمد بن عبداللہ فیروز احسائی ( ۱۲۱۶ھ ؍ ۱۸۰۱ء کو بصرہ (عراق ) میں وفات پائی)
٭ شیخ عبدالرحمن بن جعفر شافعی الکردی مدفون دمشق ( شام )
٭ شیخ عبدالخالق بن ابی بکر ز بیدی حنفی
٭ امیر یمانی محمد بن اسماعیل شارح ’’بلوغ المرام ‘‘ ۱۱۸۲ھ
٭ شیخ ابراہیم بن مصطفیٰ حنفی حلبی مداری مدفون قسطنطنیہ
٭ حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی سنی حنفی
٭ محمد بن عبدالوہاب نجدی خارجی ( بانی فرقہ وہابیہ نجدیہ )
نجدی کی تفصیلات جاننے کے لئے راقم الحروف راشدی کی دیکھئے کتاب : اصلی کون ؟
مسلک :
آپ کا مسلک کیا تھا؟یہ سوال اس لئے اٹھا کہ مولوی دین محمد وفائی نے صاف لکھا ہے: ’’شیخ محمد حیات ‘‘شخصی تقلید ’’کے قائل نہیں تھے‘‘۔ (تذکرہ مشاہیر سندھ ص ۷۲)
مشاہیر سندھ میں وفائی صاحب کی ایسی قیاس آرائیاں ، بے تکی باتیں بے شمار ہیں جن کا فقیر راشدی نے مختلف مقامات پر نوٹس بھی لیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ وفائی کی اہل سنت احناف کے ساتھ بے وفائی اظہر من الشمس بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ مولوی غلام مصطفی قاسمی فاضل دیوبند ( ڈائر یکٹر شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد ) علامہ سندھی کے مسلک کے متعلق غیر یقینی کیفیت میں مبتلا ہیں گویا کہ اہل حدیث وفائی کی عبارت کو فاضل دیوبند مزید تقویت پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں لیکن دوسری طرف ان کے قلم سے یہ بھی لکھا گیا ہے:
’’عربی اور فارسی کے تمام سوانح نگار شیخ محمد حیات سندھی کے حنفی مذہب پر متفق ہیں ‘‘۔
اس کے باوجود قیاس آرائیوں کو جنم دینا چہ معنی دارد؟اس کو زبردستی اپنے نظریات ٹھوسنے کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ اس لئے فقیر یہاں آپ کے مسلک کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
شیخ الاسلام ، مفتی مکہ ، امام حرم سید احمد بن زینی دحلان شافعی ؒ ( متوفی ۱۳۰۴ھ) رقمطراز ہیں :
’’محمد بن عبدالوہاب نجدی (بانی فرقہ وہابیہ ) ابتدائے عمر میں مدینہ منورہ میں طالب علم تھا۔ شیخ محمد بن سلیمان الکردی شافعی اور شیخ محمد حیات سندھی حنفی یہ دونوں بزرگ اس میں الحادو گمراہی کی علامت پاتے تھے اور فرماتے تھے یہ (طالب علم نجدی) عنقریب گمراہ ہو جایے گا اور اس کے سبب سے اور لوگ بھی گمراہ ہوں گے۔‘‘
(الدرر السنیۃ فی الرد علی الوھابیہ ص۴۳ مطبوعہ ایشیق استنبول ترکی)
علامہ سندھی کی پیشن گوئی بالکل سو فیصد ثابت ہوئی، مرد کامل نے جو کچھ قبل ازوقت نور بصیرت سے بتایا تھا وہ وقت آنے پر بالکل درست ثابت ہوا۔۔
علامہ محمد حیات سندھی کے ایک شاگر شیخ محمد بن عبداللہ فیروز احسائی علیہ الرحمۃ نے ابن عبدالوہاب نجدی کے رد میں ایک کتاب ’’الرسالۃ المرضیۃ فی الرد علی الووھابیہ‘‘ تحریر فرمایا۔
(مکہ مکرمہ کے عجمی علماء ص ۶۸)
علامہ حایت سندھی کے شاگر د ارشد مخدوم ابو الحسن صغیر سندھی حنفی محدث مدنی نے ’’انباء الانبیاء فی حیاۃ الانبیا‘‘ (عربی) میں کتاب تحریر فرمائی۔
علامہ حیات سندھی کی دور رس نگاہوں پر قربان کہ فرقہ وہابیہ کی ابھی بنیاد بھی نہ رکھی گئی تھی ، بانی فرقہ ابتدائی کتابیں پڑھ رہا تھا کہ آپ نے پیشانی دیکھ کر نوشتہ دیوار پڑھ لیا اور سب کچھ بتادیا۔ اس کا مطلب آپ ابتدا سے ’’وہابی تحریک‘‘ کے مخالف تھے بلکہ محاسبہ کرنے والے اولین میں آپ کا شمار ہوتا ہے اور آپ کے تامذہ نے بھی تحریراً و تقریراً اس کا رد بلیغ کیا۔ جس کو حضور پاک ﷺ نے قرن الشیطان(شیطان کا سینگ) قرار دیا۔ بھلا اس کی حمایت ایک عالم ربانی کیسے کر سکتا ہے۔ آج اگر کوئی ان دلائل کو نظر انداز کرکے انہیں غیر مقلد وہابی کہنے میں مصر ہو تو اس زبردستی و نا انصافی پر سوائے احتجاج کے اور کیا کر سکتے ہیں؟
وصال:
سندھ کے فاضل جلیل عظیم حنفی علام ، عاشق رول محدث، عارف باللہ محمد حیات مدنی نے اپنا سرمایہ مدینہ منورہ کے غریب اور مسافر طلبا پر صرف کیا ۔ روپیہ پیسہ کچھ بھی جمع نہیں کیا۔ صوفیائے کرام کی طرح ساری زندگی توکل علی اللہ میں بسر فرمائی۔ شب و روز قال اللہ و قال رسول اللہ ﷺ میں صرف کرکے ۲۶ صفر المظفر ۱۱۶۳ھ/۱۷۶۰ء بروز بدھ کو وصال کیا۔ حرم نبوی میں گنبد خضریٰ کے سایہ میںنماز جنازہ ادا ہوئی اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔ (سبحۃ المرجان، سلک الدرر)
(زیادہ تر مواد مولوی غلام مصطفی قاسمی کے مجموعہ ’’مقالات قاسمی‘‘ مطبوعہ حیدرآباد ۲۰۰۰ء سے لیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ باحوالہ مواد شامل کرکے مضمون ترتیب دیا گیا ہے۔)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )