حضرت شیخ حسین
حضرت شیخ حسین (تذکرہ / سوانح)
آپ معز بلخی کے صاحبزادے تھے، مشہور یہ ہے کہ آپ اپنے سگے چچا شیخ مظفر کے مرید اور خلیفہ تھے، لیکن آپ کے اپنے بیانات سے اس بات کا ترشح ہوتا ہے کہ آپ شیخ شرف الدین کے حلقہ ارادت میں داخل تھے اور شیخ مظفر کے تربیت یافتہ تھے اور انہی سے خلافت بھی حاصل کی، ادائل عمر میں دہلی میں رہ کر تعلیم حاصل کی، اس کے بعد درویشوں کے طریقوں یعنی سلوک کو حاصل کرنے کے لیے بغایت ایزدی حجاز کا سفر اختیار کیا اور مدینہ منورہ میں سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے اور اس سعادت سے جو تمام مقاصد کے حصول کی اساس و بنیاد ہے مشرف ہوکر اپنے آبائی وطن واپس تشریف لے آئے آپ کے کچھ مکتوبات بھی ہیں جو اپنے شیخ کے نہج پر اور طرز پر ہیں ان مکتوبات میں آپ نے توحید کے اسرار اور گوشہ نشینی اختیار کرنے کو بڑے لطیف انداز سے تحریر فرمایا ہے جس میں سے (مشت نمونہ از خروائے) چند نقل کیے جاتے ہیں جو آپ کے تقدس پر مزید روشنی کا باعث ہوں گے۔
مکتوب
میں ہیچمداں پھوٹتی ہوئی جوانی اور حصول تعلیم کے زمانے میں عرصہ دراز تک معاصی، ذلتوں، خواہشات اور خسران کے میدان میں بنی اسرائیل کی مانند حیران و پریشان گھومتا رہا، اتفاق سے چچا شیخ مظفر نے حجاز کے سفر کا رادہ کیا، اور مجھے بھی اپنے ہمراہ لے لیا، چچا محترم مسلسل پانچ برس تک اس فقیر کو شب ور وز تربیت، ارشاد، حقائق و معارف دکھاتے رہے، اگرچہ میرے اندر اتنی طاقت نہ تھی لیکن جیسا کہ قرون اولیٰ کے لوگوں پر اثر ہوا کرتا تھا اسی طرح مجھ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرب مکانی کا اثر ہوا اور اس قرب مکانی کی وجہ سے مجھ میں مکمل اور تام قابلیت پیدا ہوگئی، میں نے جو دیکھا اور جانا اس کو صرف اس حدیث کے ذریعہ بیان کیا جاسکتا ہے۔
اگر تمہیں وہ معلوم ہوجائے جو مجھے معلوم ہے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
جب بحکم ایزد ہندوستان واپس آیا تو یہاں آتے ہی ان فیوضات اور برکات میں کمی واقع ہونے لگی۔ اب تقریباً بیس برس ہوچکے ہیں لیکن پوری نہیں ہوئی، طاقت بھی نہیں رہی اور شب ہائے فراق نے عاجز و ناتواں کر دیا ہے اور اللہ سے درخواست کرتا ہوں کہ اے میرے رب! کس وسیلہ سے اور کس ذریعہ سے اس دولت کو پاسکتا ہوں جس کے ذریعہ اس جہان میں کامیاب ہوجاؤں اور آسمان غلام ہو جدائی کی سرائے میں دور رہ کر قیام کرنا اور دوستی و آشنائی کا اظہار کرکے بیگانگی اختیار کرکے آرام سے بیٹھ جانا نہ محبت کی اور نہ ہی ایفائے مودت کی علامت ہے۔
بیچارہ ولم شکستہ تاکے باشد
وز زخم فراق خستہ تاکے باشد
در آرزوئے کسی کہ بے او خوش نیست
برخیزد بگو نشتہ تاکے باشد
ترجمہ: (میرا دل بیچارہ کب تک ٹوٹا رہے گا اور فراق کے زخم سے کب تک خستہ رہے گا۔ دل کسی آرزو میں ہے جو اس کے بغیر خوش نہیں رہتا، آپ اس کو کھڑا ہونے کو کہیں یہ کب تک بیٹھا رہے گا)۔
عاقبت سربہ بیاباں بہند چوں سعدی
ہر کہ درسر ہوس چوں تو غزالے دارد
ترجمہ: (آخر سعدی کی مانند وہ جنگل کار استہ اختیار کرے گا، جس کے سر میں تجھ جیسے معشوق کی ہوس سوار ہوگی)
مکتوب
خطۂ عرب کی فضیلت محقق و مقرر ہے۔ مکتوبات جدیدہ میں جو شیخ کی خدمت میں مغرب کے بارے میں لکھے گئے ہیں ان میں یہ شکایت کی گئی ہے کہ اس علاقہ میں کسی کام میں کس طرح ہاتھ ڈالوں، اب کیا کروں جب تک عرب میں تھا تو (وہیں رہنے کے لیے قلبی طور پر) پابند تھا اور جب عرب سے یہاں آگیا تو پاؤں کی قوت اور طاقت نے جواب دیدیا ہے اور اب ہندوستان میں مجبوراً پڑا ہوں۔
مدینہ چھوڑ کہ ویرانہ ہند کا چھایا
یہ کیسا ہائے، ہوا سوں نے اِختِلال کیا
(حدائقِ بخشش)
