آپ کے دوسرے خلیفہ حضرت شیخ ابراہم رام پوری ہیں۔ جو غایت فقر و فنا سے متصف تھے۔ اور بڑے عبادت گذار اور مجامد تھے۔ آپکا ذات بے کیف کا شغل ہوا[1] کے ذریعے حاصل ہوا تھا۔ چنانچہ آپ ہمیشہ فنائے احدیت میں مستغرق رہتے تھے۔ اس فقیر کو م علوم ہوا ہے کہ حضرت شیخ ابراہیم لاہوری اہل بیت کی محبت میں بے اختیار تھے۔ چنانچہ جن ایام میں آپ سیدہپورہ میں رہتے تھے۔ جو کرنال کے نواح میں ہے تو آپ ہمیشہ زمین پر سوتے تھے۔ آپ کہتے تھے کہ کتنے سادات ہیں کہ جنکو چارپائی میسر نہیں ہے۔ آداب کے خلاف ہے کہ میں چار پائی پر سوجاؤں اور سادات زمین پر سوئیں اس سے ظاہر ہے کہ آپکو فنافی الرسول بدرجۂ کمال حاصل تھا۔ سیدپورہ میں آپ دن کے وقت ایک باغ میںجامن کے درخ کےنیچے شغل باطن میں مشغول رہتے تھے۔ اور رات کےوقت اپنے گھرمیں مشغول بحق رہتے تھے۔ جب درختوں کو پھل لگتا تھا نہ سادات کےبچے وہاں جاکر ڈھیلوں سے پھل توڑتے تھے اور کچھ ڈھیلے حضرت اقدس کےجسم کو بھ ی لگتے تھے۔ ایک دن آپ عالم محویت میں بیٹھے تھے کہ ایک پتھر آپکے سر پر آکر گرا جس سے آپ زخمی ہوگئے اور خون جاری ہوگیا۔ اس حالت میں آپ نے کہا کہ اے درختو تمہاری وجہ سےمجھے بہت تکلیف ہورہی ہے لیکن سادات کے بچوں کو بھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا آئندہ تم پھل مت لاو۔ صرف پھول ہونےچاہیں جنکو دیکھ کر مجھے فرحت ہو اور تم بھی بالکیہ عقیم (بےبار) نہ ہوجاؤ۔ کہتے ہیں کہ ان درختوں کو اس وقت سے لیکر آج تک پھل نہیں لگا۔ لیکن شگوفے بدستور نکلتے ہیں۔
حضرت شیخ ابراہیم کو حضرت شاہ بو علی قلندر پانی پتی سے قوی نسبت اور مکمل حضوری حاصل تھی۔ جس وقت انکی طرف متوجہ ہوتے تھے حاضر پاتے تھے ار ان سے جو کچھ پوچھتے تھے جواب با صواب پاتے تھے شاہ بو علی قلندر کی روحانیت ہر وقت آپ کی طرف متوجہ رہتی تھی اور فیض رسانی کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ شیخ پیر محمد جنیدی جو اپنے وقت کے مشہور ولی اللہ تھے شیخ ابراہیم کے خلفاء میں سے تھے آپکا مزار رامپور میں زیارت گاہ خلائق ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
[1]۔ شغل ہوا اس طرح کیا جاتا ہے کہ اندھیرے میں نظر سامنےکسی مقام پر جما کر کَانَ اللہُ وَلَمْ یَکُنْ مَعَہٗ شَئاً کا تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن آنکھ چھپکنے نہیں پائے۔ یہ شغل تکمیلی شغل ہے اور دیگر اذکار ومشاغل کے بعد آخر میں کیا جاتا ہے۔ خود بخود نہیں کرنا چاہیے بلکہ جس وقت مرشد کامل حکم دین اس وقت کرے۔
(قتباس الانوار)