شیخ فضل اللہ نے یہاں چالیس برس گزارے اور کچھ نہ کرسکے پھر انہیں ارشاد ہوتا ہے کہ عرب جاؤ وہاں پہنچنے کے بعد ان پر وہ عنایتیں ہوئیں جن کو بذریعہ تحریر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں شیخ مظفر سے ان کی زندگی ہی میں ان سے علیحدہ ہوگیا تھا ایک روز میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا،
مولانا! صاحب مشرب اور اصول و قانون سے واقف ہوگئے ہو اب ہم سے علیحدہ رہنے میں تمہیں کوئی نقصان نہیں، چنانچہ میں ان کے ہمراہ عرب سے واپس آ رہا تھا کہ راستہ ہی میں آپ فوت ہوگئے۔ آپ نے ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی تو نبی کریم علیہ السلام نے آپ سے فرمایا کہ تم اب واپس چلے جاؤ اور دوبارہ اپنے بچوں سمیت آنا، چنانچہ دوسری مرتبہ چچا صاحب ہم سب لوگوں کو اپنے ہمراہ لے گئے۔ میں نے قیام مکہ کے زمانے میں چچا سے کہا تھا کہ میں مکہ اور مدینہ کی فضیلت پر ایک رسالہ تحریر کروں گا، لیکن اب اسے کون سمجھے گا اگر چچا جی زندہ ہوتے تو ضرور لکھتا۔
شیخ حسین کے بعض دوستوں کو شیخ کے صدقہ اصل قانون اور ضابطہ کار کا طریق معلوم ہوا ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ دنیاوی خواہشات (جو شریعت سے ٹکراتی ہوں) کی مخالفت کرنا اور اخروی زندگی کے کاموں کی تکمیل کے لیے مشغول ہوجانا ہے جس کو دوسرے معنوں میں ذکر اللہ اور یاد الٰہی کہتے ہیں جو تقریب الی اللہ کے لیے معین و مددگار ہے۔
کافر نفست چوں زبوں شد
گر ہمہ کفرے ہمہ ایماں شدے
دمے کہ باتو بر آرم سعادت ابدست
شبے کہ بے تو گذارم مراچہ روز بد است
اوصاف ذمیمہ چوں بدل شد
ہر عقدہ کہ در تو بود حل شد
ترجمہ: (تیرا نفس کافر جب فرمانبردار ہوجائے تو تمام کفریات ایمانیات سے بدل جائیں، تیری یاد میں ایک سانس بھی سعادت ابدی کا باعث ہے، تیرے بغیر ایک رات گزارنا بدبختی ہے۔ جب میرے اوصاف تبدیل ہوجائیں تو تمام مشکلات ختم ہوجائیں)
صوفیا کا تمام علم ان تین شعروں کے اندر موجود ہے اگر نیک بختی ساتھ دے اور آدمی عرب کا سفر کرے تو مبارک اور صد مبارک اس لیے کہ عشق میں مسافت کی درازیوں اور لمبائیوں کو طے کرنا بڑا سہل اور آسان ہوتا ہے اور کارکنان قضاد تقدیر کا یہ اعلان ہے کہ
کہ جو چیز تجھے راہ حق سے ہٹا دے وہ تیرا شیطان ہے۔
میں یہ نوشتہ تمام دوستوں کو دے کر خدا کے سپرد کرتا ہوں۔
بے شک بہتر زادِ راہ تو تقویٰ ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کافی کارساز ہے۔
گر خیل و سپاہ حسبی اللہ
درپشت پناہ ربی اللہ، والسلام
ترجمہ: (اگر گھوڑے اور لشکر ہوں تب بھی حسبی اللہ، اور اللہ ہی معین و مددگار ہے)
نیز آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے پیر صاحب سے سنا تھا انہوں نے حجاز میں قیام کے زمانے میں فرمایا کہ ہندوستان میں کوئی مرد اللہ نہیں ہے، میں نے عرض کیا کہ دنیا میں ایسی کوئی بھی جگہ نہیں جہاں کوئی مردِ خدا نہ ہو کیونکہ اسی مرد اللہ کی وجہ سے وہ آبادی برقرار رہتی ہے۔ شیخ نے فرمایا کہ آپ سچ کہتے ہیں مگر آپ کو ایک مغالطہ ہوا ہے، وہ یہ کہ جن لوگوں کے دم و خم سے آبادیاں برقرار ہیں وہ لوگ مرد صالح ہیں اور وہ ضرور موجود ہیں مگر مرد اللہ تو کچھ اور ہی ہوا کرتا ہے اگر ہندوستان میں مجھے کوئی مرد اللہ معلوم ہوتا تو میں اس کا مجاور اور خدمت گزار ہوتا۔
مکتوب
حق کے طلبگاروں کے لیے تین اصولوں کی پابندی از بس ضروری ہے۔
1۔ ہمیشہ بھوکا رہنا، روزہ کی حالت ہو یا نہ ہو، بھوک ہی وہ بنیادی حکم ہے جس پر دیگر چیزوں کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اس کے علاوہ اور کوئی اتنا عظیم اصول نہیں ہے۔ چونکہ سلوک کا دار ومداری ہی بھوک پر ہے اس لیے اس سے روگردانی اور صرف نظر نہ کی جائے۔ ذوق و شوق کی بنیاد بھی بھوک پر ہے، جو لوگ قوی ہیں وہ بھی اگر روزہ نہ رکھیں تو بھوکے رہیں، اور جو مبتدی نو آموز یا کمزور ہے وہ بھی بھوک کی خاطر روزہ رکھے، خلاصہ یہ ہے کہ تمام کاموں کی بنیاد بھوک ہے۔
2۔ دل لگاکر اللہ کی عبادت میں مشغول رہنا۔
3۔ فضول باتوں کو ترک کردینا، انہی تینوں چیزوں کے انبیاء اور اولیاء حامل تھے، ان تین چیزوں کی بدولت جو ذوق پیدا ہوتا ہے حقیقت میں وہی ذوق ہے۔ نفس اپنی جگہ بہکانےا ور گمراہ کرنے کے در پے ہیں مگر جس انسان کے اندر یہ تینوں چیزیں جمع ہوجاتی ہیں اس کے لیے نفس و شیطان اور دیگر مخلوق سے محفوظ رکھنے کے لیے قلعہ کی مانند ہیں کیونکہ ان تین چیزوں کے ساتھ خدا کا فضل شامل حال رہتا ہے۔
مکتوب در پند فرزند
بیٹے! قاضی امجد آپ نے کچھ کہنے اور مفید باتیں تحریر کرنے کی درخواست کی ہے یہ بات پڑھ کر بڑی مسرت ہوئی، بزرگوں نے اگرچہ کوئی بات ایسی نہیں چھوڑی جس کو لکھا اور کہا جائے تاہم میں فقط اتنی ہی نصیحت کرتا ہوں کہ آپ اپنے نفس کو ہمیشہ اپنا دشمن سمجھیں اور خواہشات نفسانیہ کے خلاف مسلسل اپنی کوششوں کو مصروف بکار رکھنا، کام میں مشغولیت کو اللہ کی نعمت سمجھو، جس کا طریق کار یہ ہے کہ اپنے قلب و جگر کو اپنا قریب جانو اور جتان وقت اللہ کی یاد میں گزارو اسے اسلام سمجھو اور جو وقت اللہ کی یاد سے غفلت میں گزرے اسے اعتقاداً نہیں بلکہ اعتباراً کفر سمجھو، اتنی باتیں تو دشمن سے بچنے کے لیے لکھی گئیں علاوہ ازیں اپنے ہاتھ پاؤں کو صغائر اور کبائر سے محفوظ رکھو اور لیل و نہار توبہ میں تجدید کرتے رہو، دل کے حالات کی کھوج لگاؤ اور ہم سے جتنے وظائف حاصل کیے ہیں ان کو پابندی سے پڑھتے رہو، تمام کاموں کی اصل اور بنیاد توبہ ہے اور توبہ کے مقامات کی مثال اس زمین کی ہے جس پر ایک عمارت بنائی گئی ہو (اس کے اوپر جتنی بلند چاہے مزید عمارت بنائی جاسکتی ہے) اور جس کے پاس زمین ہی نہ ہو وہ عمارت کہاں تعمیر کرے گا، مجھے اور آپ کو سب سے اہم اس بات کی پابندی کرنا لابدی اور لازمی ہے کہ اپنی آنکھ، ناک، کان، ہاتھ اور زبان کو تمام صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بچائے رکھیں اور شب و روز اسی تصور میں گم رہیں کہ آج ہماری زبان پاک رہی یا نہیں نیز اسی طرح یہ بھی معلوم کریں کہ ہاتھ پاؤں بھی محفوظ رہے یا گناہوں کی گندگیوں میں ملوث ہوگئے اگر یہ معلوم ہوجائے کہ گناہ کی گندگی میں کوئی عضو مبتلا ہوگیا تھا تو فوراً توبہ کی جائے اور ایمان کی تجدید کرکے فوراً اللہ کی عبادت میں مشغول ہوجانا چاہیے، اگر آپ اس فکر میں مشغول اور اسی غم میں مسحور رہے تو تمام مخلوقات کی نیکیوں (کا ثواب) آپ کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، اس زمانے میں حلال روزی کھانے والا اور گناہوں سے پاک رہنے والا ہمارے زمانے کا جنید ہے اور تدبر اور تفکر سے کام لیا جائے تو یہی اصل اور خلاصہ کلام معلوم ہوگا باقی دوسری باتیں تو ایسی ہیں جیسے پانی پر لکیر (جو فوراً ختم ہوجائے گی) جب بھی یہ دولت حاصل ہوجائے تو شکر واجب و لازم ہے اور اگر یہ نصیب نہ ہوسکے تو پھر شریعت پر چلتا رہے اس لیے کہ جو دنیا کی زندگی میں شریعت پر چلتا رہے گا وہ کل پل صراط پر بھی سلامتی سے گزر جائے گا اور جو شخص دنیا میں شریعت پر چلنے میں لغزش کھاتا رہے تو وہ کل کو پل صراط پر بھی یقیناً لغزش کھائے گا۔
دوزخ و جنت ازیں جامی برند
راحت و محنت از نیجامی برند
ترجمہ: (دوزخ و جنت پر تو اسی دنیا میں لوگ چلتے ہیں۔ راحت و مشقت بھی اسی دنیا میں اٹھاتے ہیں، یعنی آخرت میں یہیں کی کمائی کا ثمرہ پیش کیا جائے گا۔ دوزخ و جنت اور آخرت کی راحت و مشقت وہ دنیا ہی کے کاموں کا نتیجہ ہوگا کوئی نئی چیز نہیں ہوگی) جہاں تک ہوسکے شریعت کے حدود میں رہ کر اس پر ثابت قدم رہو تاکہ اندرونی اور بیرونی سعادتوں کو حاصل کرسکو۔ آہ تمام عمر فسق و فجور میں گزر گئی اورعمر بھر میں ایسی دو رکعات بھی نصیب نہ ہوسکیں جو اللہ کے دربار میں منظور و پسندیدہ ہوتیں اور نہ ہی کوئی ایسا روزہ نصیب ہوسکا جس کو فی الواقع روز کہا جاسکے، ہماری حالت تو یہ ہے کہ صبح کو مسلمانوں کی مانند اٹھتے ہیں اور دن بھر (کافروں کی طرح) گناہوں میں مصروف رہتے ہیں اور رات کو سوتے وقت پھر اسلام لاتے ہیں۔
رباعی
فسق است وفجور کار ہر روزہ ما
پر شدزحرام کاسہ و کوزہ ما
می خندد روزگار دمی گوید عمر
بر طاعت و برنماز و برروزہ ما
ترجمہ: (ہمارا دن بھر کا مشغلہ فسق و فجور ہی ہے، ہمارا لوٹا اور پیالہ حرام سے بھرے ہوئے ہیں زمانہ تو ہنس رہا ہے اور عمر ہماری اطاعت، نماز اور روزہ پر رو رہی ہے)
اب تو طاعت و عبادت کا غم نہیں بلکہ ہر وقت یہی فکر دامن گیر رہتی ہے کہ ایمان کی تجدید کرکے کلمۂ شہادت پڑھتا رہوں تاکہ بوقت مرگ اسی کا ورد زبان پر رہے۔ اگر ایمان لسانی اور توحید زبانی کی بھی توفیق نہ ہوئی تو اس میدان سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگے۔
در مجلس وصالت خمہا کشندمرداں
چوں دور خسروآید مئے درسبونماند
ترجمہ: (آپ کی وصل کی مجلس میں لوگ پیالوں پر پیالے چڑھا گئے لیکن جب خسرو کی باری آئی تو اس وقت صراحی میں شراب ختم ہوچکی تھی)
اب عمر کا آخری وقت ہے زندگی کی اکہتر بہاریں گزر چکی ہیں اب کسی ماہ و سال کی امید نہیں تمام دوستوں میں سے فقط ایک دوست ہے جو اپنی پاکیزگی میں مصروف ہونے کے باوجود بوقت فراغت اس مفلس، بے نوا، پُرانے بت پرست اور نفس امارہ کی قید کے مبتلا کو اپنے شیخ کی محبت کی وجہ سے جس دن اور جس وقت یہ فقیر یاد آئے سلامتی ایمان و توحید اور خیر و عافیت کی دعاؤں سے یاد رکھے (اسی طرح) دوسرا خط ایک تلاشی راہ حق کو تحریر فرمایا جس میں لکھتے ہیں کہ ایک اسم الٰہی مقرر متعین کرکے پڑھا کرو، برائے نام آپ کو بہت سے درویش ملیں گے لیکن وہ فی الواقع شعبدہ باز اور ریا کار (بے دین لوگ) ہیں۔ شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کا گھرانہ نہ ملمع ساز تھا اور نہ ہے، آپ کے در دولت سے لوگوں نے طریقت کا درس لیا اور ماسوی اللہ سے الگ رہنا سیکھا، آپ فرمایا کرتے تھے۔
بولایت محبت صفریست عاشقاں را
بجہاں چہ دید آنکس کہ ندیدایں جہاں را
ترجمہ: (محبت کی سلطنت میں وہ عاشق تہی دامن رہے، جنہوں نے اس جہان میں اس جہاں کو نہ دیکھا)
جو قدم راہ حق پر نہیں اٹھایا گیا اس قدم کے اٹھانے کی محنت و مشقت بے کار ہے ایسے آدمی کو چاہیے کہ وہ روئی دھنتا رہے اسی میں اس کے لیے نماز، روزہ اور دیگر عبادات سود مند ہیں۔ مَردوں اور ہیجڑوں کے کام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ فرشتوں کو بت پرستی سے کوئی تعلق نہیں، جو چیز آپ کو صحیح راستہ سے روکے وہی آپ کا طاغوت ہے۔ والسلام
مجھے لوگوں کے التفات و عنایت کی پرواہ نہیں، خیریت و سلامتی اسی میں ہے کہ انسان خود مضبوط رہے اگر بت خانہ سے بھی نصیحت اور خیر و بھلائی کی آواز آئے تو اسے بھی قبول کرلینا چاہیے۔ جوانی کے زمانے میں بڑھاپے کے آنے کی فکر نہ کرو۔ کسی ایک ماہ میں مرض کے دو تین چکر لگانے سے فکر نہ کرو۔ کام کرتے رہو خیریت سے رہو گے اصل کام عادت کو تبدیل کرکے اچھے کاموں میں مشغول ہونا ہے۔
اس کی مثال وضو کی سی ہے اگر وضو نہیں ہوگا تو نماز وغیرہ بھی درست نہ ہوگی کیونکہ اصل چیز طہارت ہے (اور فقدان طہارت سے عبادت مردود ہوتی ہے) اسی طرح اگر سلوک میں طہارت حاصل نہ ہوگی تو کچھ بھی نہ ملے گا، آپ نے جو یہ لکھا ہے ’’کہ سردی سے تکلیف ہوتی ہے اگر اجازت ہو تو کپڑے پہن لیا کروں‘‘ تو اس کے بارے میں عرض کرتا ہوں کہ لباس، کفن اور خرقہ پہننا یہ ایک رسم ہے اور فقیر تو ایک بلند منزل کا متمنی اور طلب گار ہے اسے کپڑے پہننے کا کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا، جو چاہو پہن لو۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ طالب حق کو جہاں کسی ظاہری صورت سے سمجھنے میں اشکال ہو تو اس سے انکار یا اس پر اعتراض کرنا موجودہ مرتبہ تک رسائی حاصل کرنے کی ناشکری ہے ہمارے اکابر بزرگوں کا ارشاد ہے کہ جب باقی رکھو، اسی طرح اگر پیٹ بھرنے کے لیے پانی میسر ہو تو اسے بھی سیر ہوکر نہ پیو کیونکہ اس سے بھی بجز توفیق الٰہی کے کوئی فائدہ نہیں ہوتا (جب اصل کارگر اور کار فرما توفیق الٰہی ہے تو دوسری چیزوں سے سیری حاصل نہ کی جائے) یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ ہمیشہ پانی پیتے رہنے سے حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور پیاس تیز تر ہوتی رہتی ہے۔ جب بہت بھوک ہو یا پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہو تو معمولی مقدار میں پانی استعمال کرلیا جائے لیکن اصل بات وہی ہے کہ زیادہ تر بھوکا ہی رہنا مناسب ہے اس لیے کہ آدمی خوب سیر ہوکر کھاتا ہے اور اسی طریقہ پر برسہا برس گزار دیتا ہے تو بعض اوقات اس میں فائدہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
اس کے برعکس اتنا بھوکا رہنا جو ہم نے لکھا ہے یا اتنی شب بیداری جس میں جدید وضو کی ضرورت ہی نہ پڑے یا تھوڑی دیر سونے کے بعد جاگنا اور وضو کرکے رات جاگتے جاگتے عبادت میں گزار دینا، یہ سب چیزیں سود مند اور نافع ہیں ان کے ذریعہ دل کی صفائی اور حیا پیدا ہوتی ہے اگر قلت کلام ربط اور ذکر یکجا جمع ہوجائیں تو ان کے ذریعہ سے بھی قلب کی صفائی ہوتی ہے اور یہ بات تجربہ شدہ ہے کہ گریہ و زاری آہ و بکا بالکل بے کار ہے، اصل بات تو دل کی حفاظت کرنا ہے کیونکہ یہی بلند تر درجہ ہے جس کے لیے جسمانی قوت اور اوائل جوانی کا زمانہ درکار ہے، شبانہ روز میں سے کھانے کا ایک وقت مقرر کیا جائے اور اس کے بعد اپنے دل کو تمام چیزوں سے فارغ کرکے رات کو حضور قلب سے اللہ کی معرفت کی کوشش اور سعی کرے اور اللہ کے حرکات و سکنات، اقوال و افعال، عزت و دبدبہ کا مشاہدہ کرے (اس لیے کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے)
تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔
(اور اتنی کوشش کرے کہ وہ اس آیت کا مصداق) کھلم کھلا دیکھ لے، اگر اس مقام تک رسائی حاصل کرے اور اکثر و بیشتر اوقات اسی فکر میں لگا رہے تو اس مشغولیتِ حق کو تمام دولتوں سے عظیم ترین دولت سمجھے۔
ہر کہ درد اہل ہنر دراہل عیب
آفتابے دارد اندر جیب غیب
عاقبت روزے بود کاں آفتاب
دربرش گیرد برانداز و نقاب
ترجمہ: (جو شخص اہل عیب میں سے اہل ہنر ہوگیا ہے دراصل وہ ایک پوشیدہ آفتاب کا حامل ہے، انجام کار وہ خود ایک دن آفتاب بن جائے گا اسی کے دروازے کا ہوجا ورنہ وہ کسی دن غروب ہوجائے گا)۔
اگر کوئی شخص اس مشغولیت سے محروم رہ جائے تو وہ درد سے واویلا نہ کرے اور اس مشغولیت سے حرماں کے سبب تمام اوراد و وظائف سے محروم نہ ہوجائے اگر وہ چیز نہیں ملی تو اوراد و وظائف پر ہی اکتفا کرے۔
از بخت بدم اگر فروشد خورشید
از نور رخت مہا چراغی گیرم
ترجمہ: (اگر میری بدبختی سے چاند غروب ہوگیا (تو کیا ہوا) اے چاند تیرے نور کی بجائے میں ایک چراغ سے روشنی حاصل کرلوں گا۔
جب آپ کاروبار بہادر اور شیر قسم مردوں کی مانند معرض وجود میں نہ آئے تو اس عجز سے نا امید نہ ہوجانا چاہیے بلکہ کام میں مردانہ وار مشغول ہوجانا چاہیے اپنی جانب سے اپنے تمام افعال و اقوال، حرکات و سکنات میں اس امر کی پوری کوشش کی جائے کہ راہ حق میں کسی چیز کو ترک نہ کیا جائےا ور ہر وقت ایسے کام کرتے رہنا چاہیے جو سچے اور حق ہوں، اس طرح سے ان شاء اللہ دین اور دنیا دونوں عالم میں کامیابی ہوگی۔
مکتوب:
اللہ تعالیٰ بلند ہمت اور اپنے عزم میں پیکر استقلال لوگوں کو محبوب رکھتا ہے اور گھٹیا وردی قسم کے لوگوں کو ناپسند کرتا ہے اور بلند ہمتی یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی ہمت کی پرواز کا رُخ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور خوشنودی کی طرف کرے، شیخ عبداللہ تشتری اپنے نفس کو خطاب کرکے فرمایا کرتے تھے کہ اے عبداللہ! دنیا میں اپنی خواہشات اور اپنے نفس کی مخالفت جیسی اور کوئی چیز نہیں ہے، یہ قوم (مراد صوفیائے کرام) اپنے نفسوں سے اس طرح لڑائی اور جنگ کر رہے ہیں کہ قبر تک جانے تک صلح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، اگر کسی وقت اپنے نفس کی موافقت کرتے ہیں تو وہ بھی ظاہراً نہ کہ اعتقاداً اور باطناً اور ظاہراً یہ لوگ زنار پہنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ظاہر کو باطن کے ہم آہنگ کردیا جائے تاکہ بظاہر نفاق کی صورت بھی لازم نہ آئے، قرآن مجید میں ہے۔
(کیا آپ نے اس کو دیکھا جو اپنی خواہش کو اپنا اللہ بنائے ہوئے ہے)
جملہ کائنات سے دل برداشتہ ہوکر دلجمعی سے اللہ کی جانب متوجہ ہوجانا اولیاء اور انبیائے کرام کا کام ہے، اور تمام دنیا چند ایکڑ زمین اور معدودے لقموں کے چکر میں پھنسی ہوئی ہے اور خوش و خرم نظر آتی ہے لیکن یہ زمین اور قریہ ان کی دلجمعی کا سبب نہیں ہیں، دنیا والے اللہ والوں اور فقیروں سے اتنا ڈرتے ہیں کہ اتنا اللہ سے بھی نہیں ڈرتے، اور دنیا میں کوئی ایسا آدمی نہیں جو تمام دینا سے اپنے اعتقاد کو ہٹا کر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر کلی اعتماد و اعتقاد خالی ایک ماہ یا چھ ماہ تک بھی کرسکتا ہو (اگر کوئی اس طرح کرکے دکھائے) تو کافروں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ پر اعتماد کرنے والوں کو اللہ ضائع نہیں کرتا۔ (یعنی ایسے آدمی کی اللہ تعالیٰ ضرور معاونت فرماتا ہے) بہادر اور جوان مرد بنو تاکہ اہل دنیا سے الگ رہ سکو، اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر بھروسہ کرو تاکہ وہ تمہیں اس طرح بلند رتبے عطا کرے، جس طرح تمہیں چھوٹے سے بڑا کیا اور بچپن سے جوانی دی۔
مکتوب۔ اللہ کی معیت مخلوق کے ساتھ
دوستو اور بھائیو! میں اس مکتوب کے اندر ربوبیت و الوہیت کے اسرار کو بیان کروں گا، ہر وہ شخص جو شیخ الاسلام شیخ مظفر کے نقش قدم پر چلتا ہے وہ حق پرست ہوتا ہے اور باطل پرستی سے اس کا کوئی علاقہ نہیں ہوتا، آپ ہی نے ان اسرار سر بستہ کو کھولا اور پھر انہیں زنادقہ کے خیالات باطلہ سے ملوث نہ ہونے دیا۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اس کے ظاہری معنی تو یہی ہیں کہ تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے، ایک شے کو دوسری شے کے ساتھ ہونے کو معیت کہتے ہیں، اور یہ معیت دو قسم پر ہے ایک حقیقی، دویم مجازی۔ علمائے محققین کی رائے ہے کہ اس آیت میں معیت مجازی مراد ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی کسی شے کے ساتھ باعتبار جسدو ذات کے نہیں بلکہ اللہ کی معیت دنیا کی چیزوں کے ساتھ باعتبار علم و قدرت کے ہے چنانچہ متکلمین بھی یہی کہتے ہیں لیکن صوفیائے کرام اس کے ظاہری معنی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کے حقیقی معنے تلاش و طلب کرتے ہیں۔ ان کا مذہب یہ ہے کہ اللہ کی معیت تمام چیزوں کے ساتھ باعتبار ذات کے ہے لیکن اس بات کا خیال ضرور رکھا جائے اس کی معیت اس طرح نہیں جیسے ہمارے ہاں ایک جسم دوسرے جسم کے ساتھ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا جسم نہیں، اور نہ ہی اللہ کی معیت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جواھر کی معیت جواھر کے ساتھ ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ جوہر بھی نہیں اور نہ ہی اس کی معیت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے عروض کو جوہر سے معیت ہوتی ہے اس لیے کہ وہ عرض بھی نہیں چنانچہ متکلمین نے ان ہی تین چیزوں کی معیت سے اللہ کی معیت کی جداگانہ قرار دیا ہے۔ لیکن صوفیائے کرام اللہ کی معیت مخلوق کے ساتھ ایک چوتھی قسم کی معیت سے ثابت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی معیت مخلوق سے اس طرح ہے جس طرح روح کی معیت جسد کے ساتھ، اس لیے کہ روح نہ قلب کے اندر ہے اور نہ دل سے متصل اور نہ ہی منفصل، بلکہ روح اور جسد دونوں علیحدہ علیحدہ عوام سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس طرح روح کو جسد میں داخل خارج متصل اور جدا ہونے سے کوئی نسبت نہیں اور ان میں سے کسی ذرے میں حقیقتاً ذاتی اعتبار سے روح موجود نہیں لیکن تمام دنیا کو معلوم ہے کہ روح جسم میں پائی جاتی ہے، بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کا حال ہے۔
جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو بھی پہچان لیا اس میں اسی سر کی طرف اشارہ ہے۔ اس جگہ ایک اشکال ہوسکتا ہے وہ یہ کہ اس طرح تو اللہ تعالیٰ کی ذات تمام ناپاک اور گندے مقامات پر بھی موجود ماننی پڑے گی جو بظاہر ممکن ہے۔ صوفیائے کرام جواب میں فرماتے ہیں کہ اس بات پر جمیع امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ تمام ناپاک اور گندی چیزوں کو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمایا ہے اور اسی کی حفاظت کے بغیر ان چیزوں کا بقا ناممکن ہے تو اس قسم کی معیت سے اللہ کی ذات میں کوئی عیب لازم نہیں آتا۔ نیز یہ بھی سب جانتے ہیں کہ فعل بغیر فاعل اور صفت بغیر موصوف کے وجود میں نہیں آیا کرتے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ روح حاکم ہے اور جسم کے تمام اجزاء میں موجود ہے جسم کے تمام اجزاء اور حیات وغیرہ تمام اسی کے ہاتھ میں ہے، اسی اعتبار سے جسم کی اندرونی کیفیات مثلاً خون وغیرہ روح کی طہارت پر اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔ متکلمین اللہ واحد کی معیت کو سمجھ نہ سکے، بلا تقدیر تجزی و تقسیم و حلول تمام مکنات میں ماننے میں تاویل کرتے ہیں۔
گفت تو کے دیدی آں رخسار را
چشم مجنوں بابد آں دیدار را
تانیاید عشق مجنونے بدید!
کے بود لیلیٰ نجا تو نے پدید!
گزبچشم من نہ بینی روئے او
توتیا سازی زخاک کوئے اد
ترجمہ: (تو اس حسین رخسار کو نہیں دیکھ سکتا اسے دیکھنے کے لیے تو مجنون جیسی آنکھیں درکار ہیں جب تک تیرے اندر عشق نہیں تو کسی مجنون کو دیکھ تاکہ اس سے لیلیٰ کے مقام کا اندازہ کرسکے اگر تو اسے میری آنکھوں سے نہیں دیکھتا تو پھر اس کی گلی کی خاک کو سُرمہ سمجھ کر اپنی آنکھوں میں ڈال لے)
جب بڑے باہمت لوگوں کی سعی اور کوشش اپنے مقصد کو طلب کرنے میں کوتاہی کرنے لگی تو میں نے انہیں تحریص دلانے کے لیے اپنے قلم کو ہاتھ میں لیا تاکہ جو لوگ قلب کی صفائی سے محروم ہیں ان کو اللہ کے اسرار کے مراقبہ سے آگاہ کردوں تاکہ وہ لوگ اپنے وجود کو اللہ کے ساتھ اور اللہ کی ذات کو اپنے ساتھ سمجھیں جو لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنے سے دور سمجھتے ہیں وہ بے ادب اور احکام خداوندی کے مخالف ہیں، سب سے زیادہ محروم وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ نہیں سمجھتے۔ والسلام۔
مکتوب، اللہ کے حقیقی ناموں کے بیان میں
اے بھائی! موحدین کی اصطلاح جو شرح آداب المریدین میں ہمارے شیخ کی مشہور و معروف کتاب منازل السائرین سے لی گئی ہے آپ کو معلوم ہی ہے کہ اسم حقیقی میں ذات باری تعالیٰ ہے اور جب تک موحدین کی اصطلاح نہ معلوم ہوجائے اس وقت تک اللہ کے حقیقی اسماء اچھی طرح فہم میں نہیں آسکتے۔ ان شاء اللہ (ہمارے اس مکتوب سے) اسماء حقیقی کی وضاحت ہوجائے گی۔ اس کو اولاً ایک مثال سے سمجھو کہ ایک جگہ ایک گہرا پانی ہے جو ذات صفات، اسباب، نفس اور ہستی سے موصوف ہے یہی پانی تمام نباتات کو سیراب کرتا ہے اور تمام جگہوں پر گھوم جاتا ہے اور دیگر ضروریات (مثلاً پینا، نہانا، برتن و کپڑے وغیرہ صاف کرنے) میں کام آتا اور استعمال ہوتا ہے۔
یاد رکھو! کہ پانی کی ہستی اس کی ذات ہے اور اس کا نفس عموماً استعمال ہوتا ہے یہی پانی تمام نباتات میں ایک خاص قسم کی تاثیر رکھتا ہے اور اپنی ذات کے اعتبار سے تمام درختوں وغیرہ کو نشوونما دیتا اور پھلوں کے اندر مختلف الوان اور مزے پیدا کرتا ہے اور یہ پانی کے اوصاف ہیں۔ پھل ، پتہ، شاخ، کانٹا اور پھول میں پانی ہی کی صفات اثر انداز ہیں، اور وہ اپنے اثر ہی کے ذریعہ مختلف رنگوں اور شکلوں میں جلوہ گر ہے۔
پانی کے اندر چونکہ یہ تاثیر ہے اسی لیے اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے اس سے امتیازات حاصل ہوتے ہیں یہ اسماء ہیں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ اس کے من وجہ اسماء ہیں اور وہ حقیقی اسماء ہیں جن سے مرتبہ بمرتبہ امتیاز حاصل ہوتا ہے اور ان اسماء حقیقیہ پانی تو علامت ہے اور وہ عین اس کے نام ہیں جو اس سے علیحدہ نہیں ہوتے اور پانی کی تاثیرات فی الواقع پانی ہی ہیں جو دونوں مرتبوں کا مجموعہ ہے پانی کی ذات کو اسی لیے صورت جامعہ کہا جاتا ہے اور دوسر انام عالم اجمال ہے اور صورتیں موجود ہیں وہ تمام صورتیں پانی ہی کا کمال ہے، پس اگر تو کسی قسم کے نباتات کو دیکھنا چاہتا ہے تو پانی کو دیکھ لے، اس میں آپ کو اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ کا سر جلوہ گر نظر آئے گا۔
اس کے بعد غور سے سنو! کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ستودہ صفات اوپر، نیچے دائیں بائیں، آگے پیچھے وغیرہ سمتوں سے بلند تر ہے اس لیے کہ وہ تو ایک غیر محدود اور لامتناہی نور ہے (وہ محدود چیزوں میں کیسے سما سکتا ہے) وہ ابتدا و انجام اور ترکیب وغیرہ سے پاک ہے، اسی طرح وہ تغیر و تبدل، تقسیم و فنا اور عدم کے اوصاف سے وراء الوراء ہے، وہ فی الواقع وحدہ، لا شریک ہے اس کی ذات میں کثرت کا احتمال نہیں۔
جب آپ نے یہ مقدمہ ذہن نشین کرلیا تو اب یہ سمجھیے کہ وہ حقیقی نور ہے، لامحدود و لامتناہی ہے وہ نقص کی تمام تر اوصاف سے منزہ ہے اس حقیقی نور کی نظر و تاثیر اور ہے اور اس کا وہ نور جو اس حقیقی نور سے عام اور تمام موجودات کو شامل ہے وہ اور تاثیر رکھتا ہے اور ان دونوں کی مجموعہ کی تاثیر اور ہے۔ جب آپ نے یہ باتیں سمجھ لیں تو اب یہ سمجھ لیا جائے کہ اس کی ذات ایک نور ہے اور وہ نور تمام موجودات کو شامل ہے اور اس نور کی صفات یہ ہیں کہ مختلف شکلوں کی اس میں قابلیت ہے۔
اے بھائی! یہ نور تمام موجودات میں عام ہے اور تما م چیزوں کا وجود اور بقاء اسی نور پر موقوف ہے۔ دنیا میں کوئی ذرہ ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا نور کار فرما اور محیط نہ ہو، نور کے اس احاطہ کو وجہ نور کہتے ہیں، جو شخص اللہ کے وجہ تک رسائی حاصل کرلیتا ہے وہ اس کو دیکھتا ہے اور دیکھ کر اس کی عبادت کرتا ہے لیکن موحدین کی اصطلاح میں یہ مشرک ہے۔
(اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہوتے ہیں) اس لیے کہ روزانہ لوگوں سے جنگ میں مشغول ہیں اور اللہ پر انکار کر رہے ہیں، ہر وہ شخص جو وجہ اللہ سے گزر کر اللہ کو دیکھتا ہے اور اس کی پرستش کرتا ہے وہ موحد ہے وہ اعتراض و انکار سے آزاد رہتا ہے اور مخلوق اللہ سے صلح و آشتی کرتا ہے۔
اے بھائی! اس بحرِ محیط، نور غیر محدود و لامتناہی تک رسائی حاصل کرنی چاہیے اور اس نور کو دیکھنا چاہیے اور اس نور کو عالم میں دیکھ تاکہ شرک سے پاک رہ سکے اور حلول و اتحاد کے عقیدے کا بطلان ہوسکے اور انکار و اعتراض کی گنجائش نہ رہ سکے اسی طرح مخلوق سے صلح اور دوستی کرنے کا طریقہ حاصل کیا جاسکے، میری اس تمام تقریر میں نیکو کار تامل کرے تاکہ اس کے فوائد سے بہرہ مند ہوکر اسمائے حقیقیہ سے روشناسی حاصل کرسکے،
اخبار الاخیار